شام کے ایک پانچ سالہ زخمی بچے کی ویڈیو نے دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس معصوم کی بے بسی پر عالمی میڈیا بھی ٹسوے بہاتا نظر آتا ہے۔ اس سے پہلے ایک اور شامی بچے معصوم سے ایلان نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔ ملک شام پر دن رات بمباری میں مصروف روسی اور دیگر ممالک کے حکمرانوں کے لیے شاید یہ ایک معمولی سا واقعہ ہو۔ جی ہاں ایسے ہی ہوتا ہے کہ دنیا میں ہمدردی اور انسانیت کے معیار بھی متاثرین کو دیکھ کر ہی بنائے جاتے ہیں۔ پورے حساب و کتاب کے بعد ہی کسی کو مظلوم قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی ضمیر جب جاگنا چاہے تو کسی پرندے کی موت پر بھی جاگ اٹھتا ہے اور جب نظر انداز کرنا چاہے تو شام، کشمیر، فلسطین اور دیگر ممالک میں ظلم و ستم کی چکی میں پستے معصوم بچے اسے نظر ہی نہیں آتے۔
فلسطین میں اکثر ایسی کہانیاں سامنے آتی ہیں کہ ظالم اسرائیلی افواج خاص طور پر بچوں کے سکولز اور ہسپتالوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ ایسا ہی شام میں کیا جا رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حالیہ آزادی کی لہر کے دوران درجنوں نوجوانوں کو پیلٹ گنوں سے نشانہ بنا کر زندگی بھر کے لیے نابینا بنا دیا گیا ہے۔ بھارت، اسرائیل، امریکہ اور روس تو ظلم کے پہاڑ توڑ ہی رہے ہیں لیکن ظلم کی انتہا یہ بھی ہے کہ دنیا میں کوئی اس پر بات بھی نہیں کرتا۔ گویا یہ سب کیڑے مکوڑے مر رہے ہوں کہ جن کے وجود سے اس کرہ ارض کو پاک کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا گیاہے۔ یہ تو ذکر ہے ان علاقوں کا کہ جہاں میدان جنگ گرم ہے اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔
تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی موجود ہے جو کہ شاید پہلے جیسا ہی بھیانک بھی ہے۔ برطانیہ کے اعلی ترین حکومتی ایوان دارالعوام میں ایک رپورٹ پیش کی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں برطانوی معاشرے میں مسلم کمیونٹی اور خصوصا باحجاب مسلم خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کے اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ”برطانیہ میں سکارف پہننے والی مسلم خواتین کو ملازمت کی جگہوں اور روزگار کے مواقع کے حوالے سے نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور یہ رجحان اس قدر بڑھ گیا ہے کہ برطانوی معاشرے نے اس رویے کو قبول کر لیا ہے اور زیادہ تر لوگ اب اسے امتیازی سلو ک ہی نہیں سمجھتے۔“ برطانوی دارالعلوم کی ویمن اینڈ ایکوالٹیز کمیٹی کو بتایا گیا کہ بعض مسلم خواتین کو مجبور کیا جاتا ہے کہ اگر انہیں اچھی ملازمت چاہیے تو وہ روایتی اسلامی لباس پہننا ترک کر دیں۔ رپورٹ کے مطابق برطانوی مسلمانوں میں بے روزگاری کی شرح دیگر شہریوں کے مقابلے میں تین گنا ہے۔ مسلم خواتین پر نفرت انگیز حملوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔“ جی ہاں یہ ہے مغرب کے نام نہاد تہذیب و تمدن کا ایک نقشہ جو کہ برطانیہ کے اعلی ترین ایوان میں پیش کیے جانے والے حقائق کی روشنی میں دیکھا جا سکتا ہے۔
عالمی ضمیر، اقوام متحدہ، عالمی عدالت انصاف، انسانی حقوق کی تنظیمیں اور انسانیت کا راگ الاپتے بہت سے ادارے ہر اس ظلم و ستم پر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں کہ جس کے متاثرین میں کوئی مسلمان شامل ہو۔ کسی کو مظلوم کہنے، انسانیت کا درس دینے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گردانیں بھی بند ہو جاتی ہیں کہ جب کسی مسلمان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں۔ شام کے زندگی کی بازی ہارتے بچے، بمباری سے جھلستے فلسطینی پھول، گن فائرنگ سے نابینا ہوتے کشمیری نوجوان کسی انسانی حقوق کے علمبردار کو نظر ہی نہیں آتے۔ دوسری جانب تہذیب و تمدن کے گڑھ ہونے کے دعویدار ممالک کے اپنے مسلمان شہریوں کے ساتھ سلوک کی حالت زار کی جھلک آپ برطانوی دارالعوام میں پیش کی جانے والی رپورٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔ گویا دنیا بھر کے مسلمانوں کو جیسے کیڑے مکوڑوں کی طرح سمجھ لیا گیا ہے کہ جس نے اسلحہ چلانے کی پریکٹس کرنی ہو وہ کسی نہ کسی مسلمان آبادی کو نشانہ بنا ڈالے، جب چاہے کوئی مغربی باشندہ کسی مسلمان خاتون کی عزت پر حملہ آور ہو حتی کہ انہیں حقوق میں بھی دوسرے اور تیسرے درجے کا شہری سمجھ لیا جائے اور سب سے اہم یہ کہ معاشرہ اس رویے کو قبول کرلے اور اسے امتیازی سلوک ہی نہ سمجھا جائے۔ یہ آج کی دنیا کا ایک کڑوا سچ اور عالمی معیار ہے مسلمانوں کے بارے میں۔
تبصرہ لکھیے