ملک میں آج کل بچوں کے اغواء کا سلسلہ بھی چل رہا ہے‘ ہمارے چینلزروزانہ درجنوں خبریں دیتے ہیں‘ میں یہ ایشو بھی پڑھ رہا ہوں‘میں پولیس کے ان افسروں سے بھی رابطہ کر رہا ہوں جو مجرموں سے تفتیش کر رہے ہیں یا پھر اغواء کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں اور میں کوئی ریٹائر اغواء کار بھی تلاش کر رہا ہوں‘ یہ کوشش بھی میرے کام میں میچورٹی پیدا کر ے گی ‘ میں اسی طرح پانامہ لیکس‘ ٹی او آرز اور دنیا نے اس ایشو پر کیا قانون سازی کی اس پر بھی معلومات جمع کر رہا ہوں‘ یہ اضافی معلومات بھی آنے والے دنوں میں میرے کام آئیں گی۔
میرے پاس کیرئیر کے شروع میں تین موٹے موٹے رجسٹر ہوتے تھے‘ میں اخبارات سے اہم خبریں کاٹ کر ان رجسٹروں میں چپکا دیتا تھا‘ میں کتابوں کے اہم واقعات‘ اہم معلومات اور خوبصورت فقرے بھی ان رجسٹروں میں درج کر دیتا تھا‘ یہ معلومات‘ یہ واقعات اور یہ خبریں میرے خزانے تھے اور یہ آج تک میرے کام آ رہے ہیں‘ 2010ء کے بعد آئی فون اور آئی پیڈ نے رجسٹروں کی جگہ لے لی‘ میں اب خبروں کی تصویریں کھینچ کر فون میں محفوظ کر لیتا ہوں اور اہم معلومات فون کی نوٹ بک میں ٹائپ کر لیتا ہوں‘ آپ بھی یہ کر سکتے ہیں‘میں پچھلے 22 برسوں سے ایک اور پریکٹس بھی کر رہا ہوں‘ میں شروع میں روز تین اخبار پڑھتا تھا‘ یہ تعداد اب بڑھتے بڑھتے 19 اخبارات تک پہنچ چکی ہے۔
میں ان کے علاوہ اخبار جہاں‘ میگ‘ فیملی‘ ٹائم‘ نیوزویک اور ہیرالڈ بھی پڑھتا ہوں‘ میں یہ ٹاسک دو گھنٹے میں پورا کرتا ہوں‘ آپ دو اردو اور ایک انگریزی اخبار کو اپنی اولین ترجیح بنا لیں‘ آپ یہ تینوں اخبارات پورے پڑھیں اور اس کے بعد باقی اخبارات صرف سکین کریں‘ اخبارات کی 90 فیصد خبریں مشترک ہوتی ہیں‘ آپ ان نوے فیصد خبروں پر سرسری نظر دوڑائیں اور باقی دس فیصد ایکس کلوسیو خبروں کو تفصیل کے ساتھ پڑھ لیں‘ پیچھے رہ گئے میگزین‘ آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو آپ یہ میگزین خرید لیں‘ دوسری صورت میں آپ دفتر یا بک اسٹالز پر ان میگزین کی ورق گردانی کریں اور آپ کو جو مضمون اچھا لگے آپ موبائل سے اس کی تصویر کھینچ لیں اور جب فرصت ملے موبائل کھولیں‘ مضمون کی تصویریں نکالیں اور پڑھنا شروع کر دیں یوں آپ کی فرصت بھی کارآمد ہو جائے گی اور آپ کے علم میں بھی اضافہ ہو گا یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے ہم اگر جونیئر صحافی ہیں تو ہم اتنے اخبارات اور رسائل کیسے خریدیں گے‘ مجھے بھی کیریئر کے شروع میں یہ مسئلہ پیش آیا تھا‘ میں نے اس کا دلچسپ حل نکالا‘ میں ایک گھنٹہ پہلے دفتر چلا جاتا تھا۔
اخبارات کی فائل نکالتا تھا اور ساتھیوں کے آنے سے پہلے تمام اخبارات دیکھ لیتا تھا‘ آج کل انٹرنیٹ نے سہولت پیدا کر دی ہے‘آ پ دنیا جہاں کے اخبارات آن لائین پڑھ سکتے ہیں‘ آپ اسی طرح پانچ کالم نگاروں کی فہرست بنائیں‘ آپ انھیں روز ’’فالو‘‘ کریں‘ یہ عادت بھی آپ میں گہرائی پیدا کر دے گی‘ میں تیس برسوں سے کتابوں کی سمریاں بھی بنا رہا ہوں‘ میں جو کتاب پڑھتا ہوں‘ اس کی اہم معلومات‘ واقعات اور فقرے ڈائری