ہوم << دنیا کا پہلا آئین اور کورش اعظم، ذوالقرنین - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

دنیا کا پہلا آئین اور کورش اعظم، ذوالقرنین - ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

پانچ سو سال قبل مسیح میں سائرس اعظم نے فارس ( ایران ) میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کی بنیاد رکھی جو دارا اول کے دور میں اس وقت کی ساری معلوم اور آباد دنیا میں پھیل گئی ۔ اس سلطنت کو ہخامنشی سلطنت Achaemenid Empire کہتے ہیں.

ہخامنشی مملکت میں موجودہ ایران کے علاوہ مشرق میں موجودہ افغانستان، پاکستان کے چند حصے، شمال اور مغرب میں سارا اناطولیہ ، موجودہ ترکی، سارا سنٹرل ایشیا ، یورپ کا بیشتر حصہ بالائی جزیرہ نما بلقان(تھریس) یونان اٹلی اور بحیرہ اسود کا سارا ساحلی علاقہ شامل تھا۔ مشرق میں اس میں موجودہ عراق، شام ، شمالی سعودی عرب، فلسطین (اردن، اسرائیل اور لبنان) یمن اور قدیم مصر کے تمام اہم مراکز شامل تھے۔ افریقہ میں اس کی سرحدیں لیبیا ،تیونس اور سوڈان تک پھیلی ہوئیں تھیں. 7'5 ملین مربع کلومیٹر پر پھیلی ہخامنشی سلطنت تاریخ کی وسیع ترین سلطنت تھی اور آبادی کے لحاظ سے رومی سلطنت کے بعد دوسری سب سے بڑی سلطنت تھی۔

یہ سلطنت 550 قبل مسیح میں قائم ہوئی اور دو سو بیس سال تک قائم رہی ۔ تاریخ میں پہلی بار ایرانیوں نے مصر کو بھی فتح کیا جب سائرس اعظم کے بیٹے کمبوجیہ دوئم Cambyses II نے 326 قبل مسیح میں فرعون مصر پسامتیک سوئم Psamtik III کو شکست دے کر مصر پر قبضہ کیا ۔ یہ جنگ تاریخ میں بلیوں والی جنگ کہلاتی ہے ۔ 330 قبل مسیح میں ہخامنشی سلطنت سکندر اعظم کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔ سلطنت کا پہلا حکمران کورش اعظم یا سائرس اعظم تھا جبکہ دارا سوئم اس کا آخری حکمران تھا۔ ہخامنشی سلطنت کا دار الحکومت (پرسیپولس ) پاساگارد یعنی تخت جمشید تھا اور آتش پرستی ان کا ریاستی مذہب تھا۔

سائرس اعظم کے باپ کا نام کمبوجیہ اول Cambyses I تھا جو فارس قدیم ایران کی ریاست میڈیا Media کے شہر Anshan اینشان موجودہ تل ملیان کا حکمران تھا ۔ اس دور میں دنیا میں دو بڑی سلطنتیں تھیں ۔ میڈیا Media اور لیڈیا Lydia ۔ میڈیا فارس موجودہ ایران اور مشرق وسطیٰ کے علاقوں پر مشتمل ریاست تھی جس کاحکمران آستیادگ تھا جبکہ لیڈیا میں ترکی سنٹرل ایشیاء اور موجودہ یونان اٹلی کے علاقے شامل تھے ۔ اس کا حکمران الیاتس Alyattes تھا ۔ میڈیا کے حکمران آستیادگ کی بہن Amytis آمیتیس بابل کے شہنشاہ بخت نصر کی ملکہ تھی ۔ جس نے بابل کے معلق باغات Hanging Gardens of Babylon تعمیر کروائے تھے اور 587 قبل مسیح میں مملکت یہودہ Kingdom of Judah پر قبضہ کر کے یروشلم اور یہودیوں کے ہیکل سلیمانی کو تباہ و برباد کرنے کے بعد یہودیوں کو غلام بنا کر بابل لے آیا تھا ۔

