600x314

سویدا جھڑپیں تاریخ کے اوراق سے – عرفان علی عزیز

جے این ایف یعنی جیوش نیشنل فنڈ (Jewish national found ) کے نام سے یہودیوں نے اسرائیل میں ایک غیر سرکاری تنظیم قائم کر رکھی ہے ۔ بظاہر یہ غیر سرکاری تنظیم ہے مگر یہ وہ زہریلا خنجر ہے جسے عرب بدوی قبیلے پر تھوپ رکھا ہے۔ اسرائیل میں صحرائی علاقے میں ایک چھوٹا سا خطہ النقاب کے نام سے مشہور ہے۔ عبرانی زبان میں اسے نیجیو Negev کہلاتا ہے۔

نیگیو ریگستان، اسرائیل کا جنوبی علاقہ، جہاں صدیوں سے بدوی قبائل بستے آ رہے تھے۔ یہ قبیلے خانہ بدوش تھے، اپنی زمین، اپنی زبان، اور اپنی پہچان کے ساتھ۔ مگر جدید ریاست کی تعمیر میں ان کے خیمے، ان کی زمینیں، ان کا وجود سب “غیرقانونی” کہہ کر روند دیے گئے۔ اسرائیل میں لگ بھگ 250,000 بدوی عرب آباد ہیں، جن میں سے زیادہ تر نقب (جنوبی اسرائیل) میں رہتے ہیں۔ بدوی (Bedouin) عرب قبائل ہیں جو روایتی طور پر صحرائی علاقوں میں خانہ بدوش زندگی گزارتے تھے۔ ان کی موجودگی مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک میں ہے، جن میں سعودی عرب، اردن، شام، مصر، اور اسرائیل شامل ہیں۔

اسرائیل میں یہ قبیلے خاص طور پر نقب (Negev Desert) کے علاقے میں آباد ہیں۔ 1948ء میں جب اسرائیل ریاست وجود میں آئی تو اس علاقے میں رہنے والے بدوی قبیلہ 99گی صد زمینوں کے مالک تھے۔ان کا ذریعہ معاش زراعت اور بھیڑ بکریاں تھے۔ غزہ کی پٹی مغربی کنارے اور فلسطین میں یہودی بستیاں 1967ء میں قائم ہونا شروع ہوئیں. مگر اس علاقے کو شروع سے ہی آماجگاہ بنا لیا گیا۔بدوی قبیلہ ظلم و بربریت کا نشانہ بننے لگا۔ ان کی کہیں سے بھی شنوائی نہ ہوئی اور نہ آج ہو رہی ہے۔ یہودیوں نے ترقی اور جدید سہولیات کا جھانسہ دیکر انہیں شیشے میں اتارنے کی کوشش کی مگر بدوی قبیلہ مزاحمت دیکھائی تو اسرائیل نے بہ زور قوت انہیں محصور کردیا گیا۔

اس علاقے کا آج تک سروے نہیں ہوا۔نہ کوئی انسانی مشن وہاں پہنچا اس کی وجہ اسرائیلی افواج ہے۔ 1969ء یہودیوں نے رجسٹریشن کے نام بدوی قبیلہ کو بدر کرنے کی شازشیں کیں ۔ جس کی وجہ سے بدوی 3 فی صد زمینوں پر قبضہ قائم رکھنے میں کامیاب ہوا ۔ باقی زمینوں پر یہودیوں نے قبضہ کر لیا تھا۔ہزاروں بدوی ایسے دیہات میں رہتے ہیں جو حکومت نے “غیر قانونی” قرار دے رکھے ہیں۔ ان دیہات کو نہ بجلی دی جاتی ہے، نہ پانی، نہ اسکول، اور نہ ہی صحت کی سہولیات۔ 2009 میں ڈاکٹر عوض ابو فریج نے عوام سے اپیل کی۔ اور یہودی شازش کو بے نقاب کرنے کےلئے آواز اٹھائی۔

”اسرائیلی حکومت بدویوں کے گھر اور دیہات کو بار بار گرا دیتی ہے، خاص طور پر العرقِب (Al-Araqib) جیسا گاؤں، جو سو سے زائد بار گرایا جا چکا ہے۔“

مگر شنوائی نہیں ہونے دی جارہی۔ بعد ازاں ذرائع ابلاغ کے مطابق خبر کی تشہیر ہوئی تو ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ، اور اقوام متحدہ نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ بدویوں کے ساتھ نسلی امتیاز برت رہا ہے۔ اسرائیلی سپریم کورٹ میں کئی مقدمات زیر سماعت ہیں، مگر زمینی حقائق میں بہتری سست ہے.

