ہوم << دو جھنڈے دو کہانیاں - ارشد زمان

دو جھنڈے دو کہانیاں - ارشد زمان

ارشد زمان یوم آزادی اور یوم تجدید عہد پر دوست ملک ترکی کا پاکستان کو محبت اور اپنائیت کا پیغام غور و فکر کےگہرے پہلو رکھتا ہے. ایک مسلمان ملک جو خلافت کا مرکز اور ایک عرصہ تک شان وشوکت کے ساتھ سیادت کے منصب پہ فائز رہا مگر پھر نہ جانے مرعوب، بیمار اور غلام ذہنوں کو کیا سوجھی کہ نہ صرف خلافت کا عبایا پھینک ڈالا بلکہ اسلام کا طوق بھی گلے سے نکال کر تذلیل کا نشانہ بنایا اور نظریات، عقائد، اقدار اور روایات کو پاؤں تلے روند کر ’’ترقی‘‘ کے سراب کے پیچھے پیچھے بھاگ کر ذلیل، خوار اور تھک ہار کر مرد بیمار کہلانے لگا اور گرتے گرتے اس حقیقت کو پانے میں کامیاب رہا کہ ترقی و خوشحالی کا راز غلامی، مرعوبیت، عریانیت، اباحیت اور بے لگام ازادی میں نہیں بلکہ اپنے نظریات، عقائد اور اقدار پہ مضبوطی کے ساتھ جم کر خود مختاری اور خود انحصاری کے حصول میں پنہاں ہے۔ اس لیے سیکولر ازم اور لبرل ازم کے سحر سے نکل کر اسلامسٹ طیب اردگان کا ساتھ دے کر بلکہ جانیں تک نچھاور کرکے ترقی وخوشحالی کے راستے پہ اس نعرے کے ساتھ گامزن ر ہے، یا اللہ، بسم اللہ، اللہ اکبر، اور ان کے قائد طیب اردگان کا اعلان ہے کہ ہم اللہ اکبر کے نعرے لگاتے، اللہ کی آیات پڑھتے مسقبل کی طرف بڑھتے رہیں گے۔ اللہ تعالی کی تائید و نصرت اور عوام کے بھرپور تعاون، اعتماد اور محبت کے ساتھ وہ آگے بڑھ رہاہے۔
ایک دوسرا اسلامی ملک پاکستان جو باقاعدہ ایک نظریاتی ملک ہےاور بہت ہی واضح مقاصد اور ایجنڈے کے تحت حاصل کیا گیا کہ ’’ہم ایک ایسا تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ جہاں اسلام کے اصولوں کو آزمایا جاسکے۔‘‘ ایک ایسی ریاست کا قیام کہ جہاں مسلمان اپنے عقیدے، تہذیب و تمدن، ثقافت اور نظریے کے مطابق آزادانہ زندگی گزار سکے۔ لازوال قربانیوں کے بعد وہ مقصد حاصل رہا اور ایک علیحدہ ریاست میں آئی مگر قائد کی جیب میں پڑے کھوٹے سکوں نے اوّل روز سے مسلمانوں کے جذبوں، امیدوں، آرزوئوں اور تمناؤں کا خون کرکے اس ملک کے نظریے اور مقاصد کو دھندلا کرنے، مشکوک ٹھہرانے اور متنازعہ بنانے کی ٹھان لی جو بدستور تاحال جاری ہے۔ وطن عزیز کو سیکولر بنانے اور معاشرے کو لبرلائز کرنے میں اس طبقے نے کوئی کسر نہیں چھوڑی اور مسلسل قوم کے ذہنوں میں یہ میٹھا زہر بھرا جارہا ہے کہ ’’مذہب انسان کا انفرادی معاملہ ہے اور انسانوں کے اجتماعی معاملات سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔اقدار، روایات اور نظریات کی بندھنوں میں باندھ ہوکر آگے کیسے بڑا جاسکتا ہے؟ آزادی، خود مختاری، عزت و غیرت اور بہادری کے چکروں میں پڑ کر ترقی کے خواب دیکھنا حماقت ہے۔‘‘ جبکہ ترقی و خوشحالی کا راستہ ’’مغربی تہذیب پر عمل پیرائی، سیکولر اور لبرل اقدار کے اپنانے اور آزادی و خود مختاری کے ساتھ جینے یعنی عریانی، بےباکی، بےحیائی اور اباحیت پسندی میں ہے۔‘‘
موازنہ یہ ہے کہ ایک مسلمان ملک ترکی نے ترقی پانے کےلیے اسلام بیزاری اور مغرب نوازی کا ہر ہر حربہ استعمال کیا مگر راز یہ پالیا کہ سیکولرزم تو دراصل ایک سراب ہے اور حقیقت صرف اسلام ہے جبکہ دوسرا اسلامی و نظریاتی ملک پاکستان، سیکولرزم اور لبرلزم کا بت تراشنے میں مسلسل مصروف عمل ہے اور اب بھی سمجھ رہاہے کہ مغربی تہذیب کے گرجے میں سیکولرزم کے بت کے سامنے ماتھہ ٹیکنے میں ہی عافیت ہے. دنیا کی دستیاب تاریخ اور ترکی کا حالیہ تجربہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی قوم اپنے عقیدے، نظریے، فلسفے اور تہذیب و تمدن پر مکمل ایمان وایقان اور عمل پیرا ہوئے بغیر حقیقی اور دیرپا ترقی و خوشحالی نہیں پاسکتی۔ اسی طرح مرعوب، غلامانہ، پسماندہ، کرپٹ، بےمقصد اور بزدل ذہنیت کی حامل قیادت قوم کو تباہی، پسماندگی، بے توقیری، بے عزتی، ذلالت اور خواری کے سوا کچھ نہیں دے سکتی۔ مسلمان قوم کی عزت، وقار، شان اور بالادستی تو اسلام کے ساتھ مکمل وابستگی اور عمل پیرائی ہی میں پنہاں ہے۔ ’’وانتم الاعلون ان کنتم مومنین‘‘

Comments

Click here to post a comment