ہوم << داد شاہ کی شہادت، تبصرہ کتاب: جنت آباد - عبدالغفار بگٹی

داد شاہ کی شہادت، تبصرہ کتاب: جنت آباد - عبدالغفار بگٹی

جنت آباد مجھے لگ بھگ دو سال قبل ڈاکٹر مالک بلوچ صاحب نے ایک تقریب میں پیش کی تھی ۔ انگریزی کی ڈگری کے دروان اردو کی کتب کا مطالعہ نہ ہونے کے برابر رہی ۔اب کچھ دنوں سے دوبارہ اردو کی کتابیں پڑھنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، تو جنت آباد نگاہوں کے سامنے سے گزری، پڑھ کر ایسا لگا کہ جیسا بلوچستان میں چھپنے والا آج کا اخبار پڑھ رہا ہوں ۔اور اس میں بلوچستان کی کئی سالوں کی روداد لکھی ہوئی ہے ۔مگر کسی صحافی کی نہیں ،سیاسی کارکن کی زبانی۔

جنت آباد کے ٹائٹل کے ساتھ "افسانے" لکھا ہوا ہے، یعنی یہ کتاب افسانوں پر مشتمل ہے۔ افسانوں سے مراد وہ کہانیاں ہیں جو کسی کردار کے کچھ دنوں پر مشتمل کسی واقعہ/حادثے پر لکھی گئی ہوں۔ مگر کتاب کے مطالعے کے دوران مجھے ایسا لگا کہ یہ تو حقیقی واقعات پر مشتمل کتاب ناکہ افسانوی کرداروں کی فرضی کہانیاں ہیں ۔ بس ان اصل کرداروں کے نام تبدیل کیے گئے ہیں اور جملوں کی فراوانی کے لیے ادبی زبان کا استعمال کیا گیا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی سیاسی زندگی نے جانے انجانے میں بلوچستان کے سیاسی معروض کا تذکرہ ، ان کی کہانیوں کے بنیادی موضوعات بناگئے ۔مجھے یہ بھی محسوس ہوا کہ اس کتاب میں آٹو بیوگرافی کے ایلیمنٹ کافی تعداد میں موجود ہیں ۔

اسی حوالے سے آگے چل کر میں ایسی کتاب کا ایک افسانہ بھی پیش کروں گا، جو آج کے بلوچستان کی سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے پہلے آگے چلوں، آپ کو اس کتاب کے مصنف کے حوالے سے کچھ بتاؤں۔ جنت آباد کے کتاب کا مصنف جان مانے شخصیت ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ہیں ۔ جن کا تعلق تربت بلوچستان سے ہے، نیشنل پارٹی کے سربراہ ہیں۔ مزید یہ کہ انہوں نے پوری زندگی بلوچستان میں سیاست کرتے گزاری ہے ۔اور بلوچستان کے امن و امان کے حوالے سے کافی تگ و دو بھی کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے لکھنے کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا تھا، جب وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا حصہ تھے۔ انہوں نے آغاز بلوچی میں مضمون نویسی سے کیا اور پھر چند افسانے بھی لکھے۔ اس کے بعد سیاسی مصروفیات کے باعث ایک طویل عرصے تک کچھ نہیں لکھ سکے۔ بعد ازاں، جب وہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، تو اس دوران انہوں نے اپنے کئی تجربات کو افسانوں کی شکل میں تحریری صورت میں محفوظ کیا۔ یوں ان کا افسانوی تجربہ اور اس کا زمان و مکان، بلوچستان کے لگ بھگ نصف صدی کے سیاسی و سماجی منظر نامے کی ترجمانی کرتی نظر آتی ہے۔ بلوچ قومی سوال، طبقاتی نابرابری اور سیاسی و سماجی پیچیدگیاں ان کی تحریروں کے مرکزی موضوعات ہیں۔

ان کے یہ تمام افسانے بلوچی میں "مارشت" (احساسات) کے نام سے 2020 میں کتابی صورت میں شائع ہوئے، جنہیں گوادر سے تعلق رکھنے والے نوجوان صحافی اور لکھاری عبدالحلیم حیاتان نے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس کا اردو ترجمہ "جنت آباد" کے نام سے مہردر نے شائع کیا ہے . ان کی کتاب میں لکھا افسانہ "گردشِ دوراں" کچھ ہوں ہے: جو کہ آج کے بلوچستان کی سیاسی کہانی بیان کررہی ہے ۔کہ کس طرح ریاست اور قومی انقلاب کے حامی حلقوں نے عام سیاسی کارکن کی سماجی روابط کاٹ ڈالیں ہیں۔اور صرف دو ہی بیانیوں کے درمیان بلوچستان کا عام بندا خوف کے سائے تلے زندگی گزار رہا ہے ۔جو کہ ریاستی بیانیہ اور علیحدگی پسند بیانیہ ۔ان بیانوں کے درمیان کی کہانی اور اس کہانی کو من و عن کچھ یوں کہ:

داد شاہ کا گاؤں شہر سے کوسوں دور ایک پہاڑ کے دامن میں واقع ہے۔ داد شاہ کا خاندان صدیوں سے یہاں آباد ہے۔ یہ قلیل آبادی والا گاؤں ہے، اور گاؤں کے اکثریتی مکین آپس میں رشتہ دار ہیں۔ گاؤں کے عقب میں ایک بہت بڑا پہاڑی سلسلہ موجود ہے، جبکہ گاؤں کے سامنے ایک بڑی سی ندی بھی بہتی ہے، جو انسانی ارتقا اور بود و باش کی گواہ ہے۔ داد شاہ نے اپنا بچپن اس گاؤں میں گزارا۔ داد شاہ کا والد ایک دوراندیش اور فہمیدہ انسان تھا۔ جب داد شاہ نے پرائمری کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا، تو والد نے اسے مزید تعلیم کے لیے شہر میں اپنے ایک رشتہ دار کے گھر بھیج دیا۔ داد شاہ ایک محنتی اور ذہین طالب علم تھا۔ اس نے شہر میں خوب دل لگا کر پڑھائی کی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ داد شاہ سیاست میں بھی دلچسپی لینے لگا۔

بنیادی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ماسٹر کی ڈگری کے حصول کے لیے اس نے بڑے شہر کا رخ کیا۔ وہ نصابی کتابیں پڑھنے کے علاوہ دیگر موضوعات پر مبنی کتابوں کا بھی مطالعہ کرتا۔ داد شاہ نے بلوچ طلبہ تنظیم کی آبیاری کا ذمہ بھی اپنے کندھوں پر لیا۔ اس نے نوجوانوں کی علمی، فکری اور شعوری استعداد کار کو بڑھانے کے لیے تربیتی سرکل بھی منعقد کرنا شروع کیے۔ داد شاہ جب بھی چھٹیوں میں اپنے گاؤں لوٹتا، تو وہ اپنے فکری ساتھیوں کے ہمراہ علاقے کے پیروکار جوانوں کو اپنا فکری ساتھی بنانے کے لیے ان کی رہنمائی کرتا ہوا نظر آتا۔

ماسٹر کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد داد شاہ نے اپنی عملی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ عوام کو منظم کرنے کے لیے قومی جماعت تشکیل دی۔ نوجوانوں، طالب علموں، دانشوروں اور شاعروں، ادیبوں کو اپنی جماعت میں اکٹھا کیا۔ داد شاہ نے اپنی سیاسی جماعت کو نظریاتی بنیادوں پر منظم کیا۔ داد شاہ اور اس کے رفقائے کار نے ایسے وقت میں سیاسی جماعت تشکیل دی تھی جب لوگ سرداروں اور نوابوں کے سیاسی کردار سے مایوس ہو چکے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ یہ اپنے نام و نمود اور اپنی اولادوں کی پرآسائش زندگی کے خواہاں ہیں۔ ان کے نزدیک قومی تشکیل کا ایجنڈا، تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی کوئی معنی نہیں رکھتی۔

