ملک میں صحافیوں کی تین اقسام ہیں، سینئر صحافی، مڈ کیریئر جرنلسٹ اور جونیئر صحافی، سینئر صحافی 60 سال سے 80 سال کے درمیان ہیں، یہ صحافت کی بلیک اینڈ وائیٹ ایج میں پیدا ہوئے، یہ سائیکل اور تانگوں پر سفر کرتے رہے، یہ ہاتھ سے لکھتے تھے اور خوش نویس ان کی خبریں بٹر پیپر پر قلم اور دوات سے کاپی کر دیتے تھے، یہ خوش نویس کاتب کہلاتے تھے اور یہ عمل کتابت۔ یہ صحافی ادیب بھی ہوتے تھے، شاعر بھی، نقاد بھی اور اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں استاد بھی، آپ 1980ء سے قبل ملک کے کسی بڑے شاعر، نقاد یا پروفیسر کاپروفائل دیکھ لیجیے وہ آپ کو کسی نہ کسی دور میں صحافت سے وابستہ ملے گا۔
ہمارے سینئرز نے اپنی آنکھوں سے اخبارات کو رنگین ہوتے، ملک میں ٹیلی ویژن آتے، کمپیوٹر کو کاتبوں کی جگہ لیتے اور انٹرنیٹ کو انسانی زندگی کا حصہ بنتے دیکھا، یہ انتہائی پڑھے لکھے، تجربہ کار، کمٹڈ اور بے غرض لوگ ہیں بس ان میں دو خامیاں ہیں، یہ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے تارک الدنیا ہو چکے ہیں، دوسرا، یہ لوگ، ان کی ٹیکنالوجی، ان کے ایشوز اور ان کی زبان ماضی بن چکی ہے، یہ اب زیادہ ’’ریلی وینٹ‘‘ نہیں رہے، دوسری قسم مڈ کیریئر جرنلسٹس کی ہے، یہ ہم لوگ ہیں، ہماری عمریں 45 سے 55 کے درمیان ہیں، ہم لوگوں نے جب یہ پروفیشن جوائن کیا تو اس وقت یونیورسٹیوں میں صحافت کے شعبے بھی تھے، جنگ، نیوز، نیشن، پاکستان اور خبریں جیسے نئے اخبارات بھی تھے، کمپیوٹر بھی جڑیں پھیلا چکا تھا، ای میل بھی شروع ہو چکی تھیں، ان پیج بھی آ چکا تھا اور کلر پرنٹنگ پریس بھی موجود تھے، ہم لوگ جب اسٹیبلش ہو گئے تو ایکسپریس گروپ بھی میدان میں آ گیا اور پرائیویٹ نیوز چینلز کا آغاز بھی ہو گیا یوں صحافیوں کی آسودگی کا دور شروع ہو گیا اور ملک کے زیادہ تر مڈکیریئر جرنلسٹس پرنٹ سے الیکٹرانک میڈیا میں آنے لگے جب کہ میرے جیسے چند سرپھرے دونوں کشتیوں میں سوار ہو کر اپنے جوڑ ڈھیلے کرانے لگے۔
پاکستان میں 2002ء سے 2014ء تک الیکٹرانک میڈیا کا بوم رہا، بڑے کاروباری گروپوں نے الیکٹرانک میڈیا میں چھلانگ لگا دی، دھڑا دھڑ چینل بننے لگے، ان چینلز نے میڈیا انڈسٹری کو بکرا منڈی بنا دیا، ایک بکرا ایک دن ایک چینل پر نظر آتا تھا اور وہ اگلے دن دوسرے چینل پر بیٹھا ہوتا تھا، نئے چینلز پرانے چینلز کے پورے پورے رپورٹنگ سیکشنز اور نیوز رومز خرید لیتے تھے جب کہ اینکرز اور نیوز اینکرز باقاعدہ اسٹاک ایکسچینج بن گئے، خریداری کے اس خوفناک عمل نے میڈیا انڈسٹری میں دو خلاء پیدا کر دیے، پہلا خلاء اخلاقی تھا اور دوسرا تکنیکی، الیکٹرانک میڈیا اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر کی چھلانگ بازی میں قابل خرید جنس اسٹیبلش ہو گیا جس کی وجہ سے عوام میں صحافیوں کی عزت کم ہو گئی، دوسرا، میڈیا دنیا کی ان چند انڈسٹریز میں شامل ہے جن میں کارکن آہستہ آہستہ پروان چڑھتے ہیں، سب ایڈیٹر کو سب ایڈیٹر بننے کے لیے تین سال مشقت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے، رپورٹر پانچ سال میں تیار ہوتا ہے، میگزین کے لوگ چھ سال میں پروان چڑھتے ہیں، کالم نگار دس سال میں میچور ہوتے ہیں اور ایڈیٹر کو کم از کم 20 سال کا تجربہ چاہیے مگر لے لو، پکڑ لو، خرید لو، آپ پیسے بتائیں کی اپروچ نے میڈیا کے سارے کچے پھل توڑ دیے۔
