ہوم << مسیحا اعظم ﷺ - پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

مسیحا اعظم ﷺ - پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی

عبداللہ بھٹی مشرکین مکہ کی شدید مخالفت، دشمنی، ظلم و جبر، ترغیب اور پرکشش پیشکشوں کے باوجود اسلام کا نور تیزی سے پھیلتا جا رہا تھا. مشرکین مکہ کسی صورت بت پرستی اور اپنے آبائو اجداد کا مذہب چھوڑنے کو تیا ر نہیں تھے اور خدا کا پیغام ماننے کے بجائے اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کے سامنے ماتھا رگڑنا افضل سمجھتے تھے۔ اسلام کے دشمنوں میں سرفہرست ابوجہل نے اسلام اور پیارے آقا ﷺ کو نقصان پہنچانے کی بہت کوشش اورسازشیں کیں لیکن ربِ کعبہ کے فضل و کرم سے اُس کی ہر کوشش و یورش ناکام ہوئی، اُس کی شدید دشمنی کے باوجود سیدالانبیاء ﷺ کا نام دن بدن سورج کی طرح جزیرہ عرب میں پھیلتا اور مسلمانوں کی تعداد میں ہرگزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا تھا. ابوجہل کی ساری کوششیں رائیگاں جا رہی تھیں اور ناکامی کی وجہ سے بےحد جلن، شکست اور توہین کی آگ میں دن رات جل رہا تھا.
ابوجہل دن رات اسلام اور پیارے آقا پاک ﷺ کو ختم کر نے کے منصوبے بناتا رہتا تھا. آخر اُس نے ایک اور سازش کا منصوبہ بنایا. اُس کا ایک دوست حبیب ابن مالک تھا جو یمن کا رہنے والا تھا، ایک پہلوان اور اپنے قبیلے کا سردار بھی تھا. ابوجہل جب ہر طرف سے ناکام ہوگیا تو اُس نے اپنے یمنی دوست کو پیغام اور مدد کے لیے پکارا کہ تم میرے کیسے دوست ہو، میرے اوپر مشکل آگئی ہے، تم میری مدد کو نہیں آئے؟ مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اِس لیے فوری طور پر چلے آئو. دوست کی پکار سن کر حبیب یمنی فوری طور پر چلا آیا اور آکر ابوجہل سے پوچھا کہ کون سی مشکل آن پڑی ہے جو تمہارے جیسا سردار اور مضبوط آدمی بھی پریشان ہوگیا؟ ابوجہل نے پریشان لہجے میں کہا کہ محمد (ﷺ) نے نبوت کا دعوی کر دیا ہے اور کہتا ہے کہ خدا ایک ہے، اس سے بڑی مشکل اور کیا ہوگی کہ وہ ہمارے خدائوں کو نہیں مانتا اور ایک خدا کی بات کرتا ہے. ہمارے آبائواجداد کے مذہب کو ترک کر دیا ہے اور کہتا ہے کہ یہ سارے خدا جھوٹے ہیں، یہ کسی کو کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کا کچھ بگاڑ سکتے ہیں، ہم نے اُس کے پیغام کو روکنے کی بہت کوشش کی ہے لیکن وہ دن بدن طاقتور ہوتا جا رہا ہے، اُس کو ماننے والوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، وہ غلام اور آقا کو برابری کا حق دیتا ہے، اس طرح تو ہمارا مذہب اور کلچر تباہ ہو جائے گا. حبیب یمنی نے ساری بات سننے کے بعد کہا تم پریشان نہ ہو، اِس کا حل یہ ہے کہ تمام سردارانِ قریش کا اجلاس بلائو اور محمد(ﷺ) کو بھی اُس جلسے میں بلائو. میں وہاں ان سے کچھ سوالات کروں گا.