بدوی قبیلہ اور دروز قبیلے کا پیش منظر
دروز قبیلہ (Druze):
ایک خفیہ، متصوفانہ مذہب کے ماننے والے، جو اسلام سے خارج تسلیم کیے جاتے ہیں۔ امام جعفر الصادق کے بیٹے اسماعیل کے پیروکار ہیں۔ لبنان، شام، اسرائیل، اور اردن میں رہائش پذیر ہیں۔اسرائیل میں اکثر دروز شہری فوج میں بھرتی ہو جاتے ہیں اور ریاست کے وفادار تصور کیے جاتے ہیں۔ بدوی قبیلے کی غیر تسلیم شدہ بستتوں کو تباہ کرنے کے بعد دروز قبیلے کو وہی زمین سرکاری اسکیم کے تحت الاٹ کر دی گئی۔بدوی قبیلہ اسے ظلم اور قبضہ سمجھتا ہے۔جس بدوی قبیلہ اور دروز قبیلہ آمنے سامنے ہو گئے۔

جب بدوی قبیلہ اور دروز قبیلہ آمنے سامنے آتے ہیں تو تصادم صرف دو طبقات یا دو قبیلوں کا نہیں ہوتا بلکہ تہذیب، عقیدے، وفاداری اور زمین کی ملکیت پر سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔ بدوی قبیلہ سادہ، فطری، اور آزاد زندگی کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک عزت، روایت اور قبیلہ سب کچھ ہے۔ دروز قبیلہ مذہبی طور پر نہایت بند اور روایتی ہے، مگر سیاسی طور پر زیادہ نظم و ضبط کا حامل۔ یہی فرق اکثر جھگڑوں اور تناؤ کو جنم دیتا ہے۔ کبھی بدوی لڑکیوں کے لباس یا انداز کو دروز نوجوان تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، تو کبھی بدوی قبیلے دروز کی ریاستی قربت کو غداری سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ آہستہ آہستہ نفرت اور بداعتمادی کی زمین ہموار کرتا ہے۔

شام کے جنوبی شہر سویدا میں ایک ہفتے سے جاری فرقہ وارانہ جھڑپوں کے بعد لڑائی تھم گئی ۔ شامی حکام کے مطابق دروز جنگجو شہر پر دوبارہ قابض ہو گئے ہیں، فائربندی کے بعد شہر میں امن قائم ہے ، دروز کے کنٹرول میں موجود علاقوں میں حکومتی فورسز تعینات کر دی گئی ہیں۔ امریکی ثالثی کے بعد جنگ بندی پر عمل درآمد کیا گیا۔ ایک ہفتے بعد اتوار کو پہلا انسانی امدادی قافلہ سویدا شہر میں داخل ہوا، جہاں دروز اکثریتی علاقے میں حالیہ فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 1192 افراد ہلاک ہو چکے جن میں 336 دروز جنگجو، 298 اقلیتی گروہ کے شہری،354حکومت کے سکیورٹی اہلکار اور 21 سنی بدو شامل ہیں۔

شامی ریڈ کریسنٹ کے ترجمان عمر المالکی نے بتایا کہ 32 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ خوراک، ادویات، ایندھن اور لاشوں کے تھیلے لے کر پہنچا ۔ عمر المالکی کا کہنا تھا سویدا کے مکین کئی دنوں سے بجلی، پانی اور خوراک کے بغیر گھروں میں محصور ہیں۔ شہر کے ہسپتال میں لاشیں رکھنے کی جگہ ختم ہو چکی ۔اقوام متحدہ نے کہا فرقہ وارانہ تشدد کے باعث بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 1 لاکھ 28 ہزار سے تجاوز کر چکی۔

مصنف کے بارے میں

عرفان علی عزیز

عرفان علی عزیز بہاولپور سے تعلق رکھتے ہیں۔ افسانہ و ناول نگاری اور شاعری سے شغف ہے۔ ترجمہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ مختلف رسائل و جرائد میں افسانے اور جاسوسی کہانیاں ناول شائع ہوتے ہیں۔ سیرت سید الانبیاء ﷺ پر سید البشر خیر البشر، انوکھا پتھر، ستارہ داؤدی کی تلاش نامی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ شاعری پر مشتمل کتاب زیرطبع ہے

تبصرہ لکھیے

Click here to post a comment