600x314

اندھیرا، جو چاند سے لپٹ گیا – سیدہ ارمہ نفیس

اندھیری رات تھی۔ ٹوٹے در و دیوار سے جھانکتی روشنی میں وہ ماں اپنے بچے کو سینے سے لگائے بیٹھی تھی۔ بچے کا جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا، اور ماں کی آنکھوں میں وہ پیاس تھی جو پانی کی نہیں، انصاف کی ہوتی ہے۔
“محمد زکریا” اس بچے کا نام تھا۔

ماں نے سوچا تھا کہ جب وہ بڑا ہوگا تو اسے چاند کی روشنی دکھائے گی۔ اسے بتائے گی کہ دنیا میں اندھیرے کے بعد روشنی آتی ہے۔ مگر اُس کی گود میں پڑا بچہ تو خود اندھیرے کا ایسا شکار تھا جس کے بعد شاید کوئی صبح ہی نہ ہو۔ زکریا اب اٹھارہ ماہ کا ہو چکا تھا، مگر اس کا وزن کسی نوزائیدہ بچے سے بھی کم تھا۔ دودھ ختم ہو چکا تھا، خوراک کا نام و نشان نہیں تھا، اور ماں کا دل؟
وہ تو کب کا ٹوٹ چکا تھا، بس دھڑک رہا تھا، شاید اللہ کے کسی حکم کی تکمیل کے لیے۔

“وہ صرف بھوکا ہے، بیمار نہیں”، ماں خود کو تسلی دیتی.
لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ بھوک اب بیماری بن چکی تھی، اور دنیا خاموش تماشائی تھی۔ “اقوام متحدہ؟” ماں نے دل میں سوچا،
“کیا وہ صرف تصویریں دیکھتے ہیں؟
کیا وہ صرف مذمت کے بیانات دیتے ہیں؟
کیا ان کے بچے کبھی بھوکے سوتے ہیں؟”

کمرے کی چھت پر ایک سوراخ تھا، جہاں سے روشنی کا ایک ہلکا سا دھاگا نیچے اترتا۔ وہی سوراخ تھا جس سے ماں اکثر آسمان کو دیکھتی، اور رب سے ایک ہی دعا کرتی
“یا رب، میرے زکریا کو یا روٹی دے دے یا سکون دے دے.”

باہر اسرائیلی ڈرون گشت کر رہے تھے، اندر انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ اسی رات، جب ماں نے زکریا کو آخری بار سینے سے لگایا، تو اسے محسوس ہوا کہ بچے کی سانسیں مدھم ضرور ہیں، مگر باقی ہیں۔ اس کی ہڈیاں اب بھی زندگی کا بوجھ اٹھا رہی تھیں۔ وہ دھڑکن جو ماں کی انگلی تھامے چلتی تھی ابھی چل رہی تھی۔
ماں نے گہری سانس لی۔ ایک نم آنسو زکریا کے ماتھے پر گرا، اور وہ تھوڑا سا تڑپا بہت ہلکی سی حرکت، جیسے اس نے کہنا چاہا ہو
“امی… میں اب بھی زندہ ہوں۔”

ماں کی آنکھیں پہلی بار امید سے بھر گئیں۔
“تم زندہ ہو… تم زندہ ہو میرے لعل!”
صبح ہوئی۔ کیمرے آئے، تصاویر کھینچی گئیں، دنیا نے تصویر دیکھی، کچھ نے افسوس کیا، کچھ نے تبصرہ کیا، کچھ نے صرف انگلیوں سے سکرول کر کے آگے بڑھا دیا۔

لیکن ماں؟
وہ آج بھی اپنے زکریا کو سینے سے لگائے بیٹھی ہے۔ آنکھوں میں آنسو، دل میں دعا، اور لبوں پر ایک عزم:
“جب تک میری آغوش ہے، زکریا مرے گا نہیں!”

مصنف کے بارے میں

ویب ڈیسک

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment