کہا جاتا ہے کہ بڑا ادب اکثر مقصدیت اور کسی فکر کے زیر اثر تخلیق ہوتا ہے اور تقسیم یہ ہے کہ عموماً "ادب برائے ادب" محض لطف یا حظ اٹھانے کےلیے ہوتا ہے اور "ادب برائے زندگی'مقصدیت اور زندگی کے مسائل پہ مبنی ہوتا ہے اس لیے ہر تخلیق کو بنیادی طور پہ اس تقسیم کے لحاظ سے دیکھنا ضروری ہوتا ہے۔
خالد فتح محمد کے ناول" کوہ گراں"اور بریلی ہندوستان کے خالد جاوید کے ناول "ایک خنجر پانی میں" کو ہم "ادب برائے زندگی" کی درجہ بندی میں ہی رکھیں گے۔ان دونوں ناولوں میں اس وقت پاکستان اور دنیا کو لاحق ماحولیات اور پانی کے اہم ترین مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے لہٰذا ہم ان ناولوں کو مقصدیت اور احساس سے بھرپور کہہ سکتے ہیں۔دونوں ناول ماحولیات اور پھر خاص طور پہ پانی کے گرد گھومتے ہیں۔پانی جو زندگی اور بقاء کا اہم ترین استعارہ ہے۔اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی ادھورا ہے۔
خالد فتح محمد اکیسویں صدی میں اردو فکشن کے میدان میں ایک اہم اور معتبر ترین نام ہے انہوں نے تواتر سے اہم اور نئے انداز کے ناول، افسانے اور تراجم لکھ کر خود کو ادبی حلقوں سے منوایا ہے۔انہوں نے اپنے ناول "کوہ گراں " میں مشرقی پنجاب میں زیر زمین پانی کی سطح کم ہو جانے کے باعث ایک قحط زدہ گاؤں کو آباد کرنے کی کوشش کا تذکرہ کیا ہے۔خالد فتح محمد نے اپنے ناول " کوہ گراں"میں واقعات کے لحاظ سے ایک جاندار کہانی کی مدد سے اپنے ناول کو پروان چڑھایا ہے۔ناول کے آغاز ہی سے محسوس ہوتا ہے کہ ایک کہانی یا قصہ ہے کہ جس کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔کوئی بھی صنف ادب ہو .
بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک مضبوط اور مربوط کہانی پڑھنے والے کو اپنے ساتھ اچھی طرح جوڑ لیتی ہے اور یہ ایک ایسی خوبی یا ضروری لوازمہ ہے جس کے بنا ناول ایک کامیاب ناول ہر گز نہیں کہلا سکتا۔ "کوہ گراں" کی کہانی اسے ایک اہم ناول اس لیے بناتی ہے کہ ناول نگار پورے ناول میں کہانی کی بنیاد پہ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اور ہمیں کہیں یہ محسوس نہیں ہوتا کہ وہ اپنی غیر ضروری منظر نگاری، مکالمہ نگاری یا فلسفے بگھارنے کی کوشش میں ناول کا حجم بڑھانا چاہ رہے ہیں۔خالد فتح محمد نے کہانی پن کے عنصر کو اپنے ناول کے لازمی جزو کے طور برتا ہے۔ان کی کہانی تہہ در تہہ واقعات، مکالموں اور سچوئشنز سے عبارت ہے وہ کسی بھی مرحلے پہ اپنی کہانی کو ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتے اور قاری کو مجبور رکھتے ہیں کہ وہ ان کی تحریر کے ساتھ پیوست رہے۔
اس ناول میں ادھیڑ عمر چودھری حلیم،زیر زمین پانی کی سطح نیچے چلے جانے کے باعث اپنے قحط زدہ اور بنجر گاؤں کو پھر سے آباد کرنے کی کوشش کےلیے گاؤں واپس آتا ہے۔مرالہ ہیڈ سے آئی ہوئی نہر بھی پانی کی غیر منصفانہ تقسیم سے خشک ہو چکی ہوتی ہے۔پانی نہ ہونے اور زمینیں بنجر ہونے کے باعث گاؤں کے تمام مکین یہاں سے گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کر چکے ہوتے ہیں۔اب گاؤں میں پانی واپس آئے تو کوئی مکین بھی گاؤں واپسی کی راہ اختیار کرے۔پانی کو واپس لانے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کےلیے چودھری حلیم گاؤں واپس لوٹتا ہے تو اسے گاؤں ہی کے اپنے پرانے دو بیمار و اپاہج دوستوں اور ایک باہمت اور طرحدار عورت گڈو کا ساتھ ملتا ہے۔