داد شاہ اور اس کے رفقائے کار کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ سردار اور مقتدر حلقے قومی جماعت کی تشکیل نہیں چاہتے، بلکہ وہ اسٹیٹس کو کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن داد شاہ اور اس کے رفقائے کار نے ایک ایسی جماعت کی آبیاری کی تھی جس کی بنیاد قوم دوستی پر استوار تھی، جو قبائلی، جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ سوچ کے خلاف تھی۔ اس جماعت نے اسٹیٹس کو کو پچھاڑ دیا۔ داد شاہ انتہائی منکسرالمزاج اور بے لوث شخصیت کا مالک تھا۔ وہ سیاست میں بے لوث کردار ادا کرنے کا قائل تھا۔ اس لیے اس نے کبھی بھی بڑا تنظیمی عہدہ لینے میں دلچسپی نہیں دکھائی اور نہ ہی کوئی سرکاری عہدہ لیا۔ داد شاہ نے اپنی زندگی درویشانہ انداز میں گزاری، جس پر وہ سیاسی حلقوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور بطور سیاسی استاد معروف رہا۔ داد شاہ نے سیاست میں اپنا ایک مقام اور مثبت امیج بنائے رکھا۔

جلد ہی اس کی جماعت نے انتخابات میں حصہ لے کر کامیابی بھی حاصل کر لی۔ داد شاہ کے بہت سارے دوست وزیر بن گئے۔ اس دوران اچانک داد شاہ کے علاقے میں انقلاب اور مزاحمتی فکر کا رجحان جڑ پکڑنا شروع ہو گیا۔ پسماندگی اور قومی جبر کے ایک طویل پس منظر کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد اس رجحان سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ دانشور، ادیب، وکیل، استاد، غرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ اس فکر کے گرویدہ ہونے لگے۔ ایسا محسوس ہونے لگا کہ بس اب انقلاب آنے کو ہے۔ جو بھی اس فکر کی مخالفت کرتا، وہ غدار پکارا جاتا اور موت کا حق دار ٹھہرایا جاتا۔ انقلاب کے اس نعرے نے نہ صرف اس علاقے پر گہرا اثر ڈالا، بلکہ چاروں اطراف اس کی گونج سنائی دینے لگی۔ کچھ لوگ شعوری اور کچھ لاشعوری طور پر اس عمل کا حصہ بن گئے۔

پھر جنگ و جدل میں تیزی آنے لگی۔ آئے روز بم دھماکے ہونے لگے۔ سرکاری اسکولوں میں قومی ترانے کی ممانعت ہونے لگی اور ریاست کے مفادات پر حملے شروع ہوئے۔ جلسے جلوس منعقد ہونے لگے۔ آبادکار اساتذہ کو نشانہ بنایا گیا، ترقیاتی منصوبوں میں رخنہ ڈالا گیا اور مزدوروں کا قتلِ عام ہونے لگا۔ داد شاہ کے کئی سیاسی رفیقوں نے جمہوری جدوجہد کو ترک کر کے مزاحمتی جدوجہد کی راہ اپنائی۔ جنہوں نے اپنی سابقہ سیاسی تنظیم کے خلاف فتویٰ بازی کرتے ہوئے اعلان کیا کہ یہ قومی غدار ہیں اور ان کے رہنما قومی تحریک کی راہ میں رکاوٹ ہیں، لہٰذا انہیں راستے سے ہٹانا ناگزیر بن چکا ہے۔

داد شاہ اور اس کے رفقائے کار کہنہ مشق سیاسی لوگ تھے۔ وہ ایسے نشیب و فراز کو قریب سے دیکھنے کا تجربہ بھی رکھتے تھے۔ داد شاہ اور اس کے رفقائے کار اس صورت حال کا باریک بینی سے تجزیہ کرنے لگے۔ وہ آزادی کے مطالبے پر متفق تو تھے، لیکن ان کا یہ استدلال تھا کہ آزادی کے حصول کے لیے سب سے پہلے وسیع البنیاد اور قومی سوچ کی حامل قومی جماعت کی موجودگی ضروری ہے، تاکہ وہ قومی شعور، ایکتا اور معاونت کو یقینی بنائے اور بین الاقوامی برادری آزادی کی حمایت کرے۔ بہ صورتِ دیگر ایسی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔

داد شاہ اور اس کے رفقائے کار اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مزاحمت بادی النظر میں قومی نقصان کا باعث بنے گی، جس میں نوجوانوں کی جانیں جا سکتی ہیں، آبادیاں اپنی جائے مسکن چھوڑنے پر مجبور ہو سکتی ہیں، درس و تدریس کا عمل متاثر ہوگا اور اس کے مابعد اثرات تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ایک دن ٹی وی پر بریکنگ نیوز چلی کہ ایک چرواہے نے ندی میں گولیوں سے چھلنی ایک نعش دیکھی ہے۔ نعش کی شناعت یوسف کے نام سے ہوئی۔ یہ وہی یوسف تھا جسے کچھ عرصہ قبل بازار سے جبراً اغوا کیا گیا تھا۔ اس خبر سے داد شاہ اور اس کے رفقائے کار بہت دل گرفتہ ہوئے۔ اس کے بعد آئے روز ندیوں اور ویرانوں میں نوجوانوں کی تشدد زدہ لاشیں ملنا شروع ہو گئیں۔ نوجوان سیاسی کارکنوں کے جبری اغوا کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔

مزاحمتی تحریک کو کاؤنٹر کرنے کے لیے متوازی فورس سامنے آ گئی۔ اس فورس کو ہر طرح کی غنڈہ گردی کی آزادی حاصل تھی۔ یہ فورس چند پیسوں کے عوض کسی کو بھی اغوا اور قتل کرنے سے دریغ نہ کرتی۔اس خوف اور بے یقینی کی صورت حال نے علاقے میں بے چینی اور دہشت کی فضا طاری کر دی۔ دوسری طرف ریاستی جبر کے باعث مزاحمتی جدوجہد کرنے والوں کی طاقت میں کمی آنے لگی، جس پر تلملا کر انہوں نے انتقام کا رخ اپنے سیاسی و فکری مخالفین کی طرف موڑ دیا۔ شومئی قسمت، ان کا پہلا ہدف داد شاہ ہی بنا۔

داد شاہ کی شہادت پر ہر سو سوگ کی فضا طاری ہو گئی۔ معاشرے کا ہر فرد داد شاہ کی قوم دوستی و انسان دوستی کے جذبے اور قربانیوں سے آگاہ تھا۔ وہ داد شاہ جیسے قومی تحریک کے ایک سرخیل، مدبر، سیاسی استاد اور بے لوث سیاسی رہنما کی شہادت سے سخت رنجیدہ اور دل گرفتہ ہوئے۔

داد شاہ کا یہ تجزیہ، جس کا اظہار اس نے اپنے فکری ساتھیوں سے یوں کیا تھا کہ:
"ایک دن ایسا آئے گا جب طاقتور لوگ ان بندوق برداروں کو نشانہ بنائیں گے اور ان کے غیض و غضب کا نشانہ ہم جیسے سیاسی لوگ بنیں گے"
حرف بہ حرف سچ ثابت ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کی آج کی سیاسی صورتحال جاننے کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔

Comments

Avatar photo

عبدالغفار بگٹی

عبدالغفار بگٹی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، سماجی کارکن اور ادیب ہیں۔ ڈیرہ بگٹی بلوچستان سے تعلق ہے۔ پروگریسیو رائٹرز ایسوسی ایشن اسلام آباد کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں۔ بلوچستان کی سیاست و سماج پر گہری نظر رکھتے ہیں

Click here to post a comment