جبکہ اس کی اپنی بیوی آرینیس Aryenis لیڈیا کے حکمران کرزوس Croesus کی بہن تھی ۔ہیروڈوٹس کے مطابق آستیادگ نے ایک خواب دیکھا کہ اس کی بیٹی ماندانا Mandane نے ایک بچے کو جنم دیا ہے جس نے اس کی سلطنت کو تباہ کر دیا ۔ جس پر خوف ذرہ ہو کر آستیادگ نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے ایک انتہائی وفادار سالار کمبوجیہ سے کر دی جو اپنی شرافت اور عقل مندی کی وجہ سے مشہور تھا اور اس کے خیال کے مطابق کمبوجیہ اور اس کی اولاد اس کی حکومت کے لئے کبھی کوئی خطرہ پیدانہیں کر سکتی تھی ۔ لیکن جب سائرس کی پیدائش ہوئی تو اس نے دوبارہ ویسا ہی خواب دیکھا جس پر اس نے اپنے ایک جرنیل ہارپاگ Harpagus کو انیشان بھیجا تاکہ وہ سائرس کو قتل کر دے ۔

لیکن ہارپاگ نے ایک ننھے بچے کو قتل کرنے کی بجائے اسے ایک چرواہے کے حوالے کر دیا جس کی بیوی نے ایک مردہ نوزائیدہ بچے کو جنم دیا تھا اور اس مردہ بچے کو لا کر آستیادگ کے حضور پیش کردیا ۔ جب سائرس بڑا ہوا تو یہ راز کھلا اور سائرس اپنے ماں باپ کے واپس پہنچ گیا ۔ جب یہ خبر آستیادگ تک پہنچی تو وہ ہارپاگ کی اس حکم عدولی اور دھوکہ دہی پر سخت ناراض ہوا اور اس نے غضب ناک ہوکر ہارپاگ کے لئے ایک انوکھی اور بڑی سفاکانہ سزا تجویز کی ۔ ہارپاگ کے بیٹے کو قتل کروایا اور سزا کے طور پر اس کا گوشت پکا کر ہارپاگ کو کِھلا دیا۔

ہارپاگ آستیادگ کی نوکری چھوڑ کر کمبوجیہ کے پاس پہنچ گیا آستیادگ نے سائرس کو قتل کروانے کی کوشش کی لیکن کمبوجیہ اول نے اپنے سسر آستیادگ کے خلاف بغاوت کر دی اور 559 قبل مسیح میں آستیادگ کے خلاف جنگ مرزفارس Battle of the Persian Border میں لڑتا ہوا ماراگیا ۔ نیکولاس دمشقی Nicolaus of Damascus نے اس جنگ کا حال بڑی تفصیل سے لکھا ہے کیونکہ یہ پہلی جنگ تھی جو فارس اور میڈیا کی سلطنتوں کے درمیان ہوئی اپنے باپ کی موت کے بعد سائرس نے اپنے نانا کے خلاف جنگ جاری رکھی اور جلد ہی وہ آستیاگ کی جگہ میڈیا کا حکمران بن گیا کتسیاس نے بیان کیا ہے.

سائرس نے فتح کے بعد اپنے نانا کی جان بخشی کر دی اور وہ مرتے دم تک اس کے دربار سے وابستہ رہا ۔ 547 قبل مسیح میں اس نے الیاتس کے بیٹے کرزوس Croesus کو شکست دے کر لیڈیا پر بھی قبضہ کر لیا اور اس طرح وہ پہلا حکمران بنا جو لیڈیا اور میڈیا دونوں بڑی ریاستوں کا بادشاہ تھا جس کے بعد اسے کورش ( دو سینگوں) والے کا خطاب ملا ۔ 539 قبل مسیح میں سائرس اعظم نے بابل کے آخری شہنشاہ نبو نعید Nabonidus کو شکست دے کر بابل شہر پر قبضہ کیا اور جدید سلطنت بابل Neo-Babylonian Empire ہمیشہ کے لئے ختم ہو کر اس ہخامنشی سلطنت کا حصہ بن گئی جس کا بانی سائرس اعظم تھا ۔ جو بعد میں دارا کے دور میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بن کر ابھری ۔

سائرس اعظم کو تاریخ میں بہت عزت اور احترام کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہےاور دنیا کے تمام مذاہب میں بھی اسے یہی عزت و تکریم حاصل ہے ۔ اسے شاه چهار گوشه جهان King of the Four Corners of the World دنیا کے چاروں کونوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے برطانوی تاریخ نگار چارلس فری مین نے اپنی کتاب The Closing of the Western Mind: The Rise of Faith and the Fall of Reason میں لکھا ہے کہ

In scope and extent his achievements [Cyrus] ranked far above that of the Macedonian king, Alexander, who was to demolish the [Achaemenid] empire in the 320s but fail to provide any stable alternative."

