مولانا مقصود الرحمٰن حجازی مرحوم میرے لیے صرف ایک شناسا یا دوست نہیں تھے، بلکہ میرے محسن تھے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ وہ صرف میرے نہیں، بلکہ سینکڑوں لوگوں کے محسن، ہمدرد اور راہ نما تھے۔ ان کی شخصیت محبت، اخلاص اور خدمت کی ایسی خوشبو تھی جو آج بھی دلوں کو معطر کیے ہوئے ہے۔
راقم کے ساتھ ان کا تعلق، ان کی دعائیں، ان کے مشورے، اور ان کا حسنِ سلوک، حسن ظن، میٹھی میٹھی تنقید، مزاحیہ چٹکلے اور خوش گپیاں بڑی دلچسپ ہوتی تھیں۔ کئی دفعہ میں ان کے پاس پہنچتا اور اپنے مشکلات اور دکھ درد کی کہانیاں انہیں سناتا اور خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتا، وہ کہتے:
"یار حقانی! پریشان نہ ہوں، میں آپ کے لیے یہ کروں، وہ کروں، یعنی جہاں جہاں میری معاونت کی ضرورت ہو، میں حاضر ہوں۔"
میں عرض کرتا مقصود بھائی! اس دکھ درد کا مطلب آپ کے سامنے اس لیے نہیں سناتا کہ آپ میرے لیے پریشان ہوں بلکہ اپنے دل کو بے تکان کرنے کے لیے سناتا ہوں، کوئی تو ہو جس سے بندہ بے دھڑک اپنی مشکلات بتائے۔ پھر وہ ایک بڑا سا قہقہہ لگاتے اور کوئی لطیفہ سنا دیتے۔ ان کا یہ رویہ کئی دلوں کے لیے زندگی کا سہارا بنا رہا۔ ہمارا ابتدائی تعارف اس وقت ہوا جب وہ جامعہ دارالعلوم کراچی میں اپنے آخری علمی مراحل میں تھے، اور ہم اشرف العلوم میں حفظِ قرآن میں مصروف۔ مقصود بھائی تب بہت سینئر تھے، اور ہم بہت جونئیر، تاہم اُن دنوں بھی ان میں سنجیدگی، وقار و مزاح اور خلوص کا ایک خاص رنگ جھلکتا تھا۔
وقت گزرتا گیا، اور وہ تعارف محبت و یگانگت کی شکل اختیار کر گیا۔ جب ہم نے درس و تدریس کے ساتھ ساتھ لکھنے کا آغاز کیا اور سوشل میڈیا پر اظہارِ خیال کی راہ اپنائی، تو مولانا حجازی مرحوم کی حوصلہ افزائی اور شفقت ہماری رہنمائی کا سبب بنی۔ وہ کھبی کبھار ہم پر تنقید کرتے اور کھبی تحسین، اور کبھی کھبی میرے کالمز، خیالات اور فکر و نظر پر ، ذاتی طور پر واٹس ایپ میں تبصرہ فرما دیتے۔ یہ ان کے اصلاح یا تنقید کا طریقہ تھا۔ وہ اپنے طور پر سخت تبصرہ کرتے لیکن میرے لیے یہ چیزیں معمول کی تھی۔ ایک دفعہ کسی کالم پر سخت تبصرہ فرمایا تو میں نے خوب قہقہے لگائے، کہنے لگے:
"مطلب میری سختی کا ،آپ پر اثر نہیں ہورہا ہے"۔
میں نے کہا : "حضرت! میں اس کو سختی نہیں سمجھتا، یار لوگوں نے اتنا برا بھلا کہا ہے کہ آپ جیسے لوگوں کی باتیں اور میٹھی میٹھی تنقید کا مزے لینے لگتا ہوں "۔
کہنے لگے: " یار آپ پر اس سے زیادہ سختی مناسب بھی نہیں"۔
ایک بار میں کسی ادارے میں گریجویشن کے امتحانات کی نگرانی پر مامور تھا۔ عمومی طور پر امتحانات کے سلسلے میں میرا رویہ بھی سخت ہوتا ہے اور طرزِ عمل بھی۔ اس دوران کسی طالب علم کو معلوم ہوا کہ حقانی، مولانا حجازی کے قریبی دوست ہیں، تو کچھ طلبہ اپنی امیدیں لے کر ان کے پاس جا پہنچے۔ منت سماجت کی، جب ان کا اصرار حد سے بڑھا تو مولانا مسکرا کر کہنے لگے،
"وہ حقانی اس معاملے میں بڑا سخت ہے، پھر بھی میں تمہارے لیے کہتا ہوں!"
