اس حقیقت پہ بین الاقوامی میڈیا متفق ہے کہ ہندوستان کا وزیر اعظم مودی سرتاپا انتقام ا ور نفرت کی تصویر ہے۔ وہ سیاستدان تو ہے لیکن نہرو اور قائد اعظم کی مانند(Stateman)مدبر ریاست کارہرگز نہیں۔ بے بصیرت بھی ہے اور تنگ ظرف بھی۔ مودی کی سیاست نے جہاں کشمیر میں بغاوت کی آگ بھڑکادی ہے اور آزادی کی جنگ کو تیز کردیا ہے، وہاں مودی کی سیاست ہندوستانی معاشرے کو بھی بری طرح تقسیم کرنے کا باعث بن رہی ہے۔
مسلمان ہندو نفرت کو چھوڑئیے خود ہندو معاشرے کے کئی طبقے ذات پات کی نفرت شدت اختیار کرنے سے با ہم جنگ و جدل کی جانب بڑھ رہے ہیں جس طرح دلتوںاور دوسرے نچلے طبقوں کو ذلت آمیز سلوک کا نشانہ بنایا جارہا ہے، وہ دن دور نہیں جب وہ بھی ریاست کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ مودی کا بلوچستان اور کچھ دوسرے علاقوں کے حوالے سے بیان اور پھر ایک دو نمک حرام وطن دشمن بلوچ سیاستدانوں سے شکریہ کے پیغامات کا اہتمام کرنا اس کی سیاسی کم فہمی اور بصیرت سے محرومی کا ثبوت ہے۔
ظاہر ہوچکا کہ مودی مقامی سطح کی انتقامی اور نفرت آمیز سیاست کا کھلاڑی ہے، اسے نہ ہی بین الاقوامی سیاست کے تقاضوں کا شعور حاصل ہے اور نہ ہی دوسرے ممالک سے ڈیل کرنا آتا ہے۔بلوچستان کے بارے میں مودی کے بیان کے خلاف شدید ردعمل ہوا تو اس کے حواریوں نے افغانستان میں انتقامی کارروائی کی۔ باب پاکستان پر پتھر برسائے اور پاکستان کے پرچم کی توہین کی۔ الزام تھا کہ بلوچستان کے غصے میں بھرے عوام نے ہندوستان کا جھنڈا’’ترنگا‘‘ کیوں جلایا؟مودی کے پتلے کیوں نذر آتش کئے؟۔
پرسوں کابل سے ایک مہربان کا فون آیا تو وہ غمزدہ لہجے میں بتارہا تھا کہ یہ افغانستان کے عوام کا عمومی عمل ہرگز نہیں تھا اور نہ ہی افغان ہندوستان کی محبت میں اس قدر غرق ہوچکے ہیں کہ ترنگا کے جلائے جانے پر پاکستان کا پرچم جلادیں اور مودی کے پتلے جلائے جانے پر باب پاکستان پر پتھر برسا دیں۔ یہ گنے چنے را کے ایجنٹ تھے جنہیں پیسے دے کر یہ کام کروائے گئے تھے یہ درست ہے کہ افغانستان میں پاکستان سے محبت کم ترین سطح پر ہے لیکن افغانی کبھی بھی ترنگا جلائے جانے کا بدلہ پاکستانی پرچم سے نہیں لیں گے۔ حکمرانوں کی پالیسیاں اپنی جگہ، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کے معاملات اپنی جگہ لیکن افغان عوام پاکستان سے دشمنی میں اس حد تک نہیں جائیں گے۔’’را‘‘ نہ صرف افغانستان میں پھیلی ہوئی ہے بلکہ افغانستان پاکستان کے بارڈر پر خاصی متحرک ہے۔ اس کے پاس فنڈز اور ہتھیاروں کی کمی نہیں، وہ اپنے وزیر اعظم کے بیان کو سچ ثابت کرنے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتی ہے اور سر توڑ کوششیں کررہی ہے۔ بلوچستان کے عوام کو سلام کہ وہ ان کے جھانسے میں نہیں آئے اس لئے جب بھی دہشت گردی کرانی ہوگی دہشت گرد باہر سےآئیں گے۔
مودی کے محدود فکر و نظر اور ذہن پر نہ صرف کشمیر کا دبائو ہے کیونکہ کشمیر میں آزادی کا لاوا پھٹ چکا ہے، پاکستانی پرچم سے محبت کا اظہار تحریک آزادی کا استعارہ بن چکا ہے۔ نوجوان جذبہ جہاد سے سرشار جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں اور مقبوضہ کشمیر کی پوری وادی کو آزادی کی لہر نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مودی جانتا ہے کہ اسے دبانا ممکن نہیں اور جب ایک بار مسلمان معاشرہ جہاد کی روح سے سرشار ہوجائے تو پھر بڑی سے بڑی قربانی بھی ہیچ لگتی ہے۔یہی مسلمان کی صفت ہے جسے ختم کرنے کے لئے انگریز ایک صدی سے زیادہ مختلف طریقوں اور ہتھکنڈوں سے ختم کرنے کی سازش کرتے رہے لیکن ناکام رہے کیونکہ جہاد مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے اور شہادت وہ خواب ہے جسے ہر مسلمان ذہن میں پروان چڑھاتا اور شرمندہ تعبیر کرکے سرخرو ہونا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ میں نام کے مسلمانوں کی بات نہیں کررہا ، میں ایمان کے مسلمانوں کا ذکر کررہا ہوں۔ مرشد اقبال نے کتنا خوبصورت شعر کہا؎
