حجاج کی آمد آمد ہے۔ روزانہ ہزاروں لوگ دنیا کے چاروں کونوں سے سمٹے سمٹے دیوانہ وار چلے آرہے ہیں۔ اللہ کی مخلوق ہے، اس کی کائنات کے نرالے انداز ہیں۔ کہیں معصوم اور مسکین بنے ملائشین، انڈونیشین ہیں، تو کہیں’’اللھم صل علی سیدنا محمد النبی الامی وعلی آلہ وصحبہ وسلم‘‘ کا خاص لے میں ورد کرتے ترک ہیں۔ کہیں سادگی اور دینداری سے اٹے ہوئے جرت مند غیور افغان ہیں،جو 40 سال سے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے بعد بھی اسی استقلال سے دیوانہ وار حج وعمرہ کے لیے آرہے ہیں اور دوسرے ملکوں میں گھوم پھر رہے ہیں۔ تو کہیں پاکستان کے منفرد حجاج ہیں، جو مکہ و مدینہ کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ یہاں پہنچ کر اپنے گھر کی طرح آزاد گھومتے ہیں، وہی عادات، وہی باتیں، وہی انداز اپناتے ہیں۔ مدینہ منورہ کے ایئرپورٹ پر بارہا اندازہ ہوا کہ دوسرے ملکوں کے حجاج کو جہاں انتظامیہ والے بٹھائیں وہاں سے بالکل نہیں ہلتے، یہ انوکھے پاکستانی ہیں کہ کوئی ادھر ادھر کھڑے ہوکر اردگرد کی چیزوں کا نظارہ کرتے ہیں تو کوئی گروپ بنا کر ایک دوسرے کو اپنے تجربات سے مستفید کر رہے ہوتے ہیں۔ اپنے ملک کے لوگوں کو دیکھ کر خاص کر جو خدا کے مہمان بن کر آئے ہوں، خوشی دوبالا ہوجاتی ہے۔ ادھر افریقہ کے تپتے صحراؤں سے آئے ہوئے مضبوط حجاج بھی نظر آتے ہیں، جو عموما اپنے رفیق سفر کے ساتھ آئے ہوتے ہیں۔ چین و جاپان، ہند و بنگلہ دیش، فرانس، جرمنی، کینیڈا اور امریکہ، نہ جانے کون کون سے ملکوں سے خدا کی مخلوق دیوانہ وار گھومتی ہوئی ملتی ہے۔
مختلف نسلوں اور قوموں کے یہ لوگ ایک دوسرے کی زبان تک نہیں سمجھتے۔ ایک دوسرے کی ثقافت اور کھانے تک کو نہیں اپناسکتے، مگر خدا کی شان دیکھیے کہ یہ ایک ساتھ مل کر بات چیت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ایک ساتھ مل کر رحمت للعالمین صلي اللہ عليہ وسلم کے حضور پیش ہو کر آنسو بہا کر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ خدا کے دربار میں ایک ساتھ مل کر آہوں اور سسکیوں سے خدا کو راضی کرتے ہیں۔ عجیب دنیا بسی ہے حرمین شریفین کے آنگن میں، جسے دنیا گلوبل ویلج کہتی ہے، وہ ساری دنیا بس ایک ’’اللہ اکبر‘‘ کی صداپر لبيك كہہ کر ایک ہی طرف رواں دواں ہوجاتی ہے۔ ایک ہی صف میں محمود و ایاز کھڑے ہوکر رب کے حضور رب کے دین کے غلبہ کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے محسن ومربی کی دعوت و صداقت کی گواہی دیتے ہیں۔