چنانچہ مولانا نے اپنی طرف سے ایک نرم سی سفارش حسنہ کر دی، جسے میں نے شائستگی سے سن لیا۔ لیکن سفارش کا اثر کچھ اور ہی نکلا۔ میں نے امتحانی ہال میں غیر مرئی انداز میں، مگر واضح لہجے میں، اعلان کیا:
"کچھ لوگ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ میرے محترم اور معزز دوستوں کو میرے پیچھے لگا کر سفارش کرواتے ہیں... اب ان پر تھوڑی اضافی سختی کی جائے گی!"
یہ جملہ جہاں مجھ جیسے نگران کے اصولوں کا اظہار تھا، وہیں مولانا حجازی کے لیے ہنسی کا ایک نیا سامان بھی بن گیا۔ وہ جب بھی یہ قصہ یاد کرتے، دل کھول کر قہقہے لگاتے، اور کہتے:
"حقانی! تم نے تو سفارش کو الٹا سزا میں بدل دیا."
سال 2019 وہ مبارک سال تھا جب مجھے حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ مکہ مکرمہ میں مولانا سے محبت و مودت کا ایک اور باب کھلا۔ نہ صرف مکہ میں، بلکہ مدینہ منورہ میں بھی انہوں نے قدم قدم پر ساتھ دیا۔ بار بار ملاقات کے لئے تشریف لاتے رہے اور زیاراتِ مقدسہ سے لے کر مہمان نوازی کے ہر انداز تک، ان کا خلوص بےمثال تھا۔ عجوہ کھجور کے باغات کی سیر، مدینہ کی روح پرور گلیوں میں چلنا، والدہ محترمہ کے لیے سونے کی انگوٹھی اور اپنے لئے عربی جبوں کی خریداری کے لیے بھی ساتھ لے گئے۔
آب شفا، خاک شفا اور عجوہ کی گھٹلیوں کا سفوف
مدینۃ الرسول یعنی مدینہ منورہ کے مقدس کنویں بئرِ رُحاء کے پانی کو "ابِ شفا" کہا جاتا ہے جو شاید مسجد نبوی صل اللہ علیہ والہ وسلم سے پچاس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہی کنواں ہے جس کے متعلق روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اس کا پانی نوش فرمایا، اور اس کے پانی میں شفا کی دعا فرمائی۔ صدیوں سے زائرین اسے روحانی دوا سمجھ کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ مولانا نے میری ریکوسٹ پر اس متبرک پانی کے کئی بوتل بھی بطورِ تبرک پہنچا دیے۔ اسی طرح مدینہ کی ایک مخصوص جگہ کی مٹی جو "خاکِ شفا" کے نام سے معروف ہے.
اس جگہ کی زیارت بھی کروائی اور خاک شفا بھی پہنچائی، اہلِ علم و عرفان کے نزدیک یہ مٹی روحانی اثرات رکھتی ہے، اور نبی کریم ﷺ کی حدیث سے بھی یہ ثابت ہے کہ زمین کی مٹی میں شفا ہے، بشرطِ ایمان و یقین۔ اسی طرح، مدینہ منورہ کی مشہور کھجوریں، خاص طور پر عجوہ، جو طبِ نبوی ﷺ میں خاص مقام رکھتی ہیں، ان کی خریداری میں بھی مولانا کی معیت رہی۔ یہ کھجوریں محض غذا نہیں، بلکہ دوا کا درجہ رکھتی ہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے:
"جس شخص نے صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھائیں، اسے اس دن زہر اور جادو نقصان نہیں دے سکتے۔"
(صحیح بخاری)
مولانا محترم نے عجوہ کی گھٹلیوں کا سفوف بھی مخصوص جگہ سے حاصل کرایا، جو کئی امراض کے لیے مؤثر دوا کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ان تمام اشیاء کا مقصد محض زیارت یا خریداری یا تحفہ نہیں تھا، بلکہ ان کا حصول میری والدہ محترمہ کی صحت و شفا کے لیے لانا ضروری تھا۔ میں اپنی بیمار والدہ کو، ان چیزوں کا بھی بطور دوا استعمال کروانا چاہتا تھا جو کروایا، دل کی یہ تمنا بھی پوری ہوئی۔ ان تمام چیزوں کے حصول میں برادرم مقصود حجازی ساتھ رہے۔ یہ سب لمحے میرے حافظے میں نقش ہیں۔ یہ وہ کام ہیں جو محض ایک سچا، مخلص اور بےلوث انسان ہی کر سکتا ہے۔
