ہوم << توہین رسالت: مغرب کی صدیوں پرانی نفسیاتی جنگ -مہتاب عزیز

توہین رسالت: مغرب کی صدیوں پرانی نفسیاتی جنگ -مہتاب عزیز

اسلامی تہذیب کے خلاف مغرب کی نفسیاتی اور نظریاتی جنگ کا سب سے پرانا اور مؤثر ہتھیار “توہین رسالت” ہے۔ نام نہاد "قرطبہ کے شہداء" (Martyrs of Córdoba) سے شروع ہونے والی یہ منظم مہم آج جدید دور میں سوشل میڈیا کی شکل میں پوری شدت کے ساتھ جاری ہے۔ مقصد ایک ہی ہے — مسلمانوں کو اشتعال دلاؤ، اسلامی معاشروں کو بدنام کرو، اور اسلام پر عمل کرنے والوں کی ساکھ پر حملہ کرو۔

یہ نویں صدی میں اندلس (موجودہ اسپین) میں عبدالرحمن دوم کے پرامن دور حکومت کا زمانہ تھا، جب اسلام اپنی سادگی، مساوات اور عدل کی بنیاد پر یورپ میں تیزی سے پھیل رہا تھا۔ عام لوگ عیسائیت کو ترک کر کے دین اسلام کی پناہ میں آ رہے تھے۔ یہ صورتحال عیسائی راہبوں اور پادریوں کو سخت ناگوار تھی، لیکن وہ اس کے خلاف کوئی مزاحمت نہیں کر پا رہے تھے۔ عیسائی رعایا مسلمان حکمرانوں سے خوش تھی۔ ایسے میں اُنہوں نے عوام کو مسلمانوں اور اسلام سے بدظن کرنے کے لیے ایک انوکھی چال چلی۔

یوجینیس (Eulogius) نامی ایک عیسائی پادری کی کتاب "Memoriale Sanctorum" (شہداء کا تذکرہ) میں ان واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ عیسائی رضاکار مسلمان قاضی کے سامنے پیش ہوتے اور روبرو "توہین رسالت" کا ارتکاب کرتے اور سزائے موت پاتے۔ یہ عیسائی رضاکار جانتے بوجھتے موت کو گلے لگاتے تھے تاکہ وہ عقیدے کی مضبوطی کا اظہار کر کے "شہید" کہلائیں۔ ان کے لیے یہ ایک مقدس عمل تھا۔ یوجینیس (Eulogius) نے اپنی کتاب میں صرف 850ء سے 859ء کے آٹھ سال کے دوران توہین رسالت کر کے سزائے موت پانے والے 48 نامی گرامی پادریوں اور نوابوں کا تذکرہ لکھا ہے، جبکہ عام عیسائی سینکڑوں میں تھے۔

یوجینیس (Eulogius) نے کتاب مکمل کرنے کے بعد خود بھی یہ غلیظ عمل کیا اور 11 مارچ 859ء کو سزائے موت پائی۔ اس سب کا مقصد مسلمانوں کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکانا تھا تاکہ عیسائی مسلمانوں سے نفرت کرنے لگیں اور اسلام کی اشاعت رک جائے۔ قرطبہ سے شروع ہونے والی یہ مہم پورے اندلس اور پھر یورپ کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گئی۔ عیسائی مشنری مسلمان ممالک میں جا جا کر بھی توہین رسالت کا ارتکاب کرتے رہے، جس کی وجہ سے مسلمانوں اور عیسائیوں میں کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی۔ عیسائی ممالک میں مسلمانوں کو نفرت کی نظر سے دیکھا جانے لگا، اور مسلمان خطوں میں یورپ سے آنے والے تمام عیسائیوں کو مشکوک سمجھا جانے لگا۔

ان گستاخ "شہداء" کو چرچ کی تاریخ کا حصہ بنایا گیا، ان کے واقعات کو ہجیوگرافی (مقدس افراد کی سوانح عمریاں) میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کی یاد میں تقریبات اور مقدس دن منائے جانے لگے، جس سے ان کی کہانیاں عام لوگوں کی مذہبی اور ثقافتی یادداشت کا حصہ بن گئیں۔ یہ نفسیاتی حکمت عملی صلیبی جنگوں میں مزید شدت اختیار کر گئی۔ بعد میں جب پروٹیسٹنٹ فرقے کو یورپ میں عروج حاصل ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلاف زبان درازی کو آزادی اظہار کی علامت بنا کر پیش کیا گیا اور اس کام کو فخریہ اپنایا جاتا رہا۔ مستشرقین کی عبارات میں آپﷺ کی ذات پر رکیک حملے کثرت سے کیے گئے۔