بخدا مکہ و مدینہ کی دونوں بستیوں کے آنگن میں ان دنوں ایک نئی کائنات بسی ہے۔ ایک طرف کعبہ کے در و دیوار سے چمٹ کر رب کو منانے کے لیے بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے والےگورے، کالے، بوڑھے، نوجوان، مرد و عورت ہیں، تو دوسری طرف ہادی عالم کے دربار میں خوف اور ہیبت سے حاضری دینے والے عشاق، جو روضہ اقدس کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زندگی کی کوتاہیوں پر نادم ہوتے ہیں اور اپنے آقائے حضور سے آنکھوں میں آنسو سجائے خدا کے حضور سفارشی بننے کے لیے منتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ چاہے جتنے بھی سنگدل ہوں مگر یہاں آ کر آپ کا سینہ موم کی طرح پگھل جائے گا۔ آپ کے آنسو آپ کو لازوال سکون مہیا کریں گے جسے آپ مرتے دم تک یاد رکھیں گے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو کائنات کی ان دو بےمثال عظیم بستیوں کے آنگن میں بسیرا کرنے دوڑے دوڑے آتے ہیں۔ل ائق تحسین ہیں ان کی دعائیں، ان کی اولادیں اور ان کا مال جو رب کے دربار اور رب کے محبوب پیش ہوکر ان کی رضا حاصل کرنے کاسبب بنتے ہیں۔
خدا کے ان خصوصی مہمانوں کی ضیافت کے لیے بےمثال انتظامات کیے جاتے ہیں۔ ائیرپورٹ آمد سے لے کر مقدس مقامات کی زیارات، عبادات، کھانے پینے، رہائش، آنے جانے غرض ہر جگہ اللہ کے مہمانوں کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے ہیں۔ مدینہ منورہ اورجدہ کے ائیرپورٹس پر روزانہ درجنوں حاجیوں کی فلائٹس اتر رہی ہیں۔ پچھلے سال ساڑھے 13 لاکھ سے زائد حجاج نے حج کی سعادت حاصل کی تھی۔ اس سال 17 لاکھ تک حجاج متوقع ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کے لیے نظم وضبط ایک جہد طلب چیلنج ہے۔ حج انتظامات کااندازہ اس سے بآسانی لگایاجاسکتا ہے کہ ایئرپورٹس پر جب حجاج اترتے ہیں تو انتظامی ضرورت کی وجہ سے ہر حاجی سے پاسپورٹ لے لیا جاتا ہے، پھر واپسی پر دیا جاتا ہے۔ اندازہ کریں کہ ساڑھے 13 لاکھ حاجیوں کے پاسپورٹ لے کر حفاظت سے رکھنا اور پھر بروقت واپسی کرنا کتنے حسن انتظام کا تقاضا کرتاہے۔ پھر منی میں 13 لاکھ سے زائد خیموں اور دیگر ضروریات کا انتظام، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں نمازوں، ہوٹلز اور آمدورفت کے راستوں کے لیے مناسب انتظامات بغیر کسی اسلحے، بغیر کسی لاٹھی ڈنڈے، دھکم پیل اور ڈانٹ ڈپٹ کے انجام دینا واقعی ایک داد طلب کارنامہ ہے جس کی جتنی زیادہ تعریف کی جائے کم ہے۔ پھر لاکھوں حجاج کو مکہ سے مدینہ، مدینہ سے مکہ پرامن طور پر منتقل کرنا بھی ایک جہد طلب کام ہے۔ اتنی بڑی تعداد کو صفائی ستھرائی کا اعلی معیار دینا ایک معجزہ ہے، یومیہ 2169 ٹن کچرہ اور استعال شدہ چیزیں اٹھا کر ٹھکانے لگانا کتنا مشکل کام ہے اس کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتاہے۔
