پاکستان سے بنگالیوں کے الگ ہونے کی اصل وجہ ان کے قوم پرستانہ خیالات تھے جسے نظریاتی رنگ دینے میں ہماری سول و ملٹری قیادت کے فہم و فراست سے عاری اقدامات نے خوب جلا بخشی۔ خطہ بنگال ہم سے الگ ہوا اور خالص قوم پرست جذبات پہ برصغیر کی اس عظیم قوم کی تربیت شروع کی گئی جس کی اسلام سے وابستگی بڑی غیر متزلزل رہی.
قیام پاکستان کے بعد مشرقی حصے میں ہندو اساتذہ تعلیمی اداروں میں مئوثر حیثیت کے حامل تھے۔ فنون لطیفہ کی مختلف شاخوں میں ملحد و قوم پرستوں کا غلبہ تھا ، اور یہ تمام مل کر سیکیولر و قوم پرست بیانیے کی ترویج و اشاعت میں بھرپور کردار ادا کر رہے تھے، ایسے میں مغربی پاکستان کی متکبر انتظامیہ بنگالیوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ کر انھیں مزید مشتعل کرنے کا سبب بنتی رہی۔
بنگال کے جدید بیانیے میں اسلام کو خاص اہمیت حاصل نہیں تھی ، یہ ضرور تھا کہ تبلیغی جماعت وہاں خاصی منظم تھی لیکن سیاسی اسلام کی بات کریں تو جماعت اسلامی کو پارلیمانی سیاست میں بہت بڑی کامیابی نہ مل سکی البتہ حالیہ عرصے میں حسینہ واجد کی خوں آشامی جماعت اسلامی بنگال کی صف اول و دوم قیادت کو نگل چکی مگر انتقام کی آگ ابھی بھی سرد نہیں ہوئی ۔
بنگالی جہاد افغانستان میں مختصر جتھے کی صورت میں شریک ہوئے۔ بعد میں بنگلہ بھائی کے نام سے مشہور ایک عالم نے وہاں جماعت المجاہدین یا جمعیت المجاہدین تشکیل دی جسے سرکار نے تشدد کرکے ختم کردیا۔ اتنے برس تک سکون رہنے کے بعد بنگال کی موجوں میں پھر سے اضطراب ہے، قوم پرستی کے جوھڑ سے اسلامی انتہا پسندی نکلی ہے۔ القاعدہ نے کچھ عرصہ قبل ملحد و سیکیولر بلاگرز کو مارنے کی کارروائیاں شروع کیں، جلد ہی دولت اسلامیہ بھی اس کھیل میں ہاتھ بٹانے وہاں پہنچ گئی
بنگلہ دیش نے کبھی کسی سرکاری جہاد میں حصہ لیا نہ ہی اس کا ریاستی بیانیہ ہماری طرح جہادی رہا ، بلکہ معاشرے کو ہدایات دینے والے بھی زیادہ تر سیکولر، ملحد و قوم پرست عناصر رہے ۔۔۔ لیکن ان سب کے باوجود بنگال کی سرزمین سے جہادیوں کا ابھرنا نئے خطرے کی علامت ھے
جمہوری نظام پہ یقین رکھنے والی دینی سیاسی جماعتوں کو جہاں جہاں قوت سے دبانے کی کوشش کی گئی وہاں نتائج سب کے لیے نقصان دہ رہے۔ ہمیشہ ایسے نوجوان موجود رہتے ہیں جو ان پالیسیوں کے ردعمل میں بندوقیں سنبھال لیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان حملوں میں ملوث نوجوان جماعت اسلامی یا دوسری مذہبی جماعتوں سے تعلق نہیں رکھتے اور نہ کبھی انھوں نے ایسی کارروائیوں کو پھانسیوں کا انتقام قرار دیا بلکہ یہ تو معاملہ ہی اور ہے ۔۔۔
حسینہ واجد کے پاس موقع تھا کہ دینی لوگوں سے معاملات بہتر بناتی لیکن اسے بدلے لینے سے فرصت کہاں ؟ ڈھاکہ میں آغاز ہوچکا، اب بھگتیے حسینہ جی اس نئے خونی کھیل کو.
تبصرہ لکھیے