میں لکھ لیتا ہوں‘ یہ ڈائری ہر وقت میرے بیگ میں رہتی ہے‘ مجھے جب بھی وقت ملتا ہے میں ڈائری کھول کر اپنی سمریاں پڑھتا ہوں‘ یہ عادت میری یادداشت کو تازہ کر دیتی ہے‘ میں نے پچھلے 16 برس سے بیگ کی عادت بھی اپنا رکھی ہے‘ میں درمیانے سائز کا ایک بیگ ہمیشہ ساتھ رکھتا ہوں‘ بیگ میں میرا رائیٹنگ پیڈ‘ آئی پیڈ‘ کوئی ایک کتاب اور ڈائری ہوتی ہے‘ مجھے جہاں فرصت ملتی ہے میں کتاب‘ ڈائری یا آئی پیڈ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں‘ آپ بھی یہ عادت اپنا لیں‘ یہ آپ کے لیے بہت فائدہ مند ہو گی‘ مجھے سفر کے دوران‘ ریستورانوں‘ کافی شاپس اور واک میں اکثر اوقات لوگ ملتے ہیں۔
یہ لوگ مجھ سے سوال بھی کرتے ہیں لیکن میں جواب دینے کے بجائے ان سے پوچھتا ہوں ’’آپ کیا کرتے ہیں‘‘ وہ جواب میں اپنا پروفیشن بتاتے ہیں اور میں پھر ان سے ان کے پروفیشن کے بارے میں پوچھنے لگتا ہوں یوں میری معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ آپ بھی اپنے ملاقاتیوں کو بتانے کے بجائے ان سے پوچھنا شروع کر دیں‘ آپ کے پاس بھی معلومات کا انبار لگ جائے گا اور آخری بات آپ یہ نقطہ پلے باندھ لیں جرأت اور غیر جانبداری صحافت کی روح ہے‘ آپ کسی قیمت پر غیرجانبداری کو قربان نہ ہونے دیں‘ آپ یہ پیشہ چھوڑ دیں لیکن آپ کی غیرجانبداری پر آنچ نہیں آنی چاہیے‘ آپ اپنے اندر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں‘ آپ کو خواہ پوری دنیا گالی دے لیکن آپ سچ کو سچ کہتے چلے جائیں آخر میں آپ ہی کامیاب ہوں گے‘ آپ کبھی تالی بجوانے یا واہ واہ کرانے کے لیے جھوٹ کا رسک نہ لیں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ جھوٹ لکھ یا بول کر تھوڑی دیر کے لیے تو واہ واہ کرا لیں گے لیکن بعد ازاںآپ کا پورا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔
میں آپ کو یہاں 2014ء کے دھرنوں کی مثال دیتا ہوں آپ کو یاد ہو گا 2014ء میں میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا‘ پہلا حصہ دھرنے کا حامی تھا‘ اس حصے کو دھرنے میں انقلاب بھی نظر آتا تھا اور حکومت کی گرتی ہوئی دیوار بھی جب کہ دوسرے حصے کا خیال تھا یہ دھرنا کامیاب نہیں ہو سکے گا‘ یہ لوگ اور ان لوگوں کو پارلیمنٹ ہاؤس تک لانے والے دونوں ناکام ہو جائیں گے‘ عوام نے میڈیا کے پہلے حصے کے لیے جی بھر کر تالیاں بجائیں‘ یہ لوگ قائدین انقلاب بھی کہلائے جب کہ دوسرے حصے کو دل کھول کر برا بھلا کہا گیا‘ انھیں گالیاں بھی دی گئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ وہ لوگ جنھیں غدار‘ لفافہ اور بکاؤ کہا گیا یہ آج بھی پیشہ صحافت میں موجود ہیں۔
یہ آج بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جب کہ کنٹینر پر چڑھ کر تبدیلی کا چاند دیکھنے والے تمام صحافیوں کا کیریئر ختم ہو گیا‘ میڈیا مالکان آج ان کے ایس ایم ایس کا جواب تک دینا پسند نہیں کرتے چنانچہ نقصان کس کا ہوا؟ ان لوگوں کا جو وقتی واہ واہ کے ریلے میں بہہ گئے تھے اور فائدہ کن کو پہنچا جنہوں نے سیلاب میں بھی زمین سے قدم نہ اٹھائے‘ آپ دوسری مثال ایم کیو ایم کی لیجیے‘ الطاف حسین نے 22اگست کو ٹیلی فون پر خطاب کیا‘ یہ تقریر اینٹی پاکستان اور ناقابل برداشت تھی‘ ملک کے بچے بچے نے الطاف حسین کی مذمت کی‘ یہاں بھی میڈیا دوگروپوں میں تقسیم ہو گیا‘ پہلے گروپ کا مطالبہ تھا حکومت ایم کیو ایم پر پابندی لگا دے جب کہ دوسرے گروپ کا کہنا تھا جرم الطاف حسین نے کیا ہے۔