پچھلےسال منی میں بھگدڑ اور مطاف میں کرین حادثے کی وجہ سے اس سال سعودی حکومت نے حج کے لیے خصوصی انتظامات کیے ہیں۔ مطاف صرف طواف کرنے والوں کے لیے خاص کردیا گیا ہے، موسم حج کے اختتام تک نمازی مطاف میں صرف طواف کرسکیں گے، نمازیں نہیں پڑھ سکیں گے۔ کسی بھی قسم کے ممکنہ حادثے اور نظم وضبط برقرار رکھنے کے لیے جمرات کی رمی کے لیے بھی اس سال خصوصی طور پر اوقات متعین کیے گئے ہیں، جس کے مطابق رمی جمرات کے تین دنوں میں 10 گھنٹے حجاج رمی کے لیے اپنے خیموں سے باہر نہیں نکلیں گے۔ دسویں ذوالحجہ کو صبح 6 سے ساڑھے دس تک، گیارہ کو دن 2 سے 4 بجے تک، اوربارہ کو دن ساڑھے دس سے ظہر 2 بجے تک۔ اسی طرح اس سال 17ہزار سے زائد خصوصی پولیس اہلکار اور 3 ہزارسے زائد جدید آلات حجاج کے امن وسلامتی کے لیے الرٹ کیے گئے ہیں اورحج انتظامات میں کسی بھی قسم کی بدنظمی سے نمٹنے کے لیے جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرےلگائے گئے ہیں۔ حاجیوں کو کسی بھی قسم کی پریشانی سے بچانے کے لیے سعودی حکومت اس دفعہ بھرپور طریقے سے الرٹ ہوگئی ہے۔ اس سال غیرقانونی حجاج کا داخلہ روکنے کے لیے بھی سخت سکیورٹی رکھی گئی ہے، ابھی تک 70 ہزار سے زائد غیرقانونی حجاج کو مکہ داخل ہونے سے روکاگیا ہے۔ اور غیرقانونی حجاج کو منتقل کرنے والی 28 ہزار سے زائد گاڑیوں کو بھی پکڑ لیا گیا ہے۔ غیر قانونی حجاج کو مکہ داخل ہونے سے روکنے کی بڑی وجہ حج انتظامات کو کنٹرول رکھنا ہے، کیوں کہ منی میں خیمے اور دیگر انتظامات صرف اتنے حجاج کے لیے کیے جاتے ہیں، جو باقاعدہ رجسٹر ہو کر حج کرتے ہیں۔ غیرقانونی حجاج کی آمد انتظامات میں خلل کا باعث بنتی ہے۔ نیز اس کا مقصد غیر قانونی حج کمپنیوں کی باز پرس بھی ہے جو حجاج سے پیکیج کے پورے پیسے لے کر غیرقانونی حج کا راستہ دکھا کر انہیں مشکلات میں ڈالتے ہیں۔ یاد رہے کہ غیرقانونی حج پر جیل، سعودی عرب سے بے دخلی اور نقدی جرمانہ وغیرہ کیا جاتا ہے۔
پاکستانی حجاج کے لیے حج کمیشن نے اس سال بھرپور انتظامات کیے ہیں، تقریبا سارے حاجیوں کو پچھلے سال کی طرح حرمین کے انتہائی قریب رہائشیں فراہم کی گئی ہیں۔ ماضی میں یہ شکوہ کیا جاتا رہا ہے کہ انڈین حجاج سستے پیکیج میں زیادہ سہولیات اٹھاتے ہیں، لیکن اس بار راقم نے ازخود انڈین حجاج سے ملاقات کرکے ان کے پیکیج اور سہولیات کا پاکستانی حجاج کی سہولیات سے موازنہ کیا، انڈین حجاج سے پاکستانی حجاج کی بنسبت زائد رقم وصول کی گئی، اور رہائش بھی حرم سے بہت دور دی گئی، جہاں بہت سی سہولیات ناپید ہیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ حج تمام عبادات میں مشکل، پرمشقت اور انتہائی صبر طلب عبادت ہے، اور اس کا اجرب ھی اسی وجہ سے بےانتہا ہے،اس قدر بھیڑ اور سخت گرمی میں انسانی طبعیت فطرتا ہمت ہار جاتی ہے، اس میں دوسروں کےساتھ بداخلاقی ہوجانا بعید نہیں. اللہ نے اسی مشقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دوران حج گالم گلوچ، فسق وفجور اور باہمی جدل و جدال سے روکا ہے اور صبر کی تلقین کی ہے۔ اس لیے نہ صرف حجاج بلکہ میزبانوں کو بھی اس دوران بھرپور صبر سے کام لیناچاہیے اور عام لوگوں کو حرمین شریفین، حج منتظمین اور حجاج کے لیے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے