میں جب بھی گندم کی کٹائی کے موسم پر گاؤں لوٹتا !
اسٹیشن سے مغرب کی طرف جاتی پگڈنڈی پر قدم بڑھاتا وہ کسی نہ کسی درخت کی اوٹ سے نکل آتی !
اپنا حنائی ہاتھ میرے ہاتھوں میں دے کر محبت کے ہدیے طلب کرتی !
میں جو لاہور سے لوٹتے ہوئے طویل سفر کی تکان سمیٹ کر اس پرانے برگد کی چھاؤں میں جا بیٹھتا، تو وہ اپنی ریشمی چنی سے میرے لئے زمین پر جھاڑو لگا دیتی !
میں اس کی کانچ آنکھوں میں اترتے ہوئے جذبوں کی شدت پر حیرت کناں رہ جاتا . کوئی پورا سال بھی کسی کے لوٹ آنے کی آس میں ہر روز اسٹیشن سے گزرتی مغرب کی طرف جھکتی پتلی سی پگڈنڈی پر ہر روز آ کھڑا ہو سکتا ہے اور انتظار کرتا ہے ؟
لیکن پچھلے 10 وروں سے میں جب بھی گندم کی کٹائی کے موسم پر واپس لوٹتا !
وہ میرے لئے منتظر ہوتی !
اس بار میں گاؤں پلٹا تو چلتے چلتے پگڈنڈی ختم ہو گئی. مکانات نظر آنے لگے !
میرا دل دھک سے رہ گیا !
دس سالوں کا معمول ٹوٹا تھا !
کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا !
میں دل کو طفل تسلیاں دیتا اس کی دہلیز پر جا کھڑا ہوا !
منڈیر سے نظر آتی لڑکیوں کے ہجوم میں وہ سب سے جدا نظر آتی تھی. اس کے ہاتھوں پر حنا رچ رہی تھی لیکن اس بار ان کی مہک کسی اور کے مقدر میں آنے والی تھی !
میرے سب خدشے سچ ثابت ہونے جا رہے تھے. کاش میں ایک فصل پہلے لوٹ آتا . نوکری کی تلاش میں فصل کا فرق میری محبت نہ کھاتا !
سامنے گندم کے طویل کھیت لہلہاتے ہوئے مجھ پر ہنس رہے تھے . وہ نوکری جو اسے پانے کے لیے کی تھی . وہ دور کھڑی میرا تمسخر اڑا رہی تھی .
گندم کی سنہری بالیوں کا ہر خوشہ میری محبت کی موت پر نوحہ کناں تھا !



تبصرہ لکھیے