نبی کریم ﷺ کو جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی، آپ سرکار ﷺ شرکت کے لیے تشریف لائے. رات کا وقت تھا، چودھویں کی رات کی وجہ سے آسمان پر چاند پوری آب و تاب کے ساتھ روشن تھا. سرور کونین ﷺ کی آمد سے پہلے ابوجہل نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو جب محمد (ﷺ) یہاں آئیں تو اُن کے احترام میں کوئی بھی کھڑا نہیں ہوگا اور نہ ہی کوئی اُن سے عزت و احترام سے پیش آئے گا. تمام مشرکین نے ابوجہل سے ایسا ہی کر نے کا وعدہ کیا۔ لیکن جس کی عزت ربِ ذوالجلال کرانا چاہے، اُسے کون کم کر سکتا ہے، جیسے ہی سرتاج الانبیاء ﷺ اجلاس میں تشریف لائے تو سب سے پہلے جس شخص نے کھڑے ہو کر آپ ﷺ کا استقبال کیا، وہ ابوجہل تھا. ابوجہل کو احتراما کھڑا ہوتے دیکھ کر باقی سردار بھی اپنی اپنی جگہوں پر احتراماً کھڑے ہو گئے. اجلاس ختم ہوا تو تمام لوگوں نے ابوجہل سے کہا کہ تم نے ہمیں تو کھڑا ہو نے سے منع کیا تھا لیکن خود سب سے پہلے محمد (ﷺ) کے احترام میں کھڑے ہوگئے تو ابوجہل کہنے لگا کہ جب محمد (ﷺ) تشریف لائے تو میرا احترام میں کھڑا ہونے کا کوئی ارادہ نہ تھا لیکن جیسے ہی محمد (ﷺ) اجلاس میں آئے تو کسی قوت نے میرے دونوں کان پکڑا کر مجھے کھڑا کر دیا. میں نے کھڑا نہ ہو نے کی پوری کوشش کی لیکن مجھے یوں محسوس ہوا کہ اگر میں کھڑا نہ ہوا تو میرے دونوں کان جڑ سے اکھاڑ دیے جائیں گے، اس طرح مجھے زبردستی کھڑا کر دیا گیا۔
نبی رحمت ﷺ جب قریش کے اجلاس میں تشریف لائے تو حبیب ابن مالک کی جیسے ہی نظر محبوب خدا ﷺ کے چہرہ انور پر پڑی تو دل میں سوچا کہ ایسا نورانی چہرہ کسی جادوگر یا جھوٹے کا ہو ہی نہیں سکتا، یہ ہستی ضرور اللہ تعالی کی جانب سے مبعوث کی گئی ہے لیکن پھر بھی رسول اقدس ﷺ سے سوال کیا کہ آپ ﷺ کس بات کی دعوت دیتے ہیں؟ تو شافع دوجہاں، نبی رحمت مجسم ﷺ دلنواز تبسم سے فرمایا اس بات کی کہ اللہ ایک ہے، وہ وحدہ لاشریک ہے اور میں محمد ﷺ اللہ کا رسول ہوں۔ پیارے آقا پاک ﷺ کے لہجے کی مٹھاس، شفیق تبسم اور سچائی سے حبیب ابن مالک متاثر ہو رہا تھا لیکن پھر بھی ہمت کر کے بولا کہ جس طرح ماضی کے تمام رسولوں کو اللہ تعالی نے مختلف معجزے عطا کیے تھے، اسی طرح اگر آپ ﷺ اللہ کے رسول ہیں تو آپ ﷺ کے پاس کون سا خاص معجزہ ہے تاکہ اس معجزہ کو دیکھ کر ہم آپ ﷺ کے دعوے کی سچائی کو مان سکیں تو آقائے دوجہاں ﷺ نے پراعتماد اور ٹھوس لہجے میں فرمایا کہ اے حبیب تو بتا، تجھے کیا چاہیے جس سے تم میری اور خدا کی سچائی کو مان جائو؟ شاہ عرب سرتاج الانبیاء اور سرور دوجہاں ﷺ کی بات سن کر حبیب ابن مالک نے دل ہی دل میں سوچا کہ اگر واقعی محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں تو میں ان سے دو باتوں کا مطالبہ کرتا ہوں کہ ایک ظاہری طور پر اور دوسری باطنی طور پر کیونکہ اللہ کے نبی دل کی بات کو بھی بوجھ لیتے ہیں. حبیب ابن مالک کی ایک معذور بیٹی تھی جو پیدائشی معذور تھی، چل پھر نہیں سکتی تھی، ہر وقت بےحس و حرکت لیٹی رہتی تھی، اپنی بیٹی کی معذوری کی وجہ سے حبیب ابن مالک بہت اداس اور پریشان رہتا تھا. اس نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنی بیمار اور معذور بیٹی کی بات اپنے دل میں ہی پوشیدہ رکھوں گا. اگر محمد ﷺ واقعی اللہ کے سچے رسول ﷺ ہوئے تو آپ ﷺ میرے دل کی بات جان جائیں گے، جب حبیب ابن مالک سوچنے لگا تو تمام مہمان اُس کے منہ کی طرف دیکھنے لگے کہ یہ کیا سوچ رہا ہے، اور اب یہ محمد ﷺ سے کیا بات یا مطالبہ کر ے گا؟
آخر حبیب ابن مالک نے سکوت کو توڑا اور آسمان پر چودھویں کے چاند کی طرف دیکھا اور کہا کہ میرا ایک مطالبہ تو یہ ہے کہ آپ ﷺ چاند کے دو ٹکڑے کر دیں. رسول دو جہاں ﷺ نے حبیب کی بات سنی تو آپ ﷺ کے چہرے کا ابدی تبسم اور بھی گہرا اور روشن ہوگیا. آپ ﷺ نے فرمایا کہ آئو سب لوگ میرے ساتھ صفا پہاڑ پر چلو اور پھر تمام لوگ صفا پہاڑ پر آگئے اور پھر پہاڑ پر کھڑے ہو کر سرورکائنات ﷺ نے اپنی شہادت کی انگلی سے چاند کی طرف اشارہ کیا تو سب نے حیران کن منظر دیکھا کہ آسمان کی بلندیوں پر روشن چاند نے سرورکو نین ﷺ کے اشارے پر لبیک کہتے ہوئے خود کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا اور پھر ان ٹکڑوں کا درمیانی فاصلہ بڑھتا چلا گیا کہ ایک ٹکڑا پہاڑ کے ایک طرف تو دوسرا پہاڑ کے دوسری طرف چلا گیا. چاند نبی کریم ﷺ کے اشارے پر دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا تھا، کافی دیر کے بعد حبیب بولا کہ اب چاند کو دوبارہ جوڑ دیں تو سردارالانبیاء ﷺ نے اشارہ کیا اور چاند کے ٹکڑے آپس میں مل گئے. پھر سرور عالم ﷺ نے فرمایا کہ اے حبیب تمہارا دوسرا مطالبہ کیا ہے؟ حبیب آپ ﷺ کا معجزہ دیکھ کر ایمان لانے کا فیصلہ کر چکا تھا، بولا آپ ﷺ خو د ہی معلوم کرلیں کہ میرے دل میں کیا ہے؟ تو آقا کریم ﷺ نے فرمایا تو سن تیرے دل میں کیا ہے؟ تیری ایک بیٹی ہے جو پیدائشی معذور ہے اور تو چاہتا ہے کہ وہ تندرست ہو جائے، گھر جا، وہ تندرست ہوگئی، اُس کی معذوری ختم ہو چکی ہے. حبیب نے یہ سنا تو فورا کلمہ توحید پڑھ کر اسلام کے رنگ میں رنگا گیا اور بھی بہت سارے لوگوں نے کلمہ پڑھ لیا۔ حبیب گھر پہنچا، دروازے پر دستک دی تو اُس کی بیٹی نے ہی دروازہ کھولا، اس کی زبان پر بھی کلمہ شریف کا ورد تھا. حبیب پوچھا کہ بیٹی تجھے یہ کلمہ کس نے پڑھایا تو بیٹی بولی ابا جان آپ جس پاک ہستی کے پاس گئے تھے، وہ یہاں تشریف لائے تھے، انہوں نے اپنا دست مبارک رکھا تو مجھے مکمل شفا ہوگئی اور پھر مجھے کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیا. حبیب نے وقت پوچھا تو بیٹی نے جو وقت بتایا اُس وقت حبیب سرور دوجہاں ﷺ کے ساتھ صفا پہاڑ پر کھڑا تھا۔ سبحان اللہ

Comments

Click here to post a comment