ہوم << کھنک لیکھک - عامر شہزاد

کھنک لیکھک - عامر شہزاد

”پانی کا سست بہاؤ یوں لگتا ہے کہ جیسے کائنات بوڑھی ہو چکی ہو اور ارتقا کے سفر نے اسے ہلکان کر دیا ہو.“
پاروتی نے اپنے بالوں سے اک گلاب نکالا اور پانی میں بہاتے ہوئے کہا۔

”تم ہر بار مجھے ٹوکتی تھی کہ میں سفر پر نکلتا ہوں تو کیوں پیدل چلتا ہوں؟
جب میری روح سفر بندگی سے سرشار ہو جاتی ہے اور میں ان پکھیرووں جیسا ہوتا ہوں جن کے پاس امان کے لئے کوئی گھونسلہ نہیں ہوتا. اور میں یہ جانے بغیر پیدل چل پڑتا ہوں کہ وہ راہ کس طرف مڑتی ہے تو یہ احساس مجھ پر طاری ہو جاتا ہے کہ کائنات میرے اٹھتے قدموں کی رفتار سے ارتقا کی مسافت کو طے کر رہی ہے.“

”اگر کائنات تماری رفتار سے بہیہ رہی ہے تو وہ اپاہچ ہے اور اگر اس پانی کی رفتار سے تو وہ بوڑھی ہو چکی ہے.“
”قدرت کو چاہیے کہ اپنی بقا میرے نقش پا میں تلاش کرے کیونکہ اپاہچ، سنبھل جاتے اور بوڑھے مر جاتے ہیں.“
اک کیڑا میرے پاؤں پر رینگ رہا تھا اور اک پکھو نے پانیوں کے اوپر سے اڑان بھری. اگلے ہی لمحے پانی پر بہتا پاروتی کا پھول میری نگاہوں سے اوجھل ہو گیا.
”وہ دور۔۔۔۔۔پانی اور آسمان باہم مل رہے ہیں“ اس نے میرا رخ ڈوبتے سورج کی طرف موڑتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔۔۔۔آسمان دھرتی ماں کی قدم بوسی کے لئے اتر رہا ہے.....“
”ایسا نہیں ہے (اس نے بائیں بازو کو حرکت دی اور چوڑیوں کی کھنک گہرے پانیوں میں اتر گئی) آسمان ، زمین سے بغلگیر ہو رہا ہے، یہ ملن کا وقت ہے.“

”جب سورج رات کے پردہ سے باہر نکلتا ہے یا جب غروب ہونے لگتا ہے تو وہ لمحے ہیجان خیز کیوں ہوتے ہیں؟“
اس کی آنکھوں میں ڈوبتے سورج کے منظر کی راعنائی تھی، میرا سوال سن کر اس نے آنکھیں موند لیں.
”ان لمحوں میں ملن کے دیپ جلتے ہیں، روشنی خود کو اندھیرے کو سپرد کر دیتی اور رات اپنے ہونٹ اجالے کے لبوں پر ثبت کر دیتی ہے.“
"یہ پنچھیوں کے گھر لوٹنے کا وقت ہوتا ہے، مزدور روٹی کھانے کے قابل ہو جاتا اور محبت زرہ دلوں میں لمس کی چاہت بیدار ہونے لگتی ہے.“
میں نے کہا اور پاؤں سمیٹ لئے، میری روح میں اداسی اتر رہی تھی۔

”وہاں چلیں جہاں آسمان اور زمین ہم آشنا ہو رہے ہیں.“ پاروتی نے میرا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا:
”روحوں کے وصال میں کسی اور کی موجودگی۔۔۔۔قربت کی لذت کو ماند کر دیتی ہے.“
بوڑھے دریا کے سست پانی اندھیرے میں بہیہ رہے تھے,آسماں پر تاریکی چھانے لگی. دن کی روشنی، رات کے اندھیرے میں مدغم ہوتی ہوئی اپنے ہونے سے محروم ہو رہی تھی. کوئی خیال میرے ذہن میں اترا اور بیان کی حاجت لئے زباں پر دستک کناں ہوا تو پاروتی نے بائیں ہاتھ کی انگلی میرے ہونٹوں پر رکھتے ہوئے سرگوشی میں کہا:

”چپ رہو، شام ہو رہی ہے.“
اسکی چوڑیوں کی کھنک دریا میں اتری ، اور پانی تھم گئے،شام ہو چکی تھی۔

Comments

Click here to post a comment