یہودی اسے اپنے نجات دہندہ کے حوالے سے یاد کرتے ہیں کیونکہ اس نے یہودیوں کو غلامی سے نجات دلوائی اور انہیں بابلیوں کے چنگل سے رہائی دلوا کر یہودیوں کو دوبارہ فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی ۔ اس نے یہودیوں کو ان کا ہیکل دوبارہ تعمیر کرنے کی بھی اجازت دی ۔ تورات سمیت یہودیوں کی تمام مذہبی کتابوں میں سائرس اعظم کو بہت اعلیٰ وارفع مقام حاصل ہے ۔ یہودی پیغمبر عزرا کی “ کتاب عزرا “Book of Ezra میں لکھا ہے کہ
All the kingdoms of the earth hath the LORD, the God of heaven, given me; and He hath charged me to build Him a house in Jerusalem, which is in Judah.

یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ یشوا ( خدا ) نے اسے خاص طور پر یہودیوں کی مدد کے لئے پیدا کیا تھا اور اسے مسیح سمجھتے ہیں ۔
قدیم یونانی اسے بزرگ سائرس Cyrus the Elder کہتے ہیں ۔ مسلمان اسے کورش “ذوالقرنین” کے نام سے جانتے ہیں ۔ ذوالقرنین کے معنی ہیں دو سینگوں والا ۔ مولانا موددی سمیت مسلم علماء کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ سائرس اعظم ہی ذوالقرنین تھا جس کے بارے میں یہودیوں نے رسول اکرم ﷺ سے سوال پوچھا تھا اور جس کا ذکر سورة الکہف میں آیا ہے ۔

اس سلسلے میں مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب “اصحاب کہف اور یاجوج ماجوج “ بہت دلچسپ ہے جس میں مولانا نے بڑے اور خوبصورت اور بہتیرین انداز میں تاریخی حوالوں سے ثابت کیاہے کہ کورش ( سائرس ) ہی ذوالقرنین تھا ۔ اور کچھ اسی طرح کے دلائل مولانا مودودی نے تفہیم القرآن میں دئیے ہیں ۔ مولانا آزاد کی کتاب آن لائن موجود ہے اور جو حضرات تفصیل سے اس کو پڑھناچاہتے ہیں ان کے لئے میں اس کتاب کا لنک اس مضمون کے آخر میں دیا ہے ۔
مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

" اگر ذوالقرنین کے مفہوم کا کوئی سراغ ملتا ہے تو وہ صرف حضرت دانیال کی کتاب “ کتاب دانیال “ سے ملتا ہے جس میں انہوں نے اپنے ایک خواب کا ذکر کیا ہے جسے “خواب دانیال “ کہتے ہیں ۔ یہودیوں کے بابل کی اسیری کے زمانے میں حضرت دانیال کا ظہور ہوا- جو اپنے علم و حکمت کی بنا پر شاہان بابل کے دربار میں مقرب ہو گئے تھے-یہودیوں کی اسیری کے تیسرے برس انھوں نے خواب دیکھا جو کتاب دانیال میں درج ہے ."

میں دیکھتا ہوں کہ ندی کے کنارے ایک مینڈھا کھڑا ہے- جس کے دو سینگ بہت لمبے اور اونچے ہیں-لیکن ایک سینگ دوسرے سینگ سے زیادہ بڑا اور لمبا تھااور بڑا سینگ دوسرے چھوٹے سینگ کے پیچھے تھا- اور میں نے دیکھا کہ مینڈھا پچھم اترا اوردکھن کی طرف سینگ مارتا ہے-یہاں تک کہ کوئی جانور اس کے سامنے کھڑا نہ رہ سکا-اور وہ بہت بڑا ہو گیا- یہ بات سوچ ہی رہا تھا کہ پچھم کی طرف سے ایک بکرا آکر تمام روئے زمین پر پھر گیا-اس بکرے کے آگے آنکھوں کے درمیان عجیب طرح کا ایک سینگ تھا-وہ دو سینگوں والے مینڈھے پر خوب بھڑکااسکے دونوں سینگ توڑ ڈالے اور اس مینڈھے میں ہمت نہ تھی کہ مقابلہ کرے۔