وہ ہیڈ مرالہ کو توڑ کر پانی اپنے گاؤں آنے والی نہر میں ڈالنے کا منصوبہ بناتا ہے اور اسے اس میں چند جرائم پیشہ واقف کاروں کے ذریعے کامیابی ملتی ہے۔اس ناول میں جہاں پانی کی واپسی کی کوششیں نظر آتی ہیں تو وہیں چودھری حلیم تنہا گاؤں اور خالی گھر میں مجسم دعوت گڈو کے ساتھ شب و روز بتِاتے ہوئے اس سے جسمانی تعلق قائم کرنے سے خود کو روکنے میں خود سے لڑتا رہتا ہے۔ناول کے آخر میں چودھری مرالہ ہیڈ کو توڑنے میں کامیاب رہتا ہے اور پانی گاؤں پہنچ جاتا ہے۔بارش ہوتی ہے اور چودھری حلیم کا خواب حقیقت کا روپ دھار لیتا ہے۔
"کوہ گراں"کی کہانی میں خاص بات یہ ہے کہ وہ لکھنے اور پڑھنے والوں کے گردوپیش کی کہانی ہے۔پڑھنے والوں کو اپنے مانوس ماحول، جگہوں اور کرداروں کو پڑھ کر ایک اپنائیت اور خوشی محسوس ہوتی ہے۔ناول کی کہانی میں مشرقی پنجاب کی ایک مخصوص دیہاتی اور دیسی فضا بیان کی گئی ہے۔دریائے چناب، مرالہ ہیڈ ورکس، نندی پور پاور پراجیکٹ، گوجرانوالہ کی مانوس جگہیں ناول کی کہانی میں مربوط طریقے سے استعمال ہوئیں ہیں۔اس ناول کی کہانی کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ بالکل نئے اور اچھوتے موضوع پہ لکھا گیا ہے.
اس لیے اس کی کہانی نئی، تازہ اور منفرد محسوس ہوتی ہے۔خالد فتح محمد نے کہانی کو کچھ اس انداز سے بیان کیا ہے کہ پڑھنے والے کی دلچسپی اور تجسس میں بتدریج اضافہ ہوتا جاتا ہے اور لاشعوری طور پہ اگلے واقعات یا انجام کا سوچنا شروع کر دیتا ہے۔مصنف نے ایک اہم ماحولیاتی مسئلے پہ ناول لکھا ہے جو دنیا کا اہم ترین مسئلہ بنتا جا رہا ہے اور ایسے موضوع کو ایک دلچسپ اور بامقصد کہانی میں ڈھالنا یقیناً ایک زبردست فنی کاوش گردانی جا سکتی ہے۔ اس ناول کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں پانی کی کمی کے باعث ایک اجڑے ہوئے قحط زدہ گاؤں کو پھر سے بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے یعنی یہ ایک مثبت انداز فکر کی کارروائی کو بیان کرتا ہے۔اس ناول کی کئی جہتیں ہیں۔
یہ فکری اور فنی دونوں حوالوں سے ایک مضبوط ناول ہے جس میں ناول لکھنے کے تمام فنی لوازمات کو انتہائی مہارت سے برتا گیا ہے۔یہ ناول شاید آج کل کی صورتحال کے مطابق تو نہیں لکھا گیا لیکن یہ حقیقت ہے کہ پانی کا بحران جس طرح سر اٹھا رہا ہے اگر اس پہ کوئی موثر حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو خدشہ ہے کہ اس ناول میں بیان کی گئی صورتحال آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔خالد فتح محمد نے خوبصورت انداز میں فنی اور تکنیکی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ایک بامقصد کہانی بنی ہے۔اردو میں اس طرح کسی بین الاقوامی مسئلے پہ اور مقصدیت سے بھرپور ناول بہت کم لکھے گئے ہیں شاید اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے خالد فتح محمد نے گوجرانوالہ میں بیٹھ کر اردو فکشن کو بڑا ناول دیا ہے اور ایک ایسی کہانی کو کارگر پلاٹ کے ساتھ صفحہ قرطاس پہ بکھیرا ہے .
