اب آپ کو اصل بات بتائوں، میرے زمانے میں موبائل اور ای میلیں نہیں تھیں، نوجوان اپنی دوستوں کو خط لکھتے تھے۔ مجھے لکھنے کا شوق تھا، ایک دوست کے اصرار پر اسے عشقیہ خط لکھ دیا اور پھر پورے دوستوں میں شہرہ ہوگیا۔ چنانچہ جس نے بھی عشقیہ خط لکھوانا ہوتا، مجھ سے رجوع کرتا اور میں مالی مجبوری کی وجہ سے حامی بھر لیتا، کہانی بنانے کا شوق تھا، اتنے کامیاب عشقیہ خطوط کی وجہ سے دوست سمجھنے لگے کہ میں بہت چھپا رستم ہوں اور ایک خلیفہ ہوں، چنانچہ دوستوں نے کچھ مجھ سے سن کر اور کچھ میرے بارے میں نت نئی کہانیاں اختراع کیں اور میں نے بھی بڑے شوق سے اس میں ڈرامائی رنگ پیدا کیے۔ اب شہر میں بھی کسی کو عشقیہ خط کی ضرورت پیش آتی تو وہ میرے پاس آتا کہ جناب کا بڑا تجربہ ہے۔ میں بھی اس کی کہانی سن کر اسے اپنے نام نہاد تجربے کی روشنی میں مفید مشورے دیتا اور اس کو صورتحال کے مطابق خط بھی تحریر کر دیتا۔مجھے کیا علم تھا کہ اس سے کیا عذاب میری زندگی میں ہوگا.
اب میں اپنی بیوی گل بدن بانو سے اپنی زندگی کی کوئی بات نہیں چھپاتا مگر میری نصف بہتر کا یقین ہے کہ میں بہت میسنا انسان ہوں. میرے تمام کزنز نے میری بیوی کو یقین دلایا ہے کہ مجھ پر بھروسہ انتہائی خطرناک ہے، میں بہت ہی دل پھینک اور رنگین مزاج ہوں، راستے میں چلتے لڑکیوں کو پھنسانے کا ہنر رکھتا ہوں چنانچہ پوری جوانی اور اب ادھیڑ عمری میں بھی میں اپنی بیوی کو اپنے بارے میں مطمن نہیں کر سکا. ذرا موڈ خراب ہو تو کہتی ہے کہ ہاں کوئی کلموہی یاد آرہی ہوگی، ذرا اداس ہو جائوں تو کہتی ہے ہاں ہاں کوئی واقعہ ہوا ہوگا، نیا شگوفہ کھلا ہوگا۔ میں کہتا ہوں ارے بھلی لوک! اب تو بوڑھا ہو رہا ہوں، تو کہتی ہے ہاں ہاں، اس عمر میں تجربہ بھی بڑھ جاتا ہے اور معصوم لڑکیاں سفید بالوں کو بےضرر سمجھ کر زیادہ یقین کرنے لگتی ہیں۔ سچی بات ہے کہ یہ باتیں بھی میں نے ہی کی ہوئی ہیں مگر مجھے کیا علم تھا کہ مجھے ہی یہ باتیں سننا پڑیں گی تو دوستو! آپ ہی بتلائو کہ میں مظلوم کیا کروں؟
گل بدن کا شوہر اب کیا کرے؟ دائود ظفر ندیم

بہت پر لطف اور مزیدار تحریر ہے. آج معلوم ہوا کہ برادر محترم داؤد ظفر ندیم بلند پایہ مزاح نگار بھی ہیں. ایسی مزید تحریروں کا انتظار رہے گا.