سب ایڈیٹر سب ایڈیٹر بننے سے پہلے نیوز ایڈیٹر بن گئے، رپورٹر ٹریننگ کے دوران ہی چیف رپورٹر ہو گیا، میگزین ان پڑھوں کے قابو آ گئے اور یہ ان پڑھ دو تین برسوں میں میگزین ایڈیٹر بن گئے ، یہ تمام لوگ ٹریننگ کے بغیر ٹیلی ویژن چینلز میں پہنچ گئے اور اس عمل نے میڈیا انڈسٹری میں خوفناک تکنیکی خلاء پیدا کر دیا، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی ہماری پوری میڈیا انڈسٹری میں اس وقت صرف تین ایڈیٹرز ہیں، باقی تمام ادارے ایڈیٹرز کے بغیر چل رہے ہیں، ملک میں پچھلے 20 سال میں کوئی نیا کالم نگار پیدا نہیں ہوا اور ملک میں دس سال سے کسی میگزین ایڈیٹر، نیوز ایڈیٹر اور چیف رپورٹر نے جنم نہیں لیا، یہ پرنٹ میڈیا کی صورتحال ہے جب کہ الیکٹرانک میڈیا کہیں زیادہ خوفناک بحران سے گزر رہا ہے، ٹیلی ویژن چینلز میں انڈے سے باہر آنے والا ہر چوزا اگلے ہی دن چوبارے پر چڑھ کر بانگ دینے لگتا ہے، یہ بانگ اگر ایک چوبارے تک رہتی تو بھی شاید حالات اتنے خراب نہ ہوتے اور یہ لوگ دس برسوں میں ٹرینڈ ہو جاتے لیکن یہ چوزے دو دن بعد چوبارہ بدل لیتے ہیں اور اپنی ناتجربہ کاری کے ساتھ سینئر ہو جاتے ہیں، ہمارے جونیئر کارکنوں نے ان حالات میں صحافت میں قدم رکھا، یہ ٹریننگ کے بغیر اس بحر بیکراں میں آ گئے، یہ بحران اس وقت بحرانوں کی ماں بن گیا جب ایسے لوگ بھی میڈیا میں آ گئے جنہوں نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نام نہاد صحافت بھی نہیں پڑھی تھی۔
یہ ایم بی اے ہیں، یہ سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور یہ ناکام ڈاکٹر ہیں لیکن یہ چھاتہ باندھ کر صحافت کی چھت پر اتر آئے اور یہ مارتے دھاڑتے وہاں پہنچ گئے جہاں یہ پوری انڈسٹری کا حوالہ بن گئے ہیں، میں دعوے سے کہہ رہا ہوں ہمارے میڈیا نے دس برسوں میں جتنی بدنامیاں سمیٹیں ان کے ذمے دار ’’نان پروفیشنل جرنلسٹ‘‘ ہیں، آپ پیمرا کے نوٹسز کا تجزیہ کر لیں، پیمرا نے 95 فیصد نوٹسز نان پروفیشنل جرنلسٹوں کو جاری کیے ہیں، آپ جرمانوں، سزاؤں اور پروگراموں کی بندش کا ریکارڈ بھی نکال لیجیے، آپ کو ان میں بھی نان پروفیشنل جرنلسٹ اور نان پروفیشنل ادارے ملیں گے، ٹیلی ویژن میں بولنا اہم ہوتا ہے لیکن آپ نے کب بولنا ہے، کب خاموش رہنا ہے اور کب بولنے والے کو چپ کرانا ہے یہ زیادہ اہم ہوتا ہے اور یہ وہ باریکی ہے جسے کوئی نان پروفیشنل جرنلسٹ نہیں سمجھ سکتا خواہ اس کا تجربہ پچاس سال ہی کیوں نہ ہو اور یہ نان پروفیشنل جرنلسٹوں کی وہ خامی ہے جس کا نقصان پوری انڈسٹری کو ہو رہا ہے، میں مڈ کیریئر جرنلسٹ ہوں، میں ٹریننگ کے اس ہولناک دور سے گزرا ہوں جس میں ہمارے سینئر ہمیں نیوز روم میں مرغا بنا دیتے تھے، ہماری غلط لفظ، غلط سرخی اور غلط فقرے پر سرے عام بے عزتی کی جاتی تھی، ہمارے سینئر ’’فیورٹ ازم‘‘ کو گناہ سمجھتے تھے۔