ایم کیو ایم نے نہیں چنانچہ سزا صرف اور صرف الطاف حسین کو ملنی چاہیے‘ میں میڈیا کے دوسرے گروپ میں شامل ہوں‘ عوام مجھے اس جسارت پر بھی بڑی آسانی سے گالی دے سکتے ہیں لیکن حقائق اس کے باوجود حقائق رہیں گے اور حقیقت یہ ہے آپ دنیا میں جس طرح کسی شخص سے اس کی شہریت نہیں چھین سکتے بالکل آپ اسی طرح کسی سیاسی جماعت پر اس کے نظریات کی بنیاد پر پابندی نہیں لگا سکتے‘ مولانا مودوی کو 1948ء میں جہاد کشمیر کی مخالفت میں گرفتار کیا گیا‘یہ 1953ء میں تحریک ختم نبوت میں بھی گرفتار ہوئے اور ریاست نے انھیں موت کی سزا تک سنا دی لیکن جماعت اسلامی پر پابندی نہیں لگی‘ جئے سندھ کے جی ایم سید نے پوری زندگی پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا لیکن جئے سندھ پر پابندی نہیں لگی‘عوامی نیشنل پارٹی کے قائدخان عبدالغفار خان نے پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا تھا۔
ان کی قبر آج بھی جلال آباد میں موجود ہے لیکن اے این پی نے بعد ازاں حکومتیں بھی بنائیں اور یہ آج بھی ایوانوں میں موجود ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے عسکری ونگ الذوالفقار نے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن ریاست پیپلز پارٹی پر پابندی نہ لگا سکی‘ پارٹی نے اس کے بعد تین بار وفاقی حکومتیں بنائیں‘ آپ اسی طرح بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا ڈیٹا دیکھ لیجیے‘بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)‘ نیشنل پارٹی ‘ جمہوری وطن پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ان تمام بلوچ سیاسی جماعتوں پر مختلف اوقات میں مختلف الزام لگتے رہے لیکن ریاست نے ان پرکبھی پابندی نہیں لگائی‘میرے کہنے کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں پر پابندیاں نہیں لگا کرتیں اور اگر ریاستیں یہ غلطی کر بیٹھیں تو پھر سیاسی جماعتیں ملیشیا بن جاتی ہیں‘ یہ ملک میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیتی ہیں اور کوئی ملک یہ افورڈ نہیں کر سکتا‘ آپ اگر صحافی ہیں تو آپ پھر جرم اور مجرم کو ’’فوکس‘‘ کریں‘ آپ کبھی مجرم کے گھر اور لواحقین کو جرم کی سزا نہ دیں‘ ایم کیو ایم بطور سیاسی جماعت ایک حقیقت ہے‘ آپ اس حقیقت کو ہمیشہ حقیقت مانیں‘ پیچھے رہ گئے الطاف حسین اور ان کے سہولت کار تو تمام پاکستانی ان کی حرکتوں‘ ان کی فلاسفی اور ان کے خیالات کے خلاف ہیں‘ ریاست کو بہرحال ان کا منہ بند کرنا ہوگا۔
آپ جونیئر صحافی ہیں‘ آپ یاد رکھیں حقائق داغ دار سیب کی طرح ہوتے ہیں‘ عقل مند لوگ سیب کا صرف گندہ حصہ کاٹتے ہیں‘ پورا سیب نہیں پھینکتے‘ آپ بھی صرف گندہ حصہ کاٹیں پورے سیب کو ٹھوکر نہ ماریں۔
تبصرہ لکھیے