ہوم << الطاف حسین، ایم کیوایم اور مہاجر - سید مظفر حق

الطاف حسین، ایم کیوایم اور مہاجر - سید مظفر حق

سید مظفر حق پاکستان ساری دنیا کے لیے ایک ناسور ہے
پاکستان دنیا کے لیے ایک عذاب ہے
پاکستان ساری دنیا کے لیے دہشت گردی کا ایک سینٹر ہے
اس کا خاتمہ عین عبادت ہوگا
کاہے کو پاکستان زندہ باد
پاکستان مردہ باد، پاکستان مردہ باد
یہ وہ الفاظ ہیں جو کوئی مہاجر کہنا تو درکنار سننا بھی برداشت نہیں کرسکتا لیکن کل رات الطاف حسین نے کارکنوں کے اجتماع میں کہے اور جن کی گونج میڈیا میں مسلسل سنائی دے رہی ہے جبکہ سننے والے مہاجر سن ہو کر رہ گئے ہیں. اس سے پہلے کئی برس پہلے الطاف نے پاکستان دشمن بھارت کی سرزمین پہ کھڑے ہو کر قیام پاکستان کو تاریخ کی عظیم ترین غلطی قرار دیا اور کہا تھا کہ بھارت یہاں سے جانے والے مہاجرین کو واپس قبول کرلے جبکہ خود بھارت میں رہنے والے مسلمانوں پہ عرصہ حیات تنگ ہے اور مشرقی پاکستان سے بھارت جانے والے بنگالی مسلمان آج بھی آسام میں کشتہِ ستم بنے ہوئے ہیں.
پاکستان مہاجروں کا فخر، ان کی پہچان اور ان کا رومانس ہے. پاکستان نے انہیں وہ سب کچھ دیا جو ایک آزاد وطن کا شہری حاصل کر سکتا ہے اور مہاجروں نے بھی پاکستان پہ اپنا تن من دھن واردیا، اپنی بہترین صلاحیتیں اس کی ترقی اور استحکام کے لیے صرف کرتے رہے.
الطاف حسین کی اپنی تقریر سے ثابت ہو گیا کہ وہ غدار ہے، وطن دشمن ہے، را کا پروردہ اور پالتو ہے. اس کی تقاریر وطن دشمنی اور تعصب کا ملغوبہ ہوتی ہیں، وہ پاکستان دشمن طاقتوں کا ہتھیار ہے، وہ آمریت کا شاہکار ہے اور متعدد بار فوج کو اقتدار سنبھالنے کی ترغیب دے چکا ہے اور اس کا یہ رویہ دنوں اور مہینوں پہ محیط نہیں بلکہ کئی عشروں کی داستان ہے
تو پھر آخر کیوں
•افواجِ پاکستان کے سابق کمانڈو سربراہ اور ملک کےسابق صدرنے اسے سینے سے لگائے رکھا؟
•ملک گیر سیاسی پارٹی جو ملک پہ گاہے گاہے حکمراں رہی، کیوں اسے شریک اقتدار اور اتحادی بناتی رہی اور رحمٰن ملک اس کی چوکھٹ پہ سجدہ ریز رہا؟
• کیوں خود کو پاکستان کی بانی جماعت کہلوانے والی اور پنجاب کی دعویدار مسلم لیگ کے رہنما مرکز اور صوبوں میں اسے اپنا حلیف اور شریکِ کار بناتے اور اس کے گرد طواف کرتے رہے؟
کیا اقتدار کی خواہش اور دولت کی ہوس ملکی وفا اور سلامتی سے زیادہ نہیں سمجھی گئی؟
اب وہ بات جو ہمارے ٹی وی اینکر اور ان کے تجزیہ کار بقراط اکثر پوچھتے ہیں کہ اگر مہاجر محب وطن ہیں اور بانیانِ پاکستان کی اولاد ہیں تو پھر وہ ایم کیو ایم کو ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ایم کیو ایم کے ووٹوں کا تناسب ببشتر جعلی ووٹوں اور پرویز مشرف دور میں ان کی خواہشات پہ مبنی حلقہ بندیوں کے سبب ہے، دوسرے ایم کیو ایم اردو بولنے والوں کی مجبوری ہے اور اس سے شدید اختلافات کے باوجود کوئی نہیں چاہتا کہ وہ فنا ہوجائے اور اس کا کوئی سیاسی کردار نہ رہے. یہاں مہاجروں اور اردو بولنے والوں پہ تعصب اور تنگ نظری کا الزام لگانے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سب سے آخری لسانی بنیادوں پہ بننے والی طلبہ تنظیم تھی، اس سے پہلے پختون اسٹوڈنٹ، بلوچ اسٹوڈنٹ، سندھی اسٹوڈنٹ اور پنجابی اسٹوڈنٹ نام کی طلبہ جماعتیں موجود تھیں اور تعلیمی اداروں میں پوری طرح سرگرم تھیں جن پر کسی نے اعتراض نہیں کیا لیکن مہاجر اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے خلاف اعتراضات کا ایک طوفان کھڑا ہوگیا.
آخر مہاجروں یا اردو بولنے والوں میں یہ جوابی تعصب کیوں اور کب پیدا ہوا؟ اس کے لیے ہمیں ذرا پیچھے جانا پڑے گا. پاکستان بنا تو اس کے قیام کے لیے اقلیتی صوبوں کے مسلمان پیش پیش تھے. مسلم لیگ وہیں سے الیکشن جیتی تھی ورنہ سرحد میں کانگریس، پنجاب میں یونینسٹ اور بلوچستان میں سرداروں کی حکومت تھی. پاکستان کی معاشی بنیادوں کو مستحکم کرنے والے حیدرآباد دکن کے نظام، حبیب بینک، آدم جی، باوانی وغیرہ سب مہاجر تھے. اسی طرح اسے سیاسی اور انتظامی طور پہ اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے والے وہ مہاجر تھے جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اس وطن کی تعمیر کا جذبہ لے کر آئے تھے اور انہوں نے پورے خلوص اور تن دہی سے یہ کام کیا لیکن لیاقت علی کی شہادت کے ساتھ ہی ان کے خلاف حسد اور تعصب پہ مبنی سازشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا. ایوب خان نے اسکندر مرزا سے ساز باز کر کے سیاسی حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے بعد جن اعلٰی سول حکام کو ناجائز طور پہ ان کے عہدوں اور ملازمت سے برطرف کیا، وہ نیک نام، باصلاحیت اور خاندانی لوگ تھے جن میں سید ہاشم رضا، اے ٹی نقوی، عباس خلیلی اور فضل احمد کریم فضلی جیسے لوگ شامل تھے. ایوب خان کے پورے دور میں کراچی میں ایک بھی آئی جی، ڈی آئی جی، کمشنر یا ڈپٹی کمشنر کراچی کا مقامی نہیں رہا، انتہا یہ کہ بلدیہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر حبیب اللہ خان تک ایوب خان کا سمدھی مقررہوا. سارے تھانیدار پنجابی یا پٹھان تھے اور ان کا رویّہ انتہائی جارحانہ اور غیر مہذبانہ تھا.
اہلِ کراچی اورسندھ کے مہاجر اکثریتی علاقوں نے ہمیشہ جمہوریت اور پاکستانیت کا ثبوت دیتے ہوئے ملک گیر اور مذہبی رجحانات رکھنے والی جماعتوں کو ووٹ دیا. ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملت کو کامیاب کرایا لیکن ایوب خان نے جلسہ عام میں انہیں دھمکی دی کہ آپ لوگ اور کہاں جائیں گے. آگے تو سمندر ہے. قائداعظم کے مقرر کردہ دارالحکومت کو تبدیل کر کے اربوں روپے کے اسراف سے اسلام آباد تعمیر کیا گیا. ایوب خان مادر ملت کے مقابلے میں دھاندلی اور دھونس سے جیت گئے تو گوہرایوب اہلِ کراچی کو ایوب مخالفت کی سزا دینے کے لیے اسے مہاجر پٹھان قضیہ بنا کر لاؤ لشکر لے کر کراچی پہ چڑھ دوڑا اور پہلے لسانی فسادات نے جنم لیا.