پھر اس کے بعد جبریل آئے اور انہوں نے بتایا کہ دو سینگوں والا مینڈھا فارس کی بادشاہت ہے اور ایک سینگ والا بکرا یونان کا پہلا بادشاہ ہے۔ چنانچہ یہ بادشاہ بعد میں سکندر مقدونی ٹھرا-جبکہ دو سینگ میڈیا (مدین) اور لیڈیا کی سلطنتیں تھیں-چنانچہ اس سے یہودیوں کے یہاں فارس کے بادشاہ کے لیے کورش( ذوالقرنین ) کا تصورپیدا ہو گیا تھا-یہ صرف یہودی تخیل نہ تھا بلکہ خود فارس کے بادشاہ کا مجوزہ اور پسندیدہ نام بھی کورش ۔ ذوالقرنین تھا. پہلے تو یہ صرف تصور ہی تھا لیکن ١٨٣٨ء میں پاسادگار کھنڈرات سے دریافت ہونے والے سائرس کے سنگی مجسمے نے یہ ثابت کر دیا کہ کورش ہی ذوالقرنین تھا۔

یہ مجسمہ جیساکہ تصویر میں واضح ہے کہ اس میں سائرس کا جسم اس طرح دکھایا گیا کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح کے پر نکلے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح کے دو سینگ ہیں ۔ اور اس مجسمے کے اوپر جو تختی نصب ہے اس میں اس کو کورش کے نام سے پکارا گیا ہے ۔ اس مجسمے میں اس کے پر اس کے ملکوتی فصائل و خواص کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔ کیونکہ ایرانیوں اور یہودیوں سمیت اس اس دور کی ساری معاصر قوموں میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ غیر معمولی نوعیت کا انسان ہے جبکہ اس کے سر کے سینگ فارس اور مادہ کی دو سلطنتوں کی طرف نشاندہی کرتاہے ۔

سائرس اعظم صرف عظیم فاتح ہی نہیں تھا بلکہ ایک بہترین منتظم انسان ، دوست بادشاہ اور شاندار حکمران بھی تھا ۔ اس نے پہلی بار اپنی ریاست کو صوبوں میں تقسیم کیا ان پر بہترین حکمران مقرر کئے ، امن وامان قائم کیا ۔ اور عام رعایا کی فلاح وبہبود کے لئے بہترین اقدام کئے اور پہلی بار عام انسان کو ان کے حق دئیے وہ دنیا کا وہ پہلا حکمران تھا جس نے اپنی ریاست کا آئین بنایا یہ آئین ایک بیلن نما مٹی کی تختی پر لکھا ہوا ہے اور اس بیلن کو بابل شہر کی فتح کے بعد سب سے بڑے مندر مردوخ کے مندر کے دروازے پر نصب کروایا ۔

اس آئین کو تاریخ میں Cyrus Cylinder منشورسائرس(اسطوانۂ کورش) کہتے ہیں ۔ یہ سیلینڈر بابل (عراق) کے کھنڈر میں 1879 میں ایک عراقی ماہر آثار قدیمہ هرمز رسام نے دریافت کیا تھا ۔ اور یہ اس وقت برطانوی عجائب خانہ British Museum کی ملکیت ہے۔ برٹش میوزیم کے سابق ڈائیریکٹر نیل میکگیگر Neil MacGregor نے لکھا ہے کہ "
that the cylinder was "the first attempt we know about running a society, a state with different nationalities and faiths – a new kind of statecraft"