جب وہ مستقل طور پر پاکستان واپس آئے اور گلگت سٹی میں سکونت اختیار کی، تو ہماری ملاقاتیں معمول بن گئیں۔ کبھی وہ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ میرے گھر تشریف لاتے، اور کبھی میں ان کی دکان گلوبل کارپٹس میں چائے سے دل بہلاتا۔ ہماری باتیں صرف دنیاوی نہیں، روحانی بھی ہوتیں تھیں اور نظریاتی بھی۔ اور فکر و نظر کا اختلاف بھی رہتا تھا لیکن اس اختلاف میں احترام اور شائستگی تھی اور محبت کا سیل رواں بھی۔ مولانا کچھ نظریات میں بہت سخت تھے لیکن کاروباری سرگرمیوں نے اس حوالے سے سماجی طور پر انہیں بہت نرم بنایا تھا مگر ان کے نظریات اور فکر و نظر میں کمی نہیں آئی تھی۔
یہ میرے ذاتی تاثرات ہیں، تاہم مولانا کے متعلق کچھ بنیادی معلومات بھی عرض کر دیتے ہیں تاکہ ان کی حیات مستعار کے جملہ پہلوو سامنے آجائیں۔
خاندانی پس منظر اور والد ماجد
مولانا مقصود ، مقصود حجازی کے نام سے معروف تھے تاہم ان کا اصل نام مقصودالرحمٰن تھا اور ان کے والد گرامی کا نام مولانا محبوب احمد ہے جو جید عالم دین ہیں۔ مولانا مقصود ١٥ دسمبر ١٩٧٨ء ميں گاؤں گلاپور، ضلع غذر ، گلگت بلتستان میں پیدا ہوئے ۔ اُن کا تعلق یشکن قبیلے سے تھا۔حجازی صاحب مرحوم کی خوش قسمتی یہ ہوئی کہ ان کا گھرانہ دینی تھا اور والد مکرم مولانا محبوب احمد صاحب ایک عالم دین ، اِمام مسجد ، معلم قرآن تھے اس لئے ان کی ترتیب میں دین داری شامل ہوگئی تھی،
مولانا محبوب احمد نے تعلیم کا آغاز اپنے آبائی گاؤں گلاپور سے ہی کیا ۔ قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد دارالعلوم کراچی سے درس نظامی کی تکمیل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے اُم القراء یونیورسٹی مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مکہ میں ہی رہے اور مسجد کے امام کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اسی طرح مولانا محبوب صاحب حفظہ اللہ، الأنجال پاکستانی سکول مکہ مکرمہ میں اسلامیات اور عربی کے استاد رہے ہیں۔ اور اہل خانہ سمیت مکہ مکرمہ شفٹ ہوئے اور 38 سال وہ مقیم رہے۔
انکی اہلیہ مرحومہ کا تعلق بھی گلاپور سے تھا۔وہ ایک نہایت ہی رحم دل ، مہمان نواز اور عبادت گزار خاتون تھی جس نے زندگی کے اکثر بہاریں مکہ مکرمہ میں گزاری اور آخری سالوں پاکستان منتقل ہوئی اور زندگی کےآخری ایام شارجہ، متحدہ عرب امارات میں گزارے اور وہی داعی اجل کو لبیک کہا۔تب ان کے ایک بیٹے وہی پر رہاش پذیر تھے۔
تعلیم و تدریس
مولانا محبوب احمد نے اپنی تمام اولاد یعنی چھ بیٹے اور دو بیٹیوں کو خود ہی پڑھا کر، حفظ قرآن کی دولت سے مالا مال کروایا تھا۔ یہ بہت بڑی سعادت کی بات ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی، مکہ مکرمہ میں رہنے کی وجہ سے مولانا مقصود کمال کی عربی بولتے تھے اور لکھتے بھی خوب تھے۔ وہ کبھی کبھار اپنے اس مضمون جو انہوں نے ایک سے زائد شادیوں پر عربی زبان میں لکھا تھا اور ان کے والد ماجد کے ہاتھ لگا تھا، بڑے پیارے انداز میں سناتے تھے کیونکہ ہم بھی دوسری شادی کے خبط میں مبتلا تھے۔ پھر اس موضوع پر خوب گپ شپ ہوتی۔ اسلامی علوم سے واقفیت کے لیے عربی زبان و ادب جاننا بہت اہم ہوتا ہے۔
ہم جیسے عجمی عربی پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ایک طویل عرصہ تگ و دو کرتے ہیں۔ مولانا مقصود نے تعلیم کا آغاز اپنے گاؤں گلاپور سے کیا، پھر ابتدائی اسکول کی تعلیم اور حفظ قرآن کی تعلیم سعودی عربیہ میں مکہ مکرمہ میں حاصل کیا تھا اور ایک طویل عرصہ مدینہ الرسول میں رہے تھے اس لیے ان کی عربی بہت اچھی تھی، عام گفتگو میں بھی عربی اشعار، ضرب الامثال اور محاوروں کا خوب استعمال کرتے تھے۔ اور قرآنی یعنی فصیح اور عامیانہ عربی روانی کیساتھ بولتے تھے۔