مشرقی پاکستان کے مسلسل استحصال اور بنگالیوں کے حقوق کی پامالی کے نتیجے میں جب بنگلہ دیش وجود میں آیا تو فوج کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود وہاں مہاجروں نے پاکستان کا پرچم بلند کیے رکھا، انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، ان کی جان و مال اور عزّت و آبرو سب کچھ لٹتا رہا لیکن وہ خود کو پاکستانی کہتے رہے اور یہاں جب بھٹو نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار ریڈیو اور ٹی وی سے خطاب کیا تو انہوں نے میرے ہموطنو یا پاکستانیو نہیں بلکہ پنجابیو، پٹھانو، سندھیو، بلوچیو کہہ کر مخاطب کیا تو مہاجروں نے حیرانگی سے سوچا کہ ہماری شناخت کیا ہے. بنگلہ دیش میں وہ لٹ رہے تھے، کٹ رہے تھے، ان کی بہنیں اور بیٹیاں پاکستانیت کے جرم میں پامال ہو رہی تھیں، اور یہاں بہاری نہ کھپن کے نعرے لگتے رہے. اس میں نصرت بھٹّو سے لے کر پیپلز پارٹی کےعام کارکن تک یک زبان تھے.
پھر یہاں دولسانی بل پیش کرکے سندھی مہاجر فساد کی آگ بھڑکا کر اندرون سندھ سے مہاجروں کو نقل مکانی پر مجبور کیا گیا. غیر منصفانہ شہری اور دیہی کوٹہ سسٹم پندرہ سال کے لیے نافذ کیا گیا لیکن وہ آج تک قائم و دائم ہے. ملازمتوں کے دروازے پہ ان پہ بند کر دیے گئے. ان کے بنک، انشورنس کمپنیاں اور اسکول قومیانے کے نام پہ ہتھیا کر روزگار کے دروازے بند کردیے گئے. عدالتوں میں من پسند افراد کو کس طرح کھپایا گیا اس کی ایک مثال سندھ ہائیکورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس نور العارفین کے استعفے سے اندازہ ہوسکتا ہے. ان حالات میں وہ جن ملک گیر جماعتوں کی حمایت کرتے تھے، وہ ان کے حقوق کی آواز اٹھانے سے قاصر تھیں کیوں کہ اس سے اندرون سندھ اور ملک کے دوسرے حصوں میں ان کی سیاسی حیثیت مجروح ہوتی اور ان پہ مہاجر پرستی یا تعصب کا الزام لگتا.
جنرل ضیاءالحق کو اس لاوے کے کھولنے اور آتش فشاں کے پھٹ پڑنے کا اندازہ تھا. اس زمانے کے ہفت روزہ تکبیر کے شمارے گواہ ہیں کہ اس کے مدیر سید صلاح الدین نے اس خطرے کا ادراک کرتے ہوئے تواتر سے مضامین لکھے. ضیاءالحق نے جماعت اسلامی اور جمیعت علمائے پاکستان کی جانب سے اپنی مخالفت کی وجہ سے سندھ کے شہری علاقوں پہ ان کی گرفت اور حمایت ختم کرنے کے لیے مہاجروں کی بے چینی اور عدم تحفظ کے احساس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سید غوث علیشاہ کے ذریعے ایم کیو ایم کی داغ بیل ڈالی. ان حالات میں جبکہ سندھ اسمبلی میں اندرون سندھ سے منتخب اراکین کھلم کھلّا یہ کہتے رہے کہ مہاجر وزیراعلٰی نہیں ہوسکتا، بلدیاتی اداروں کے اختیارات چھین لیے گئے، کراچی کے وسائل اور زمینوں کو وڈیروں نے اپنی داشتہ اور مفتوحہ اور باجگزار بنا رکھا ہے، ایم کیو ایم کی تمام تر غلط کاریوں، پہاڑ جیسی سیاسی غلطیوں اور چیرہ دستیوں کے باوجود کوئی نعم البدل نہیں ورنہ آپ ایک دوکاندار سے لے کر رکشہ ڈرائیور تک سے بات کریں تو وہ ایم کیو ایم کا شاکی ملے گا. ایم کیو ایم کے فسطائی نظام اور ہر بار اقتدار میں اس کی شرکت نے خوف کی ایسی فضا قائم کر رکھی ہے کہ اس کے ہر کارکن اور لیڈر کو اپنے سر پر قضا کی تلوار لٹکتی نظر آتی ہے. جس طرح اس کے خلاف آپریشن میں شریک ایک ایک پولس افسر کو چن چن کر قتل کیا گیا وہ سامنے کی بات ہے.
اردو بولنے والے ملک کے باصلاحیت تعلیم یافتہ اور محب وطن شہری ہیں لیکن ان کے حقوق اور عزّت نفس کی پامالی کا ازالہ اور ان کے زخموں کا اندمال نہ کیا گیا تو کوئی بھی آپریشن اس زہرناکی کا مکمل سدِّباب نہیں کر سکے گا.

Comments

Click here to post a comment