یہ شہادت گاہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلمان ہونا
آسان وہ سمجھتے ہیں جو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے اور نام کے مسلمان ہیں ورنہ تو سچے مسلمان کے لئے اسلام شہادت گاہ الفت کا نام ہے۔ جہاد اور شہادت سے اللہ ملتا ہے اور یہی وہ عظیم ترین مقصد اور عزیز ترین منزل ہے جو سچے مسلمان کے پیش نظر ہوتی ہے۔ کتنی ایمان افروز....کتنی سچی اور کتنی عظیم بات جہاد کشمیر کے شہیدبرہان الدین وانی کے والدین نے کہی۔
آپ جانتے ہیں برہان الدین وانی ایک مہذب، سمجھدار، سچا اور پکا مسلمان تھا۔ اس نے آزادی کشمیر کیلئے جان دے کر ایک ایسی تحریک کی بنیاد رکھ دی ہے جسے ہر روز شہیدوں کے خون سے سینچا جارہا ہے اور جو منزل مقصود پر پہنچے بغیر رکے گی نہیں۔مسلمانی کیا ہے؟ جہاد اور شہادت کا مرتبہ کیا ہے؟ اسے سمجھنے کیلئے وانی کے والدین، والد اور ماں کے الفاظ پر غور کیجئے۔ دونوں نے کہا ہمیں وانی کی شہادت پر فخر ہے۔ ہم نے بیٹا کھو کر اللہ کو پالیا، جب انسان زندگی دے کر اللہ کو پالے تو اس کے مقابلے میں یہ قربانی بہت کم لگتی ہے اور جب کسی تحریک میں شہادت کا جنون شامل ہوجائے اور انسان کو اپنے خالق کے ملنے کا یقین ہو تو پھر ایسی تحریک کو کچلا جاسکتا ہے نہ ختم کیا جاسکتا ہے۔
یہ بات قابل فہم تھی کہ کشمیر کی آزادی سے گھبرا ا ور بوکھلا کر مودی اپنے ہرکاروں، نمک خواروں اور وفاداروں کو متحرک کریگا تاکہ حکومت پاکستان پر اندرونی خطرات، طبقاتی اور علاقائی مطالبات اور معاشرتی خلفشار کا دبائو ڈالا جائے۔ مقصد پاکستان کو مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کی حمایت سے باز رکھنا اور داخلی بغاوتوں کے خوف کا شکار کرنا ہے۔
ایم کیو ایم کے جلسے میں الطاف حسین کا خطاب، شرکاء کو بھڑکا کر میڈیا ہائوسز اور دوسرے مقامات پر حملے کرنے کی تحریک دینا اور پاکستان کی سرزمین پر بیٹھ کر پاکستان مخالف نعرے لگانا اور لگوانا مودی سیاست کا شاخسانہ ہے جس سے’’را‘‘ کا کھیل اور’’را‘‘ کے ایجنٹ بے نقاب ہورہے ہیں۔ الطاف حسین بدقسمت انسان ہیں کہ انہیں پاکستان نے حددرجہ عزت دی اور انہیں بین الاقوامی سطح کا لیڈر بنادیا لیکن انہیں یہ مقام راس نہ آیا اور وہ پاکستان دشمن طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے لگے جو انہیں استعمال کرکے ٹشو پیپر کی مانند وقت کے ڈسٹ بن(کوڑے دان) میں پھینک دیں گے۔
انہوں نے حب الوطنی کا لبادہ تو اسی دن اتار پھینکا تھا جب ہندوستان یاترا کے دوران قیام پاکستان پر پچھتاتے ہوئے ببانگ دہل کہا تھا کہ اگر میں تقسیم ہند کے وقت موجود ہوتا تو اس کی ڈٹ کر مخالفت کرتا۔ ظاہر ہے کہ وہ قیام پاکستان کو جن اپنے بزرگوں کا کارنامہ کہتے ہیں، وہ ان کے بزرگ نہیں ہوسکتے۔ وہ زندہ ہوتے تو ایسے عناصر کو عاق کردیتے۔ صدمہ اس وقت شدت اختیار کرگیا کہ جب میں نے یوٹیوب پر کچھ لڑکیوں، خواتین اور ایم کیو ایم کے کارکنوں کو پاکستان مخالف نعرے بلند کرتے دیکھا۔ مودی کی حکمت عملی کا حصہ بننے والے ر ا کے ایجنٹ پاکستانی نہیں ہیں نہ ہی انہیں پاکستان کا شناختی کارڈ رکھنے کا حق ہے؎
مودی کا جو یار ہے، غدار ہے، غدار ہے
تبصرہ لکھیے