پنجاب پولیس میں نظر آنے والی تبدیلیاں خوشگوار حیرت کا باعث بنتی جار ہی ہیں۔ کسی بھی فورس کی ہائی کمان جتنی بہتر ہو نچلی سطح پر بھی اتنا ہی مورال بلند ہوتا ہے۔ حال ہی میں پنجاب پولیس نے یہ ثابت کیا ہے کہ پولیس نہ صرف منظم فورس ہے بلکہ انقلابی تبدیلوں کا سفر بھی تیزی سے طے کر رہی ہے۔ چودہ اگست کے موقع پر پنجاب پولیس جس طرح ون ویلنگ کے خلاف ایکشن میں نظر آئی اس کی تعریف سبھی نے کی ۔ پہلی بار پنجاب کے 36 اضلاع میں ایک بھی شہری ون ویلنگ کے نتیجے میں زخمی یا جاں بحق نہیں ہوا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کی جانیں محفوظ بنا کر پنجاب پولیس نے والدین کو جشن آزادی کا تحفہ پیش کیا ہے۔
ہم پولیس پر تنقید کرتے ہیں لیکن صحافتی اقدار بتاتی ہیں کہ اچھے نتائج کی صورت میں تعریف بھی ہمارا فرض ہے۔ حال ہی میں چند واقعات سامنے آئے ہیں جنہیں ہم ٹیسٹ کیس کے طور پر لے سکتے ہیں۔ کچھ دن قبل قصور میں ایک کیمرہ مین اپنے کاغذات گم ہونے کی رپورٹ لکھوانے پولیس اسٹیشن گیا۔ محرر نے اس سے رپٹ درج کرنے کے لیے 500 روپے مانگ لیے۔ اس کیمرہ مین نے رشوت دینے کے بجائے پولیس ہیلپ لائن 8787 پر فون کر دیا اور اپنی شکایت درج کروا دی۔ کمپلین سینٹر والوں نے اس سے دو گھنٹے کا وقت مانگا لیکن 20 منٹ بعد ہی اس کے موبائل پر ایک اجنبی نمبر سے فون آیا۔ یہ فون ایک ضلع کے ڈی پی اوکی جانب سے تھا۔ انہوں نے اس سے مسئلہ دریافت کیا اور پھر محرر سے بات کروانے کا کہا۔ محرر کو یہ یقین ہی نہیں تھا کہ ایک عام سے شخص کو خود ڈی پی او فون کر رہا ہے۔ اس نے روایتی انداز میں بات ٹال دی اور فون سننے سے انکار کر دیا۔ جب دوسری بار اسے کہا گیا کہ ڈی پی او لائن پر ہیں تو محرر نے باقاعدہ طور پر اس شہری کا مذاق اڑایا۔ محرر اور اس شہری کے درمیان یہ مکالمے ڈی پی او بھی فون پر سن رہے تھے۔انہوں نے شہری کو موبائل کا سپیکر آن کرنے کا کہا اور پھر ڈی پی او کے روایتی انداز اور غصے نے محرر کو اس حد تک فعال کر دیا کہ اگلے ہی لمحے نہ صرف اس شہری کی رپٹ درج ہو گئی بلکہ 500 روپے مانگنے والا محرر اپنے پیسوں سے اس رپٹ کی فوٹو کاپی کروا کر شکریہ کے ساتھ شہری کو تھماتا نظر آیا۔
دوسرا واقعہ دو روز قبل ہی لاہور کے علاقہ اچھرہ میں پیش آیا۔ یہاں شہری صبح دفاتر جانے کے لیےگھروں سے نکلے تو ایک 20 سالہ لڑکی کو اپنے سامان سمیت سڑک کنارے بیٹھا دیکھ کر چونک اٹھے۔ لڑکی اس قدر پریشان تھی کہ اپنے بارے میں کچھ بتانے پر بھی آمادہ نہیں تھی اور نہ ہی کسی پر اعتبار کرنے کو تیار تھی۔ اس کے انداز سے لگتا تھا کہ وہ غصہ ، بے بسی اور پریشانی کے اثرات کے تحت رات بھی سڑک پر بسر کرنے کا ارادہ کیے ہوئے ہے۔ یہیں ایک چینل سے منسلک صحافی اشفاق کھوکھر بھی رہتا ہے۔ رات گئے تک ڈیوٹی کرنے والے صحافیوں کی صبح عموما بارہ بجے کے بعد ہوتی ہے۔ اشفاق بھی اپنے معمول کے مطابق دفتر جانے کے لیے باہر آیا تو معلوم ہوا کہ آدھا دن گزر جانے کے باوجود لڑکی سڑک پر ہی بیٹھی تھی اور لوگ محض تماشائی کا کردار ادا کر رہے تھے۔ اس صحافی نے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے پولیس انفارمیشن اینڈ میڈیا سیل سے رابطہ کیا۔ اگلے ہی لمحے ڈی آئی جی آپریشن پنجاب عامر ذوالفقار صاحب نے اس کا نوٹس لے لیا۔ ایس ایس پی آپریشن لاہور کو احکامات موصول ہوئے کہ فورا اس بچی کی حفاظت کو یقینی بناتے ہوئے اس کے والدین کا پتہ کریں۔ اسی دوران اچھرہ پولیس اسٹیشن سے سب انسپکٹر سرور وہاں پہنچ گئے۔ اسی تھانے کی لیڈی کانسٹیبل کو بھی بلوا لیا گیا۔ چند لمحات میں اس لاوارث بچی کے لیے منظر نامہ بدل گیا۔ پولیس نے تفتیش کی تو معلوم ہوا کہ یہ بچی وہیں ایک ہاسٹل میں دو تین دن سے رہ رہی تھی لیکن اس کے کوائف مکمل نہیں تھے۔ ہاسٹل والوں کا کہنا تھا کہ مکمل کوائف اور والدین کی عدم موجودگی میں وہ کسی کو نہیں رکھ سکتے۔ دو تین دن تک لڑکی کے والدین آئے اور نہ ہی اس کے کوائف مکمل ہوئے تو ہاسٹل انتظامیہ نے اسے نکال دیا۔ لڑکی کسی حد تک نفسیاتی مریضہ بھی تھی۔ اس نے ہاسٹل انتظامیہ کے اس رویے پرنتائج کی پروا کیے بنا اپنے گھر اطلاع دینے کے بجائے سڑک پر ہی رہنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ پولیس کے سامنے اب ایک اور مسئلہ تھا۔ پولیس آفیسرز اس بچی کو پولیس اسٹیشن لے جا کر مزید خوفزدہ نہیں کرنا چاہتے تھے لہذا ہاسٹل انتظامیہ سے درخواست کی گئی کہ لیڈی کانسٹیبل کی نگرانی میں اسے کچھ دیر مزید ہاسٹل میں ہی رکھا جائے۔ اس دوران اس کے والدین سے رابطہ کیا گیا۔ شام تک کراچی کے علاقے ناظم آباد سے اس کی والدہ اور بھائی لاہور پہنچ گئے۔ پولیس نے ضروری کارروائی کے بعد بچی کو ان کے حوالے کر دیا جبکہ پولیس کو اطلاع دینے والے شہری کا بھی باقاعدہ شکریہ ادا کیا گیا۔
ایسے کئی واقعات حال ہی میں سامنے آئے ہیں لیکن ہم ان دو واقعات کو ٹیسٹ کیس بناتے ہیں۔ غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ شعور اجاگر ہونے سے مسائل ختم ہونے لگتے ہیں۔ پہلے کیس میں اگر کیمرہ مین 500 روپے رشوت دے کر اپنی رپٹ لکھوا لیتا تو ہمارے سامنے یہ کہانی کبھی نہ آتی۔ اس کیمرہ مین نے ایک شخص کی کرپشن کو پورے ڈیپارٹمنٹ کی کرپشن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور کمپلین سینٹر شکایت درج کروا دی۔ یہ اس کے اعتماد کی پہلی سیڑھی تھی لیکن اس اعتماد کی وجہ سے ایک کرپٹ محرر کی نشاندہی ہوئی اور رشوت کا ایک سلسلہ ختم ہو گیا۔ دوسرے کیس میں پولیس کو اطلاع دینے والا ایک چینل کا صحافی تھا۔ اس نے بھی روایت سے ہٹ کر اپنا فرض ادا کیا۔ اس کے پاس بہت اچھا موقع تھا کہ وہ اس بچی کے ساتھ کوئی سانحہ برپا ہونے کا انتظار کرتا اور پھر اس حادثہ کے بعد پولیس اور انتظامیہ کے خلاف بھرپور خبر بنا کر ریٹنگ گیم کی دوڑ میں شامل ہو جاتا۔ اس علاقے میں یہ خبر ’’سب سے پہلے‘‘ وہی بریک کروا سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایک ذمہ دار شہری کے طور پر پولیس کو اطلاع دی۔ اس کی وجہ سے ایک بچی نہ صرف اپنے والدین کو مل گئی بلکہ اس کی عزت و آبرو بھی محفوظ رہی۔
یہ دونوں واقعات بتاتے ہیں کہ پولیس اس وقت تک اپنا کردار ادا نہیں کر پاتی جب تک اسے شہریوں کا اعتماد حاصل نہ ہو۔ دنیا بھر میں لوگ حادثات اور مشکوک افراد کی اطلاع پولیس کو دیتے ہیں۔ مہذب معاشرے میں ہر شہری پولیس کی آنکھ اور کان ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ اب ہمیں ہی سوچنا ہے کہ یہ ملک ہمارا ہے تو پھر اسے کوئی اور نہیں بلکہ ہم ہی ٹھیک کریں گے۔ ہم نہ تو خاموش تماشائی ہیں اور نہ ہی ملک کی جڑیں کھود کر انتشار پھیلانے والے مفاداتی کیڑے ہیں۔ شعور تبدیلی کی پہلی سیڑھی ہے۔ حالیہ اقدامات سے محسوس ہوتا ہے کہ پولیس نے تبدیلی کا اعلان کر دیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں ؟
تبصرہ لکھیے