ہم اخبار میں اپنی مرضی کی خبر دے دیں یا متن کو ’’سلانٹ‘‘ کر دیں یہ ممکن ہی نہیں تھا، صحافی کرپٹ سب ایڈیٹر، رپورٹر یا کالم نگار کے پاس نہیں بیٹھتے تھے، ہم جونیئر کسی کرپٹ رپورٹر کے ساتھ دیکھ لیے جاتے تھے تو ہمارے سینئر ہمارے کان کھینچ لیتے تھے، ہماری سرِعام مذمت کی جاتی تھی، ہمارے سینئر ہمیں روز کوئی نہ کوئی نئی بات بھی سکھاتے تھے، وہ کہتے تھے آپ جب تک خبر کو تین بار ٹھیک نہ کر لیں اسے کمپوزنگ سیکشن میں نہ بھجوائیں اور وہ کہتے تھے جس خبر کوآپ نہیں سمجھ سکے اُسے قاری کیسے سمجھے گا؟ میں ٹریننگ کے اس خوفناک عمل سے گزرا ہوں، میں آج جب اپنے جونیئرز کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان پر ترس آتا ہے، آج تک کسی کو ان بے چاروں کو سکھانے کی توفیق نہیں ہوئی اور اگر کسی نے سکھایا بھی تو وہ خود نان پروفیشنل چھاتہ بردار صحافی تھا اور اس نے انھیں سلگتے ہوئے بم کو لات مارنا، بلا تحقیق الزام لگا دینا، اندھی سنسنی پھیلا دینا، چیخنا چلانا، دوسرے کی بات نہ سننا، مخاطب کی بات مکمل نہ ہونے دینا اور جہاں سے دو لاکھ روپے زیادہ مل جائیں وہاں چلے جائیں سکھا دیا۔
میں یہ سطریں اپنے جونیئر ساتھیوں کے لیے لکھ رہا ہوں، آپ نے اگر ان سے کچھ سیکھ لیا تو آپ میرے لیے دعا کر دیجیے گا اور آپ کو اگر کوئی فائدہ نہ ہوا تو آپ مجھے ایک ناگوار ’’بیپر‘‘ سمجھ کر ’’ڈراپ‘‘ کر دیجیے گا، میں جونیئر تھا تو میں نے ’’ویری فکیشن‘‘ کو اپنی عادت بنا لیا تھا، میں جو بھی واقعہ پڑھتا تھا میں اسے ’’ویری فائی‘‘ کرتا تھا، آپ بھی ’’ویری فکیشن‘‘ کو عادت بنا لیں، آپ نیوز کاسٹر ہیں تو آپ چھٹی کے وقت وہ تمام خبریں اکٹھی کریں جو آپ دن بھر پڑھتے رہے، آپ انٹرنیٹ پر بیٹھیں اور آپ ان خبروں کوویری فائی کرنا شروع کر دیں۔
یہ مشق آپ کے اعتماد میں بھی اضافہ کرے گی اور آپ کا علم بھی بڑھائے گی، میں نے کیریئر کے شروع میں اضافی معلومات کو بھی عادت بنا لیا تھا مثلاً پچھلے چار دن سے پاکستان اور افغانستان کا چمن بارڈر بند ہے، میں نے یہ خبر پڑھنے کے بعد چمن کی تاریخ پڑھی، چمن کو چمن کیوں کہا جاتا ہے، آبادی کتنی ہے، سرحد کب بنی، یہ سرحد پاکستان اور افغانستان کی دوسری سرحدوں سے مختلف کیوں ہے، تجارت کتنی ہوتی ہے، سرحد کا موجودہ تنازعہ کیا ہے اور اس کا زیادہ نقصان کس کو ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ، یہ اضافی معلومات موضوع پر میری گرفت مضبوط کر رہی ہیں، آپ اگر رپورٹر، نیوز اینکر یا تجزیہ کار ہیں تو آپ بھی یہ مشق کر یں آپ کے تجزیئے میں گہرائی پیدا ہو جائے گی، آپ کے سوالوں میں ورائٹی بھی آ جائے گی، ملک میں آج کل بچوں کے اغواء کا سلسلہ بھی چل رہا ہے، ہمارے چینلزروزانہ درجنوں خبریں دیتے ہیں، میں یہ ایشو بھی پڑھ رہا ہوں۔ (باقی حصہ دو دن بعد ملاحظہ کیجیے)
[…] حصہ اول پڑھنے کے لئے یہاں کلک کرئے […]