وضع داری، شرافت، سچ، شائستگی، اخلاق، رکھ رکھاؤ یہ وہ الفاظ ہیں جو عرصہ ہوا ہماری سیاست سے عنقا ہو چکے۔ وعدہ نبھانا، قول کا پکا ہونا، حمیت، حب الوطنی اور اصول، یہ وہ چیزیں ہیں کہ نام تھا جن کا گئیں تیمور کے گھر سے۔ قائداعظم کا اخلاق، علامہ اقبال کی فکر کسی کو یاد نہیں، صرف نام اور نعرے یاد ہیں، یا ان کی تصویریں پوسٹروں پر لگانا آتا ہے۔
آج جو چیخ چیخ کر الطاف حسین سے برات کا اعلان کر رہے ہیں، اور کہہ رہے ہیں کہ اب فیصلے لندن نہیں پاکستان میں ہوں گے، کون نہیں جانتا کہ ان میں نہ یہ جرات تھی نہ ہے اور نہ ہوگی۔ ان کے تو سیاسی گرو، روحانی پیشوا، اور سیاسی قائد سب کچھ الطاف حسین ہیں۔ یہ ڈرامہ تو حالات کو سنبھالنے کا ایک گر ہے جو ان سیاستدانوں کو بخوبی آتا ہے۔گرگٹ بھی شرما جائے آج کے سیاستدانوں کو رنگ بدلتا دیکھ کر۔ یاد رکھیے کہ وہ دن دور نہیں جب یہی وہ اصحاب ہوں گے جو چاپلوسی کے آخری درجے پر جا کر گلے پھاڑ پھاڑ کریہ کہہ رہے ہوں گے کہ ہمارے قائد الطاف بھائی ہیں بلکہ ہمارا تو سب کچھ الطاف بھائی ہی ہیں۔ ان سے الگ ہونے کا تو خواب میں بھی تصور نہیں کر سکتے۔ یہ رشتہ اتنا کچا نہیں کہ ایک پاکستان مردہ باد کے نعرے سے ٹوٹ جائے۔ مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم رو کیوں رہے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اہل کراچی خود چن کر اپنے سروں پر بٹھاتے ہیں۔ کہیں باہر سے بزور تو مسلط نہیں ہوئے یہ ہم پر۔ نائن زیرو پر چھاپے کے عین بعد ہونے والے الیکشن کیا گواہ نہیں جب سارے اتحاد منہ دیکھتے رہ گئے اور بلیاں کیک کھا گئی تھیں۔ جس میڈیا کو آج تشدد کا شکار ہونا پڑا ہے یہ وہی نہیں جو تین تین گھنٹے نان سٹاپ تقریریں دکھاتا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ نے بالکل درست ارشاد فرمایا کہ اس کے ذمہ داروں کو سزا ضرور ملے گی، اور سزا تو مل رہی ہے، اس طرح کے سارے کارناموں کے ذمہ دار تو ان کو جھولیاں بھر بھر کے ووٹ دینے والے ہیں سزا تو انہیں ملنی چاہیے اور وہ مل رہی ہے۔
ایک حدیث میں آتا ہے کہ تین قسم کے آدمی ایسے ہیں جو اللہ سے فریاد کرتے ہیں مگر ان کی فریاد نہیں سنی جاتی۔ ایک وہ جس کی بیوی بدخلق ہو اور وہ اس کو طلاق نہ دے۔ دوسرا وہ شخص جو یتیم کے بالغ ہونے سے قبل اس کا مال اس کے حوالے کر دے اور تیسرا وہ شخص جو کسی کو اپنا مال قرض دے اور اس پر گواہ نہ بنائے۔ کیونکہ یہ وہ لوگ ہیں جو خود نہیں چاہتے کہ انہیں عذاب سے نجات ملے۔ جب اللہ تعالیٰ نے ایک طریقہ نجات کا بتا رکھا ہے تو پھر بھی مصیبت کو گلے سے چمٹائے رکھنے والے کی وہ کیوں سنے۔ پتا چلا کہ طلاق جیسے ناپسندیدہ کام کو بھی ضرورت کے باوجود استعمال نہ کرنا اور زندگی جہنم بنائے رکھنا بھی کوئی کمال کا کام نہیں۔ اہل کراچی ووٹ دیتے وقت نجات حاصل کر سکتے ہیں مگر نہیں کرتے تو اب اللہ ان کی کیوں سنے۔ چنگیز خان نے کہا تھا کہ مسلمانو تم جس عذاب سے دنیا کو ڈراتے ہو، میں تم پر تمہارے خدا کا وہی عذاب ہوں۔ آج اہل پاکستان پر مسلط سیاستدان چنگیز خان کے اس قول کو سچ کر دکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
عذر گناہ یہ پیش کیا کہ ذہنی دباؤ تھا۔ ان عقلوں کا معائنہ شاید کسی اسپتال میں ہو سکتا ہوگا جو یہ عذر قبول کر سکتے ہیں۔ کیا پورے پاکستان میں کسی دوسرے سیاستدان پر ذہنی دباؤ نہیں۔ سب جانتے ہیں کہ دباؤ کیا تھا اور کس چیز کا تھا۔
ظفر آدمی اس کو نہ جانیے خواہ ہو کتنا صاحب فہم وذکا
جسے عیش میں یاد خدا نہ رہی جسے طیش میں خوف خدا نہ رہا
دوسری طرف کنٹینر پر چڑھ کر ساری دنیا کو اخلاق کے بھاشن دینے والوں نے جس سیاسی اخلاق کا مظاہرہ کیا وہ اس منظر نامے میں ذرا بھی حیرت انگیز نہیں۔ جب پاکستان کا کھا کر پاکستان کو گالی دینے والوں کو معافی مل سکتی ہے تو یہ گناہ اس سے بڑھ کر تو نہیں. معاہدے قرآن و حدیث نہیں ہوتے والی دندان شکن دلیل تو ہم کب کے ہضم کر چکے ہیں، یار دوست پریشان نہ ہوں کہ معاہدے نکاح نہیں ہوتے جیسی دلیل بھی اس سے کچھ مختلف تو نہیں۔ آج کل کی سیاست میں سیٹ سب سے اہم ہے، وہ حاصل ہونی چاہیے، چاہے جیسے بھی ہو۔ اور ایم کیو ایم کے پاس سیٹیں ہیں لہذا وہ صحیح ہے، جو بھی وہ کرے ووٹ کی صورت میں عوام کی تائید جو ان کے پاس ہے۔ باقی رہ گئے جذباتی صحافی اور معمولی لکھاری، یہ تو حب الوطنی کی جو کتابی باتیں کرتے ہیں، ہاں وہ ہم نے بھی پڑھی تھیں کورس کی کتابوں میں۔
تبصرہ لکھیے