محترم عامر ہاشم خاکوانی نے صحافت کے طلبہ میں ذوق مطالعہ کی نایابی پہ ایک کالم لکھا اورپہلے بھی لکھتے رہے ہیں۔ ہم صحافت کے طالب علم تو نہیں تاہم کتب بینی کے حوالے سے پچھلے چار پانچ برسوں میں مختلف جامعات میں جو کچھ تجربہ ہوا وہ پیش خدمت ہے۔ اس میں اپنے اساتذہ اور بڑوں کے ساتھ کچھ گلے شکوے ضرور ہیں تاہم مقصد تنقیص نہیں بلکہ اصلا ح ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ اگر ایک طالب علم یونیورسٹی تک ذوق مطالعہ کے بغیر پہنچ گیا ہے تو اب اسے مطالعہ کی طرف راغب کرنا بہت مشکل کام ہے۔ چونکہ میں خود ایک یونیورسٹی سے چار سالہ بی ایس پروگرام کرنے کے بعد ایک دوسری یونیورسٹی سے ایم ایس کر رہا ہوں اور اپنے مطالعہ کے ذوق کو کسی نہ کسی طور سنبھالے پھر رہا ہوں، اس لیے کتب بینی کے ضمن میں کچھ ذاتی حالات و واقعات کا ذکر ناگزیر ہے۔
میں نے چوتھی جماعت سے اخبار پڑھنا شروع کیا۔ والد صاحب کے کچھ دوست اکٹھے ہوتے اور گھنٹہ دوگھنٹے اخبار کا مطالعہ کرتے، کچھ خبروں پہ تبصرہ کرتے۔ میں بھی سنتا رہتا، کچھ باتیں سمجھ میں آتیں، کچھ نہ آتیں، تاہم اخبار پڑھنے کی یہ لت ایسی لگی کہ اب تک چھٹ نہیں سکی۔ اب بھی صبح جب تک اخبار کی سرخیاں اور دو چار کالم دیکھ نہ لوں چین نہیں پڑتا۔ تاہم ایمانداری کا تقاضا ہے کہ یہ واضح کر دیا جائے کہ چوتھی جماعت سے میٹرک تک اخبار بینی کسی خاص مقصد کے لیے نہ تھی بلکہ یہ ایک قسم کی لت تھی جس کے بغیر سکون نہیں ملتا تھا۔ حتیٰ کہ امتحان کے دنوں میں بڑوں سے ڈانٹ کھانا پڑتی کہ امتحان کی طرف توجہ دو، امتحان میں کیا خبریں اور کالم لکھو گے؟۔ اخبار میں ہفتہ وار بچوں کا صفحہ شوق سے پڑھتا، سنڈے میگزین بھی اچھا لگتا۔ بعض مذہبی مزاج رکھنے والے بزرگ اخبار پڑھتے دیکھتے تو کسی مذہبی مضمون پہ انگلی رکھ کے کہتے کہ یہ سلسلہ ضرور پڑھا کرو اور ہم دل ہی دل میں فخر کرتے کہ ہم تو پہلے ہی سے یہ سلسلہ پڑھ رہے ہیں۔
چھٹی جماعت میں ’’خبر‘‘ ہوئی کہ گھر میں ماہانہ بنیادوں پہ آنے والے مختلف ڈائجسٹ بھی پڑھنے کی ’’چیز‘‘ ہوتے ہیں۔ ان ڈائجسٹوں میں عنایت اللہ صاحب کا حکایت ڈائجسٹ، مجیب الرحمن شامی صاحب کا قومی ڈائجسٹ، الطاف حسن قریشی صاحب کا اردو ڈائجسٹ اور شمس الرحمن عظیمی صاحب کا روحانی ڈائجسٹ خاص طور پہ شامل تھے۔ حکایت میں شائع ہونے والی معاشرتی کہانیاں بہت دلچسپ ہوتیں، شکاریات کے موضوع پہ بھی تواتر سے کہانیاں شائع ہوتیں۔ احمد یار خان کی کہانیاں میں شوق سے پڑھتا جن میں وہ بطور پولیس افسر مختلف کیسز کی تفتیش کرتے نظر آتے۔سیارہ ڈائجسٹ کا ایک پرانا شمارہ ہاتھ لگا جس میں ممتازمفتی کا روحانیت پہ ایک مضمون نظر آیا، چونکہ اس کے ساتھ یہ بھی تحریر تھا کہ یہ ایک قسط وار سلسلہ ہے اس لیے کافی تگ و دو کے بعد یہ سلسلہ ’’تلاش‘‘ کی کتابی شکل میں مل ہی گیا۔ اسی طرح ہر ڈائجسٹ کی اپنی اپنی خوبیاں تھیں اور میرے نوخیر ذہن کے لیے یہ ایک حیران کن اور پرکشش دنیا تھی۔
