"ساوتری تو سمجھ کیوں نہیں رہی ہے۔بس کچھ ہی دنوں کی تو بات ہے میں آجاؤنگا کچھ ہی دن میں۔"پرکاش نے ساوتری کے منہ میں نوالہ ڈالتے ہوئے اسے نرمی سے سمجھایا۔
"سوچ ہم نئی زندگی شروع کرسکتے ہیں۔سکون سے جی سکتے ہیں، جتنی رقم وہ لوگ دے رہے ہیں. میں چوبیس گھنٹے ہفتے کے ساتوں دن ساری زندگی بھی کام کروں تب بھی جمع نہیں کرسکتا۔کچھ ہی دن کی تو بات ہے۔"
ساوتری آنسو بہاتی رہی اور اپنی بات پر قائم رہی۔
"نہیں میں تجھے کہیں نہیں جانے دوں گی۔مجھے نہیں چاہیے کوئی روپیہ پیسہ۔وہ سامنے والی ابھاگن لیلا کودیکھ کیسے گلیوں میں رامو رامو چلاتی پھرتی ہے۔اسے بھی تو رامو یہی کہہ کر گیا تھا ایک سال ہوگیا نا رامو آیا نا کوئی رقم۔کیا کیا ان لوگوں نے رامو کے ساتھ۔لاش تک نا دی لیلا کو اس کی۔" پرکاش جوش سے بولا۔
"ارے اس نے کام ٹھیک سے نا کیا تھا نا اس لیے مارا گیا۔میں تو سب جانتا ہوں۔کیا بولنا ہے کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے۔بھاگنے کے بھی سب راستے بتادیے ہیں انہوں نے مجھے۔تو فکر مت کر۔"
"نہیں پھر بھی میں تجھے کہیں نہیں جانے دوں گی۔" اسے بار بار رامو کا خیال آرہا تھا۔کہیں پرکاش کو بھی رامو کی طرح زندہ جلا دیا تو وہ کیا کرے گی۔
ادھر پرکاش کو اپنی اور ساوتری کی زندگی آسان ہوتی نظر آرہی تھی۔زیادہ کچھ کرنا بھی نہیں تھا۔بس ایک جلوس کے درمیان سے رام رام کہتے گزرنا تھا بس۔ہزاروں کے جلوس میں اسے کون پہچان سکتا تھا بھلا۔پلک جھپکتے بھاگنے میں تو وہ ویسے بھی بہت ماہر ہے۔بچپن سے یہی تو کرتا آیا تھا۔اسکول سے بھاگنا کام سے بھاگنا۔آخری بار ساوتری کو لے کر بھاگا تھا اور دیکھو تین سال ہوگئے کون ڈھونڈ سکا آج تک اسے۔
اگلی صبح اسے بس جلوس سے پہلے پہنچنا تھا تاکہ پیشگی رقم لاکر ساوتری کو دے سکے شاید اس سے ساوتری کو یقین آجایے اور وہ پیسے دیکھ کر خوش بھی ہوجائے گی۔ ساوتری اس سے ناراض تھی سو کھانا کھاتے ہی اپنے پلنگ پر چلی گئی اور سوتی بن گئی۔پرکاش دیر تک روشن مستقبل کے خواب بنتا رہا پھر جانے کب اس کی بھی آنکھ لگ گئی۔ گلی کے آخری گھر کی چھت پر بڑا سا جھنڈا تیار کیا جارہا تھا۔اگلے روز جلوس میں اسی کو لہرا کر نعرہ بازی ہونی تھی۔بڑی بڑی پگڑیاں پہنے سب ایک دوسرے کی عقیدتوں کو تول رہے تھے۔
کس نے اپنے گھر کتنا چراغاں کیا ہے،کس نے مہنگے برینڈ سے سفید کرتا خریدا،کس کے صحن میں سب سے اونچا جھنڈا لگا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ تنظیم کو چلانے کے لیے چندہ دینے کے وقت کس نے اپنے گھر کی سب سے قیمتی شے لاکر جنت خریدی۔جوانوں کا خون خوب جوش مار رہا تھا۔تیز آواز میں بڑے بڑے اسپیکروں پر تنظیم کا ترانہ بج رہا تھا۔آس پڑوس کے گھروں میں لوگ سونے کی کوشش کر رہے تھے مگر ناکام تھے۔کہیں کوئی نومولود اس بلند آواز کو پہلی بار سن رہا تھا اور مسلسل بلک رہا تھا۔وہیں ایک اور گھر میں غفور مزدور یہ سوچ رہا تھا کہ کل جلوس کی وجہ سے شہر کے سب راستے بند ہونگے تو وہ کام کیسے ڈھونڈے گا۔
اور شام کو جب پچھلے محلے کے بڑے بڑے دیندار مہنگے کپڑے پہنے اچھے اچھے برتنوں میں مزےدار کھانے سجائے ایک دوسرے کے گھر پہنچا رہے ہونگے تو وہ اپنے بچوں کو کیا جواب دے گا کہ یہ لوگ انہیں کھانا کیوں نہیں دیتے۔کیا جنت صرف اپنے جیسوں کے ساتھ بانٹ کر کھانے سے ملتی ہے۔رات بھر تیاریاں جاری رہیں ۔کسی نے جنت کمائی اور کسی نے ہاتھ آئی بھی گنوا دی۔
صبح ہوئی تو جلوس میں جانے والے نئے نکور کپڑے پہنے سروں پر اونچی اونچی دستاریں باندے ہاتھوں میں اپنے اپنے نمائندہ علم اٹھائے گھروں سے نکلنے لگے۔غفور مزدور بچوں کو دلاسے دینے لگا۔حکیمہ دائی نے دوپٹے میں بندھا آخری سو کا نوٹ چندے کے ڈبے میں ڈالا اور اس امید پر مسکرا دی کہ آج تو بڑے بڑےگھروں میں خوب لنگر بٹے گا تو کم از کم اگلے دو دن تو اسے کھانے کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ادھر اقلییتوں کی بستی میں لیلا پاگلوں کی طرح گھر گھر جاکر دروازے پیٹ رہی تھی،