جس سے فنی حظ بھی اٹھایا جا سکتا ہے اور ایک اہم سلگتے ہوئے مسئلے کی سنگینی کا احساس کرنے کے بعد انسانی کوششوں سے مسائل کا حل بھی دیکھ سکتے ہیں۔اسی طرح ہندوستان میں بیٹھے ہوئے خالد جاوید جو اردو میں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کے حوالے سے ماہر مانے جاتے ہیں، نے کرونا وبا کے دنوں میں قرنطینہ ہو کر "ایک خنجر پانی میں" جیسا بامقصد ناول لکھا جس نے ادب کے پنڈتوں کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا۔خالد جاوید نے خالد فتح محمد کے مقابلے میں بحالی کی بجائے پانی کی آلودگی کے لاشے پہ پھیلی وبا کے بعد کی صورتِحال پہ لکھا کہ انسان پانی جیسی بنیادی ضرورت کے بغیر کس طرح حواس کھو کر ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنتا ہے اور رشتوں کی پہچان کھو بیٹھتا ہے۔
خالد جاوید کے اس ناول "ایک خنجر پانی میں" کا اسلوب نہایت سپاٹ اور جذبات سے عاری ہے۔وہ اپنی بات کو ضروری الفاظ اور تراکیب سے کہنے تک ہی الفاظ پہ یقین رکھتے ہیں۔بہت زیادہ لفاظی، اس میں جذباتیت اور رنگ آمیزی شامل کرنے کے وہ قائل معلوم نہیں ہوتے۔وہ اپنی نثر میں بہت زیادہ امدادی لوازمات شامل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔بعض مقامات پہ وہ املاء، قواعد اور زبان کی چند دیگر تکنیکی لاپرواہیوں کے بھی مرتکب ٹھہرتے ہیں لیکن یا تو وہ اس چیز کو اہم نہیں سمجھتے یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ شاید پاکستان اور ہندوستان میں زبان کے پیمانے یا معیارات ذرا ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور شاید ہمارے ہاں ذرا پیمانے کڑے ہیں اور ہم شاید زیادہ روایت سے بندھے ہوئے لوگ ہیں۔
"ایک خنجر پانی میں "میں کئی کہانیاں ہیں لیکن بنیادی کردار اور کہانی پانی کی آلودگی،کمیابی اور وبا ہی ہے۔اس میں ہندوستان کی ایک شہری ہاؤسنگ سوسائٹی میں صاف پانی کی سپلائی میں آلودہ پانی شامل ہوتا ہے جس سے سوسائٹی میں زندگی ابتر ہو جاتی ہے۔کئی گھروں میں شادی شدہ جوڑے پانی کے اس عذاب سے صبر کے پیمانے لبریز کر بیٹھتے ہیں اور اسی چپلقش میں ایک دوسرے کی جان تک لے لیتے ہیں۔مسئلہ زیادہ تب بگڑتا ہے جب اس گندے پانی میں سے بیماری کی ایک وبا پھوٹتی ہے اور اس آبادی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اموات واقع ہونے لگتی ہیں اور وبا پھیلتی ہی چلی جاتی ہے۔شہر کی انتظامیہ مسئلے کی جڑ تک پہنچنے میں ناکامی کے بعد آلودہ پانی کی واٹر سپلائی لائن کے ذریعے فراہمی بند کر دیتی ہے جس سے پانی کا بحران مزید شدت اختیار کر لیتا ہے اور شہر میں ہنگامے ہونے لگتے ہیں۔اسی حالت میں انتظامیہ اور بیوروکریسی کے اپنے ہی لچھن اور مسائل ہوتے ہیں۔
شہر میں موت کے رقص پہ ایک نوجوان سرکاری ڈاکٹر ایک نوخیز صحافی لڑکی پہ ڈورے ڈالتا ہے اور اپنے سرکاری اختیارات اور خبروں کے بہانے اس سے جسمانی تعلقات قائم کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے۔اسی طرح کی کئی کہانیوں کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے بعد ناول اختتام کی طرف بڑھتا ہے اور آخر میں ایک غریب نل لگانے والا (پلمبر ہی سمجھ لیں) ہی پانی آلودہ ہونے کا معمہ حل کر لیتا ہے کہ واقعہ ایک فوجی چھاؤنی کی ممنوعہ حدود میں چاند ماری(فوجی فائرنگ رینج)کے قریب ایک جوہڑ میں پیش آتا ہے جہاں قریب ہی سے اس آبادی کو جانے والی صاف پانی کی پائپ لائن گزر رہی ہوتی ہے۔اس جوہڑ کے اوپر سے گزرنے والی بجلی کی ہیوی ٹرانسمیشن لائن ٹوٹ کر جوہڑ میں نہاتے ہوئے مویشیوں پہ گرتی ہے اور وہ جوہڑ ہی میں مر جاتے ہیں .