چھٹی جماعت ہی میں کچھ بچوں کے رسائل تک بھی رسائی ہوئی یعنی ’تعلیم و تربیت‘، ’پھول، اور ’پھول اور کلیاں‘ وغیرہ۔ بعد میں ’بچوں کا اسلام‘ اور کئی دیگر رسائل بھی پڑھنے کو ملے۔ ایک خاص بات یہ تھی کہ ان تمام ڈائجسٹوں اور بچوں کے رسائل میں سے سوائے حکایت کے کوئی بھی گھر میں مستقل لگوا نہیں رکھا تھا۔ تاہم یہ سبھی والد صاحب کے توسط سے ملتے رہتے۔ بعد میں پتہ چلا کہ والد صاحب کے دوست مختلف مزاج کے تھے اور ہر کسی نے کوئی نہ کوئی ڈائجسٹ لگوا رکھا تھا اور یہ ڈائجسٹ پورا مہینہ ایک دوست سے دوسرے دوست کے پاس منتقل ہوتے رہتے۔ اس سارے عمل کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں اپنی عمر سے بڑی باتیں کرنے لگا۔
اس مضمون کا مقصد آپ بیتی بیان کرنا نہیں بلکہ کچھ اور تلخ حقائق بیان کرنا ہے۔ پہلے حال سنیے ہمارے دو مختلف سکولوں کے کتب خانوں کا۔ ہمارے پرائمری سکول میں لکڑی کی ایک الماری اور ایک صندوق تھا۔ یہ دونوں چیزیں انتہائی’’پراسرار‘‘ تھیں۔ ہمارے کچھ سینئرز کی طرف سے ان دونوں کے متعلق ہمیں ایک روایت’’سینہ بہ سینہ‘‘ پہنچی۔ اس روایت کے مطابق یہ معلوم ہوا کہ الماری میں کتابیں ہیں اور یہ الماری ہمارے سکول کی ’’لائبریری‘‘ ہے جبکہ صندوق میں کچھ شیشے کی بوتلیں اور کچھ چھوٹے چھوٹے ’’سائنسی پرزے‘‘ ہیں جو مختلف سائنسی تجربے کرنے کے کام آتے ہیں۔ بقول ہمارے سینئرز انہیں یہ ’’گراں قدر معلومات‘‘ اس لیے ملیں کہ ایک دن انہوں نے ہیڈ ماسٹر صاحب کی نگرانی میں الماری اور صندوق کی صفائی کی تھی۔ تاہم یہ روایت ایک ’’زبانی‘‘ روایت تک ہی محدود رہی اور خدا گواہ ہے کہ آج چودہ پندرہ برس بعد بھی مجھے یقین سے معلوم نہیں کہ اس الماری اور صندوق میں کیا تھا۔
اب سنے ہمارے دوسرے سکول کی’’لائبریری‘‘ کا حال۔ یہ سکول شہر کا ایک مشہور ہائی سکول تھا جس کے طلبہ کی تعداد آج سے دس سال قبل 5 ہزار کے قریب تھی۔ اس سکول میں ہمیں پڑھتے ہوئے تین سال ہوچکے تھے کہ ایک روز سبھی لڑکے کچھ کرسیاں ’’ہائی حصے‘‘ میں رکھنے گئے تو پہلی دفعہ ہم نے سکول کی لائبریری دیکھی۔ تاہم اگلے دوسال یعنی میٹرک تک بھی یہ لائبریری ہمارے لیے اجنبی ہی رہی۔ لائبریر ی سے کتابیں لینا ہمیں اس وقت نصیب ہوا جب ہم نے میٹرک کے بعد شہر کی پبلک لائبریری میں اپنا اکاؤنٹ کھلوایا۔