"آج گھروں سے مت نکلنا۔اپنے مَردوں کو کمروں میں بند کردو۔پیسے والے آج سودا کرنے نکلے ہیں جسموں کا سودا۔جانوں کا سودا اور ایمانوں کا سودا۔اپنے اپنے ایمان بکنے سے بچالو۔"
پرکاش اور ساوتری بھی اس ہنگامے سے اٹھ بیٹھے۔پرکاش کو احساس ہوا کہ کافی دیر ہوگئی ہے۔جلوس نکل چکا ہوگا۔اب اسے ایڈوانس کی رقم نہیں ملے گی۔پھر بھی وہ بعد میں ملنے والی آدھی رقم کا سوچ کر تیار ہونے لگا۔اپنا بیلچہ اٹھایا اور اس سے پہلے کہ ساوتری غسل خانے سے باہر آتی وہ سائیکل کو تیز تیز پیر مارتا دور نکل گیا۔ساوتری نے جو غسل خانے میں پرکاش کی سائیکل کی آواز سنی تو جلدی جلدی نہا کر باہر نکلی لیکن تب تک دیر ہوچکی تھی۔پرکاش گلی پار کرچکا تھا۔
جلوس کی وجہ سے ہر راستہ بند تھا. اسے پرچم کشائی کے مقام تک پہنچنے میں بہت وقت لگ گیا۔مطلوبہ مقام تک پہنچ کر وہ شناسا چہرہ تلاش کرنے لگا۔تھوڑی دیر یہاں وہاں دیکھنے کے بعد اسے وہ چہرہ پرچم کشائی کے لیے سجائے گئے اسٹیج پر نظر آگیا۔پرکاش نے دور ہی سے اشارہ کیا۔دوسری طرف اس عظیم شخصیت نے ہاتھ ہلا کر اور مسکرا کر کام جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔ساتھ ہی بائیں ہاتھ میں پکڑی نوٹوں کی گڈی لہرائی جسے دیکھ کر پرکاش اور جلوس کے شرکاء مزید پرجوش ہوگئے کیونکہ دونوں کو لگتا تھا کہ یہ گڈی ان پر نچھاور کی جائے گی۔نعرہ تکبیر بلند ہوا اور کہیں کسی نے کہتے سنا ،
"رام، رام،رام رام۔"
"یہ رام رام کون جپ رہا ہے۔کون ہے یہ گستاخ۔"
پرکاش اپنے چہرے پر رومال لپیٹے رام رام جپتا تیز تیز چلا جارہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے اسے دبوچ لیا۔
"یہ رہا یہی ہے یہی جپ رہا ہے رام رام۔گستاخ رسول ایک اور آواز آئی مارو مارو۔بھاگ نا پائے۔"
نکلنے نا دینا کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔جلوس کی ساری توجہ کا مرکز اب پرچم نہیں بلکہ پرکاش تھا۔جانے کتنی سمتیں تھیں جن سے اسے تھپڑ گھونسے لاتیں ماری جارہی تھیں۔پرکاش تو بھاگنے کے سب راستے جانتا تھا پھر یہ کیا ہوا۔وہ تو سمجھ رہا تھا وہ کامیابی سے بھاگ کر پانی کے کولر میں رکھا نوٹوں کا بیگ لےکر سیدھا ساوتری کے پاس جائے گا اور پھر کچھ ہی دیر میں شہر سے باہر نکل جائے گا۔
مگر یہاں تو کچھ اور ہی ہورہا تھا۔دور اسٹیج پر بیٹھی دین کی ٹھیکیدار مافیا۔پرکاش کو پٹتا بلکہ مرتا دیکھ کر آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے کو تسلی دے رہی تھی کہ آج ایک اور گستاخ رسول کو جہنم واصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔اب انہیں جنت میں جانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔پرکاش بری طرح زخمی تھا۔پورا جلوس اسے روندتا ہوا آگے نکل گیا۔اور کچھ ہی دیر میں پرکاش کی لاش جلوس پر نچھاور کیے جانے والے پھولوں کے ساتھ کچلی جا چکی تھی جس کی وجہ سے اس کی پہچان بھی ممکن نہیں تھی۔جلوس اپنے اختتام کو پہنچا تو واعظ نے ہر اس دین کے رکھوالے کو جنت کی بشارت دی جس نے پرکاش کو ایک بھی گھونسہ لات رسید کی تھی یا اس کی لاش پر پیر رکھ کر گزرا تھا۔ ادھر ساوتری ،لیلا کے ساتھ مل کر روتی پیٹتی چند ہی گھنٹوں میں دیوانی ہوگئی۔
اگلے دن اخبارات اور ٹی وی کی شہہ سرخی تھی:
" میلادالنبی کے مرکزی جلوس میں مشتبہ شخص شان رسول میں گستاخانہ کلمات بکتا پکڑا گیا۔جلوس کے شراکاء نے اسے موقع پر ہی جہنم واصل کردیا اور قیامت میں نبی کریم کے سامنے شرمندہ ہونے سے بچ گیے۔"
تبصرہ لکھیے