آج بھی مغربی معاشروں میں سلمان رشدی، ڈنمارک کے کارٹونسٹ، چارلی ہیبڈو، اور دیگر توہین آمیز کرداروں کو سرکاری تحفظ دیا جاتا ہے اور ان کے خلاف کسی بھی قانونی کارروائی کو “اظہار رائے کی آزادی” پر حملہ کہا جاتا ہے۔سوشل میڈیا کے موجودہ دور میں توہین رسالت کے واقعات مزید خطرناک اور منظم ہو چکے ہیں۔ کئی اسلامی ممالک میں ایسے باقاعدہ نیٹ ورکس اور گروہوں کے شواہد ملے ہیں جو پیسے لے کر یا بیرونی ایجنڈے کے تحت آن لائن توہین رسالت کرتے ہیں تاکہ مذہبی انتشار پیدا کیا جائے۔ بدقسمتی سے، کئی مسلم حکومتیں مغربی پریشر میں آ کر ان نیٹ ورکس کی مکمل تحقیقات سے دانستہ پہلو تہی کر رہی ہیں۔

پاکستان اس عالمی مہم کا خاص ہدف ہے کیونکہ یہاں توہین رسالت کی سزا موت ہے۔ پچھلے تین دہائیوں سے ایک منظم مہم جاری ہے جس میں توہین رسالت کے قانون کو “ظالمانہ قانون”، “غلط استعمال” اور “پسماندگی کی علامت” بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ حالانکہ سچائی یہ ہے کہ آج تک عدالت میں ایک بھی مقدمے میں توہین رسالت کا الزام جھوٹا ثابت نہیں ہوا۔ ہر کیس میں شہادتوں، عدالتی کارروائی اور تحقیقات کے بعد سزائیں سنائی گئی ہیں۔ تاہم مغربی دباؤ کے نتیجے میں ایک پر بھی عمل نہیں ہوا۔

پاکستان میں کچھ وکلاء نے رضاکارانہ طور پر توہین رسالت کرنے والوں کے خلاف عدالتی پیروی کا بیڑا اٹھایا تو ان کے خلاف بھی خطرناک پراپیگنڈا شروع کر دیا گیا۔ انہیں “بلاسفہمی بزنس گینگ” کے طعنے دیے جا رہے ہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان وکلاء نے اپنے ایمان، حبِ رسولؐ اور عدالتی عمل کے ذریعے ملک میں آئین اور قانون کا تحفظ کیا ہے، لیکن ان کے خلاف عالمی لبرل میڈیا اور این جی اوز کا مکمل پراپیگنڈا نیٹ ورک سرگرم ہے۔ واضح رہے کہ توہین رسالت کا معاملہ محض مذہبی حساسیت نہیں بلکہ امت مسلمہ کے خلاف ایک مکمل تہذیبی، نفسیاتی اور سیاسی جنگ ہے۔

"قرطبہ کے شہداء" سے سوشل میڈیا کے دور تک یہ جنگ ایک ہی نکتے کے گرد گھومتی ہے: مسلمانوں کی نبیﷺ سے بے پناہ جذباتی وابستگی پر اشتعال دلا کر عالمی سطح پر شدت پسند اور وحشی بنا کر پیش کیا جائے، اور اسلامی معاشروں اور حکومتوں کو دنیا کے سامنے بدنام کیا جائے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ مسلمانوں کو اس فتنہ کو سمجھیں، مغرب کے پروپیگنڈے کا شعور حاصل کریں اور متحد ہو کر اس مہم کا علمی، قانونی اور سماجی جواب دیں۔ اور حکومت پر زور ڈالا جائے کہ ان سوشل میڈیا گروہوں اور بیرونی فنڈڈ نیٹ ورکس کے خلاف ریاستی سطح پر کارروائی کریں تاکہ اسلامی اقدار اور معاشرتی امن کو ہر قیمت پر محفوظ رکھا جا سکے۔