دکھ اس بات کا ہے کہ گریجوایشن تک اپنی سولہ سالہ تعلیم کے دوران سوائے یونیورسٹی کے ایک استاد کے مجھے کوئی بھی استاد ایسا نہ ملا جسے صاحب مطالعہ کہا جا سکے۔ حالانکہ اس دوران کم و بیش پچاس کے قریب اساتذہ سے مجھے پڑھنے کا موقع ملا۔ اگر ذرا جذباتی انداز میں کہوں تو میں طلب ِعلم کا کشکول لیے کھڑا رہا مگر نصاب سے ہٹ کر مجھے علم کی خیرات کسی استاد نے نہ دی۔ اگر کوئی خود کچھ ذوق مطالعہ رکھتا تو مجھے بھی دان کرتا۔ میں سر جھکا کے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ ان اساتذہ نے نصابی میدان میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر غیرنصابی ذوق مطالعہ ابتدائی طور پہ مجھےگھر سے ملا اور میٹرک کے بعد لائبریری سے ناطہ جڑا تو خود بخود آگے بڑھتا رہا۔ اب میں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں ایم ایس (ہیومن ریسورس) کا طالب علم ہوں مگر اس بات پہ شاکی ہوں کہ پچھلے سترہ سال میں، میں اپنے ذوق مطالعہ کو اپنے ناتواں کندھوں پہ لیے پھرتا رہا، کسی استاد نے اس شوق کو مہمیز دینا تو دور کی بات پوچھنا بھی کبھی گوارا نہ کیا۔ میرامطالعہ ایک خودرو پودے کی طرح تھا جو کسی خاص توجہ کے بغیر اپنے آپ ہی پھلتا پھولتا رہا۔ اب سوچتا ہوں کہ اگرسکول کی لائبریری کے دروازے سبھی طلبہ پر کھول دیے جاتے تو شاید کچھ مزید طلبہ بھی مطالعے کی طرف راغب ہو جاتے کیونکہ ہر کسی کو توگھر میں اخبار اور ڈائجسٹ مہیا نہیں ہوتے۔ میر اسب سےبڑا ذاتی دکھ یہ ہے کہ اگر مجھے مطالعہ کے حوالے سے رہنمائی ملتی رہتی تو جن کتب اور اصناف ادب کے بارے مجھے دیر سے پتہ چلا، بہت پہلے ہی ان کے متعلق معلوم ہو جاتا اور مطالعے کا یہ سفر اور بھی شاندار ہو جاتا۔
محترم خاکوانی صاحب! ہمارے بڑوں کا ہم سے یہ شکوہ بجا ہے کہ نئی نسل ذوق مطالعہ سے عاری ہے مگر اس میں بہت کچھ قصور ہمارے انہی بڑوں کا بھی ہے۔ گھر میں کتابیں پڑھنے والا کوئی نہیں، اساتذہ نے نوکری لگنے کے بعد سے اب تک کسی غیر نصابی کتاب کو چھونا بھی گوارا نہیں کیا تو بچوں میں ذوق مطالعہ کہاں سے پیدا ہوگا؟ میں نے خود اپنے دوستوں کو تحریک دلا کے کئی مشہور ناول پڑھوائے ہیں۔ کیا اساتذہ یہ کام نہیں کر سکتے؟
ایک اور تلخ بات بھی سن لیجیے۔ یونیورسٹی کے میرے اکثر (اکثر کا لفظ میں انتہائی سوچ سمجھ کے استعمال کر رہا ہوں) اساتذہ ادبی ذوق سے بےبہر ہ ہیں۔ بخدا اس وقت ذہن پر کوڑے برسنے لگتے ہیں جب میں دیکھتا ہوں کہ شعر کے نام پر سطحی اور بےوزن دو سطریں جو میرے کسی پرائمری پاس دوست نے اپنی وال پر شئیر کیں، وہی کچھ دنوں بعد میرے کسی پی ایچ ڈی استاد (حتیٰ کہ صدر شعبہ) نے شئیر کی ہیں اور اس پہ طرہ یہ کہ داد بھی مل رہی ہے۔ تو ان تمام حالات میں کہاں کا ذوق مطالعہ اور کہاں کی کتب بینی؟ کوئی میری طرح کا طالب علم انفرادی طور پر کسی وجہ سے غیرنصابی کتب کی طرف مائل ہو جائے تو الگ بات ہے وگرنہ ہمارے تعلیمی نظام میں ذوق مطالعہ نہ تو کوئی مقصد ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کبھی سوچا گیا ہے۔
تبصرہ لکھیے