1971ء میں جب شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے اپنی حکومت کو سائرس اعظم کی قدیم عظیم سلطنت کی باقیات کا سلسلہ قرار دیتے ہوئے اپنے اڑھائی ہزار سالہ جشن کا آغاز کیا تو اس نے سائرس سیلینڈر کو ایران کا قومی نشان قرار دیتے ہوئے اسے دنیا کا پہلا انسانی حقوق کا منشور "first charter of human rights" قرار دیا ۔ اور اس سائیلینڈر کو تہران میں پورے ایک سال کے لئے نمائش کے لئے رکھا گیا ۔ شہنشاہ رضا شاہ پہلوی کی جڑواں بہن اشرف المخلوق پہلوی نے اس کی ایک نقل اقوام متحدہ کے سکیریڑی جنرل یو تھینٹ U Thant کو پیش کرتے ہوئے کہا کہ :
" The heritage of Cyrus was the heritage of human understanding, tolerance, courage, compassion and, above all, human liberty"

سائرس اعظم انتیس سال تک 559 قبل مسیح سے 530 قبل مسیح تک حکمران رہا ۔ اس کا انتقال 4 دسمبر 530 قبل مسیح میں ہوا۔ کتزیاس Ctesias نے اپنی کتاب Persica پرسیکا میں لکھا ہے کہ 529 ق م میں سنٹرل ایشیاء کے ایک قبیلہ سک Scythians نے بغاوت کردی، وہ وہاں گیا اور ان کے خلاف جنگ کرتے ہوئے سائر اور آمو دریا کے سنگم پر ایک جنگ میں مارا گیا ۔ کچھ ایسی ہی کہانی ابوالتاریخ ہیروڈوٹس Herodotus نے اپنی کتاب "کتاب تواریخ" Histories میں زیادہ تفصیل سے لکھی ہے کہ کہ موجودہ قازقستان اور ازبکستان کے علاقے میں آباد قبائیل ماساگت Massagetae نے بغاوت کر دی ، سائرس اپنے مشیروں کے مشورے پر وہ بغاوت کچلنے کے لئے خود ایک بڑی فوج لے کر ان کے ملک پر حملہ آور ہوا ۔ سک قبیلے کی حکمران ایک بہت بہادر خاتون تومریس Tomyris تھی ۔

سائرس نے پہلے اسے شادی کی پیشکش کی جو تومریس نے ٹھکرا دی جس پر سائرس نے غضب ناک ہو کر دریائے آمو پر کشتیوں کا پل تعمیر کروانا شروع کر دیا ۔ تومریس نے اسے پیغام بھیجا کہ وہ اس کے علاقے میں مداخلت نہ کرے اور اپنے علاقے پر حکومت کرتارہے اور اسے اس کے ملک پر حکومت کرنے دے ۔ لیکن سائرس نے یہ تنبیہ ماننے سے انکار کر دیا ۔ ابتدائی جھڑپوں میں تومریس کا بیٹا اسپرگپش Spargapises سائرس کے ہاتھوں گرفتار ہوا ۔ اور اس نے اپنی اسیری کے دوران خودکشی کر لی ۔ جس پر تومریس نے برافروختہ ہو کر سائرس کو پیغام بھجوایا کہ :
"فوراً میری سر زمین چھوڑ دو ورنہ میں سورج کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ تمہاری کھوپڑی کو اتنا خون پلاؤں گی کہ وہ اس میں ڈوب جائے گی ۔ "

لیکن سائرس نے اس کو جواب دیا کہ جنگ ان کے درمیان فیصلہ کرے گی ۔ بیٹے کے قتل کا انتقام لینے کے لئے تومریس نے خود اپنی فوج کی قیادت کی۔ ایرانیوں کو عبرت ناک شکست ہوئی ۔ سائرس ہمیشہ جیتا تھا لیکن اس بار وہ اپنی زندگی کی پہلی جنگ کیا ہارا اس کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کی بازی بھی ہار گیا ۔ تومریس نے اسے زخمی حالت میں گرفتار کیا ۔ اور اس کا سر قلم کرکے ایک برتن میں ڈالا اسے سائرس کے خون سے بھرا اور تاریخی جملہ کہا "Drink your fill of blood!"

بعد میں اس کی لاش کو اس کے دارلحکومت پاسارگرد میں لا کر دفن کیا گیا ۔ پاسارگرد شہر کے کھنڈرات آج بھی ایران کے شہر شیراز سے نوے کلومیٹر دور مادر سلیمان قصبہ کے نواح میں واقع ہیں جہاں سائرس اعظم دنیا کے سب سے بڑے بادشاہ شاہ چہار گوشہِ جہان کا مقبرہ جائے عبرت ونگاہ ہے.