انہوں نے اعلی دینی تعلیم کے حصول کے لئے ملک کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ دارالعلوم کراچی کا رخ کیا، اور سال ٢٠٠١ کو دورہ حدیث شریف یعنی درس نظامی کی تکمیل کی۔ان کے کبار اساتذہ میں، شیخ الحدیث مولانا سحبان محمود صاحب، مفتی اعظم پاکستان مفتی رفیع عثمانی صاحب مولانا شمس الحق صاحب، مولانس عزیزالرحمان صاحب ،مفتی محمود اشرف صاحب رحمہم اللہ، شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب ، مفتی عبدالروف سکھری صاحب زیدمجدہم جیسے اساطین علم و عمل قابل ذکر ہیں، اسی طرح رئیس المحدثین مولانا سلیم اللہ خان نوراللہ مرقدہ اور کراچی کے کبار علماء و مشائخ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیے او سند حدیث حاصل کی، اور ساتھ کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری کی۔ ان کے دورہ حدیث کے نمایاں رفقاء میں مولانا سلمان عزیز ، مولانا جاوید جمیل ،مولانا عبید الرحمن ، مولانا طفیل اٹکی ، مولانا نور محمد (رحمہ اللہ ) جیسے فاضل علماء تھے۔
تدریس اور حجاج کرام کی خدمت
درس نظامی کی تکمیل کے بعد تین سال دارالعلوم گلاپور غذر میں تدریسی خدمات انجام دیں، پھر والدین کے ہمراہ سعودی عرب میں مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔ وہاں دارالھجرہ انٹرنیشنل اسکول میں 13 سال اسلامیات اور عربی کے استاد رہے۔ ان کا کام محض تدریس تک محدود نہ تھا، وہ مدینہ منورہ آنے والے حجاج و معتمرین کی مکمل رہنمائی کرتے، زیارات کراتے، خریداری کرواتے، حتیٰ کہ قربانی کے انتظامات بھی کرتے۔ عصر تا رات نو بجے تک وہ بچوں کو قرآن پڑھاتے، جن میں کئی حفاظ بھی ان کے فیض یافتہ ہیں۔
کاروبار اور رفاہی خدمات
سال 2021ء میں وطن واپسی کے بعد گلگت میں گلوبل کارپٹس اینڈ پردہ ہاؤس کے نام سے کاروبار شروع کیا، بعد ازاں زمزم ہوم فرنیش کے نام سے اس کی دوسری شاخ قائم کی۔ ساتھ ہی “المحراب ویلفیئر ٹرسٹ” کی بنیاد رکھی جس کے ذریعے خاموشی سے مستحقین کی مدد کی جاتی رہی۔ انہوں نے حج و عمرہ کی رہنمائی کے لیے “حجازی ٹریولز” کے نام سے ایک کمپنی بھی قائم کی، جس نے سینکڑوں لوگوں کو مناسکِ حج و عمرہ کی تربیت دی۔ اور انہیں ادائیگی حج و عمر میں معاونت کی۔
فیملی اور اولاد کی تربیت
مولانا مقصود حجازی 1997ء میں اپنے تایا کی صاحبزادی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ان کی اہلیہ محترمہ بھی نیک سیرت اور سادہ طبع خاتون ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے چار بیٹے اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ بیٹوں کے نام حافظ حسین مقصود ، حافظ حذیفہ مقصود، معاویہ مقصود،اور ریان ہیں۔ اور بیٹیاں مناہل اور لُجَین ہیں۔ اولاد کی تربیت، تعلیم اور ذہنی تشکیل میں مولانا حجازیؒ نے گہرے نقوش چھوڑے۔ ان کے بچے انتہائی باادب اور ملنسار ہیں۔اللہ اپنے حفظ و امان میں رکھے۔
ہمہ جہت شخصیت
مولانا ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، جو دینی، تعلیمی، تبلیغی، سیاحتی، تفریحی اور تنظیمی صلاحیتوں میں ممتاز تھے۔ کئی دینی تحریکوں بالخصوص اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم و آل بیت رضوان علیہم اجمعین کی دفاع کرنے والی جماعتوں کے قریبی تھے اور ان کی ممتاز شخصیات کے ساتھ ذاتی تعلقات رکھتے تھے۔ان کا کتب خانہ نایاب کتب کا خزینہ ہے۔ مولانا فٹبال کے بے حد شوقین تھے، اور “الاتحاد” ٹیم کے مداح تھے۔ ان کے حلقۂ احباب میں معروف سیاسی، سرکاری، سماجی،علمی، اور دینی شخصیات شامل تھی.