ان مویشیوں کیے خون اور باقیات ملے پانی کی اس آبادی کو جانے والے صاف پانی میں ملاوٹ تب ہوتی ہے جب وہ پائپ لائن اتفاقاً ٹوٹتی ہے۔اسی جوہڑ کا گندا خون آلود پانی اس ہاؤسنگ سوسائٹی میں وبا پھیلنے کا باعث بنتا ہے۔جب یہ سارا راز پا کر وہ غریب نل لگانے والا شہری انتظامیہ کے آفیسرز کو بتاتا ہے تو وہ فوراً جوہڑکے پاس جا کر پائپ لائن کی مرمت کرواتے ہیں، صاف پانی کی اس آبادی کو ترسیل پھر سے شروع ہو جاتی ہے۔وبا ختم ہو جاتی ہے لیکن اس کارنامے کا کریڈٹ لینے کےلیے شہری اور چھاؤنی کی انتظامیہ اپنی نااہلی چھپانے کےلیے اس غریب نل والے کو مار دیتی ہے اور خبر یہ چھپتی ہے کہ نل والے کو چھاؤنی میں چاند ماری کی کوئی بھٹکی ہوئی گولی اتفاقاً چاٹ گئی ہے۔
خالد جاوید نے ایک تو اس ناول میں ایک نئے طرز کے پلاٹ کا تجربہ کیا ہے دوسرا انہوں نے اپنے ناول کی کہانی کا انحصار انسانی کرداروں پہ نہیں رکھا بلکہ انہوں نے اپنے ناول کی کہانی کے کردار، آلودہ پانی، بیماری کی وبا اور ایک آبادی کی حالت زار کی شکل میں تخلیق کیے ہیں۔جب ہم دونوں ناولوں کا ماحولیاتی تناظر میں تقابلی جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان دونوں ناولوں میں فکری و فنی لحاظ سے کئی مشترک اور مختلف چیزیں ملتی ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ دونوں ناول صاف پانی کی انسان و جانداروں کےلیے اہمیت و افادیت کو واضح کرتے ہیں اور انسان کو پانی کے حوالے سے اپنائی گئی بے اعتدالی سے گریز کا مشورہ دیتے ہیں اور انسان سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ پانی کے حوالے سے واقعی دنیا کو سنجیدہ خدشات لاحق ہیں۔
ان دونوں ناولوں میں فکری و فنی لحاظ سے بہت زیادہ جان اور سوچ وفکر کے حوالے سے بہت سارے زاویے ہیں جو عام قاری اور نقادوں کو دعوت دیتے ہیں کو وہ اس پہ سنجیدگی سے غورو فکر کریں۔چند ایک اعتراضات بھی ایسے ہیں جن سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا لیکن اس سب کے باوجود یہ اردو ادب میں ماحولیات و پانی کے حوالے سے گرانقدر کام ہے جو سراہے جانے کے لائق ہے۔
تبصرہ لکھیے