ایک مدت ہونے کو ہے، ہر سال ماہ اگست میں آزادی کا ایسا شور بلند ہوتا ہے کہ کبھی کبھار میں بھی خود کو آزاد محسوس کرنے لگتا ہوں لیکن جب اس آزادی سے محظوظ ہونے کی کوشش کرتا ہوں تو یاد دلایا جاتا ہے کہ آپ چند خاندانوں کے غلام ہیں. ان مظالم کو کیسے بھولا جا سکتا ہے جو ہمارے ’’آقائوں ‘‘ کی جانب سے ہم پر ڈھائے جارہے ہیں. ہم اس مزارع کے دُکھ کو کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں جس کے بیٹے کا بازو اس لیے توڑ دیا جاتا ہے کہ اس نے وڈیرے کی حکم عدولی کی، کیا اس بیٹی کا غم بھلایا جاسکتا ہے جو بغیر کسی جرم جرگے کی جہالت کا شکار ہو گئی، جہاں علاقے کے چوہدری کے سامنے حق بات کر نے کی جرات کسی میں نہ ہو، وہ معاشرہ کیسے آزاد ہو سکتا ہے؟ اندرون سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیاسی و غیر سیاسی سرداروں کے مظالم ایک باشعور انسان کے لیے کسی صورت قابل قبول نہیں ہوسکتے. اس نظام میں رہتے ہوئے ہم خود کو کیسے آزاد محسوس کرسکتے ہیں جس میں ایس ایچ او کسی وقت ایک غریب آدمی پر جھوٹی ایف آئی آر درج کر کے اسے کال کوٹھری میں پہنچا دے، میں نے اپنی آنکھوں سے مدعی بن کر تھانے جانے والوں کو مجرم بنتے دیکھا، ایک غریب آدمی جتنا خوف ایک پولیس والے کو دیکھ کر محسوس کرتا ہے اتنا خوف شاید اسے کسی فرنگی کو دیکھ کر محسوس نہیں ہوتا ہوگا. مظالم کی کتنی ہی داستانیں ہیں جو بیان کی جائیں تو روح تک کانپ جائے، پولیس، پٹواراور انتظامیہ کے ذریعے اس ملک کے محروم طبقات کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا وہ ایک طرح سے غلامی ہی ہے. یہاں فرض اور انتقال کےلیے بھی سفارش درکار ہے، چور کے خلاف ایف آئی آر کے لیے بھی رشوت کی ضرورت ہے، ملازمت کےلیے بھی کسی وزیر کی پرچی درکار ہے، کاروبار کےلیے قبضہ گروپوں سے قریبی تعلقات ضروری ہیں، الغرض معاشرتی نظام اس قدر تباہ ہوچکا کہ سوچیں تو عقل دنگ رہ جاتی ہے. انصاف کا فقدان اور اقربا پروری جس طرح ملک کی بنیادوں کو چاٹ رہی ہے وہ ناقابل یقین حد تک تباہ کن ہے. ضلعی عدالتوں میں انصاف کےلیے عام آدمی کو جس طرح جوتے گھسانے پڑتے ہیں وہ ایک الگ موضوع ہے۔
میں جب اپنا سیاسی نظام دیکھتا ہوں تو بھی اپنی آزادی پر شبہ ہوتا ہے. باپ کے بعد بیٹا ایوان اقتدار کی طرف دیکھ کر ہونٹوں پر یوں زبان پھیرتا ہے جیسے قائداعظم نہیں، اس کے والد صاحب اس ملک کے بانی ہوں. ملک پر جس طرح حکمرانی کی جا رہی ہے، اس طرح کی حکمرانی کسی ایسی کمپنی کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی جس میں دو یا اس سے زائد شراکت دار ہوں، یہ تو پھر ایک ملک ہے، زندہ سلامت ملک جس کے حصول کے لیے لاکھوں روحیں جسموں سے جدا ہوئیں، نہ جانے کتنی مائوں نے اپنے سپوت قربان کیے، کتنے سہاگ اجڑے اور کتنی بیٹیاں یتیم ہوئیں. اگر آج اکیسویں صدی میں بھی ہم اس طرز حکمرانی کو قبول کر رہے ہیں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہماری جڑوں میں آج بھی آقائوں کا خوف ہے، اس سے بڑی بے بسی اور کیا ہوگی کہ ہم اپنے ان ’’مالکوں‘‘ کو خوش کرنے کے لیے اپنے رسم و رواج اور اپنی ثقافت تک نہ صرف بھول گئے بلکہ اس قوم کی ثقافت اپنانے میں فخر محسوس کرنے لگے ہیں جس نے ہمیں عشروں تک غلام بنائے رکھا۔ اسے غفلت کہا جائے، بےقدری یا ناشکری لیکن یہ حقیقت ہے کہ بحثیت قوم ہم آج تک وہ اہداف حاصل نہ کرپائے جس کے لیے ہم نے قربانیاں دیں. کیا ہماری تمام تر قربانیوں کا مقصد اپنے آقائوں کی تبدیلی تھا؟ کل انگریز تھا اور آج موجودہ اشرافیہ اور سیاستدانوں کا ٹولہ ہم پر حکمرانی کر رہا ہے۔ افسوس ناک اور تباہ کن حقیقت یہ ہے کہ انگریز کے خلاف آواز بلند کرنے والی قوم اس ٹولے کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہے، اول تو کبھی اس نظام اور ان چند خاندانوں سے آزادی حاصل کر نے کی کوشش ہی نہیں کی جاتی اور اگر کی جائے تو چند خاندان فوج سے ڈراتے ہیں، عوام اپنے حق کےلیے آواز اٹھائیں تو ان کی جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے. سچ تو یہ ہے کہ ایسی جمہوریت ہماری آزادی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور ہمیں اس سوالیہ نشان سے نجات کے لیے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوگی. ہم سب کو اس برائے نام آزادی سے بغاوت کرنا ہوگی، اس زمین اور اس کے باسیوں کو حقیقی آزادی تب ہی نصیب ہوگی جب تحریک پاکستان کے مقاصد کو پورا کیا جائے گا، عوام کو حکمرانی اور ترقی میں حصہ ملے گا اور سب شہری برابر ہوں گے. 14اگست 1947ء کو اذان دی گئی تھی، نماز ابھی باقی ہے۔
تبصرہ لکھیے