ہوم << اللھم بارک لنا فی شامنا! - زید محسن

اللھم بارک لنا فی شامنا! - زید محسن

شام!
ایک شام وہ تھا جہاں معاویہ بن ابی سفیان جیسے عظیم لیڈر بستے تھے ، جہاں عمرو بن العاص جیسے عظیم دماغ چلتے تھے. جہاں سے بری وبحری جنگوں کی تدبیریں ہوتی تھیں ، جہاں سے مسلمانوں کی امیدیں وابستہ تھیں. جہاں سے غیر مسلموں کی روحیں کانپتی تھی۔

اس شام سے جب چین کی طرف قتیبہ بن مسلم کو بھیجا گیا تو منگولوں کے اجداد سر نگوں ہوتے چلے گئے. چپے چپے پر علَمِ اسلام بلند ہوا اور دعوتِ دین پھیلی ، یہاں تک قتیبہ بن مسلم منگولیا کو فتح کرتے ہوئے ، اتراک کو داخل باسلام کرتے ہوئے. چین کے سر پر جا کھڑے ہوئے ، چین کی سرحد کاشغر پر پڑاؤ ڈالا اور چین کو سالانہ جزیہ پر مجبور کیا۔۔۔۔اسی کاشغر کا ذکر اقبال نے ان الفاظ میں کیا کہ:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے
نیل کے ساحل سے لے تا بخاکِ کاشغر

یہ وہی شام ہے جہاں سے دوسرے قافلے کو موسی بن نصیر کی سرکردگی میں افریقہ کے بے آب و گیاہ صحراء میں بھیجا تو وہاں ایک عربستان بسا دیا۔ایک بڑا حصہ شمالی افریقہ میں ہونے کے با وجود آج تک مصر عربی ہے ، اس کی ثقافت ، اس کی زبان اور اس کی تہذیب و تمدن عمر بن خطاب سے لے کر شام والوں تک کی محنتوں کا نتیجہ ہے ، پھر آگے مراکش ، الجزائر اور بہت کچھ جو آج تک مسلم ریاستیں ہیں سب شام والوں کا حوالہ ہیں۔ اسی قافلے کو شام والوں نے یورپ کے تعاقب میں دوڑایا تو طارق بن زیاد ایک نئی تاریخ رقم کر گیا ، ایسا کارنامہ دکھایا کہ اگلی سات ، آٹھ صدیوں تک انگریز بھی ہسپانیہ اور اندلس کی گلیوں میں علم سیکھتے رہے ،.

بلکہ اندلس کا تو پوچھئے ہی نا ، اس کی تو شان و شوکت خود شامیوں نے اپنے ہاتھوں سے بڑھائی ہے ، وہ عبد الرحمن الداخل کا اندلس میں داخل ہونا اور پھر شام کے بچے کچھے خوابوں کو قرطبہ اور غرناطہ کی صورت پورا کرنا ، یہ سب بھی شامیوں کے کھاتے میں گیا. جس کے بارے اقبال فرماتے ہیں:

ہسپانیہ تُو خُونِ مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تُو میری نظر میں

پھر ایک قافلہ شامیوں نے ہمارے لئے بھی بھیجا ، وہ کم عمر جوان اور اس کے ساتھ چند سر فروش ، پتا نہیں کس جذبے سے سرشار دوڑے چلے آئے ہم نا قدروں کی طرف ، محمد بن قاسم اور اس کا قافلہ ، کیا عجب داستان ہے اس کی ، خیر وہ بھی آیا ، بولان کی پہاڑیوں کو سر کرتا ہوا ، سندھ کے ریگستان میں داخل ہوا اور پھر دیبل (اکثر مؤدخین کے نزدیک کراچی) کے سمندر کو چھوتا ہوا وہ ملتان پہنچ گیا ، اور پھر اگلی آٹھ صدیاں مسلمان تخت و تاج کے وارث ٹہرے۔۔۔۔یہ کارنامہ بھی شامیوں کے نام!

لیکن ہم تو ٹہرے مجوسیوں کے پڑوسی!
کسی نے کہا تھا کہ: "مجوسیوں کے ساتھ عمر بن خطاب نے غلط یہ کیا کہ ان تک دعوتِ اسلام کو پہنچا دیا"
اور جب ہم اپنے دانشوروں کو دیکھتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ہم بھی پڑوسیوں کی طرح احسان فراموش ہیں ، اور مؤزخ لکھے گا کہ: "شامیوں نے ان کے ساتھ ایک بڑی غلطی یہ کی تھی کہ ان تک اسلام پہنچا دیا"

نہ ہم نے جب کے شامیوں کو چھوڑا ، نہ ہمیں اب شام پر دشنام طرازی سے فرصت!
وہی شام جس سے امت کی امیدیں وابستہ تھیں ، آج پوری امت کی طرف سے عدم توجہی کا شکار ہو چکا ہے ، وہ تنِ تنہا کبھی اپنوں سے تو کبھی غیروں سے نبرد آزما ہوتا ہے۔وہ جس کے مجاہدین بولان کے پہاڑوں کو سر کر کے ہم تک پہنچے تھے ، آج وہ جولان میں ہنر آزما رہے ہیں۔ لیکن آج نہیں تو کل! شام کا اچھا وقت ضرور آئے گا ، کیونکہ ہم نے نبی کریم ﷺ کی یہ دعا کہ:
اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي شَأْمِنَا الہی ہمارے شام میں برکت فرما

یہ دعا کل بھی پوری ہوتے ہوئے دیکھی تھی ، جب شام کی برکتوں سے ساحلِ نیل تا خاکِ کاشغر اسلام کا جھنڈا لہراتا تھا اور اسلام کی سر بلندی تھی ، اور یقینا یہ دعا ایک بار پھر قبول ہوتے ہوئے دیکھیں گے کہ جب ہمارا شام ہشاش بشاش ہوگا اور برکتوں سے مالا مال ہوگا۔ ان شاء اللہ

Comments

Click here to post a comment