جو خود پر ہنس سکتا ہے، وہ زندہ رہ سکتا ہے۔ حیات کیا ہے؟ فقط چہرے پر رقصاں چند قہقہوں کا شمار! سیانے کہتے آئے ہیں کہ حس مزاح انسان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ اور دور موجود کی شاید سب سے زیادہ ضروری خوبی بھی۔ خود پر ہنسنے میں دہرا مزا ہے۔ خود کی ایگو کے منہ بسورنے کے علاوہ کسی طرف سے ردعمل کا خدشہ نہیں ہوتا۔ اپنی حرکات کے مشاہدہ سے تو یہ بات سچ محسوس ہونے لگی ہے کہ غالب کا حیوان ظریف کا طعنہ شاید ہم جیسی قوم کے لیے ہی تھا۔
لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہمارے مزاج، شادی شدگی اور شادی زدگی میں تو کیفیت اور بھی شاعرانہ، مزاج کے بدلائو کے غیرسنجیدہ معنی بھی لیے جاتے ہیں، چلیے چھوڑیے اس طبقے کے تو بہت مسائل ہیں، ہمارا موضوع تو انسان ہے، خالص انسان۔ اگر فتوے کا خوف درپیش نہ ہو تو اس دعوے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں کہ فرشتوں کی قوم کی بوریت کے علاج کے لیے قوم انسان وجود میں لائی گئی، ورنہ اس ساری قوم کو بدلنے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اس حیوان ظریف کی زندگی کا تو سرور ہی غلطیاں کرنے اور بعد میں ان پر ہنسنے میں ہے۔ بس فارمولا یہ ہے کہ زیادہ بونگیاں ماریے، ملا واعظ کہلوائیے، پھر شریف بن جائیے اور حاجی یا شیخ کا لقب پائیے اور با عزت طریقے سے مر جائیے اور دوسروں کو اپنے آپ پر ہنسے کا موقع فراہم کیجیے۔
انسان ایک مثالی مخلوق نہیں ہے۔ غلطیاں اور کوتاہیاں تو اس کے سرور کا حصہ ہیں۔ پرفیکٹ کا خبط چھوڑیے، روزانہ اپنی غلطیوں کا کوٹہ خو د ہی پورا کیجیے، اور خود پر بہت ہنستے رہیے، زندگی میں لطف رہے گا۔ ورنہ دکھوں کا ایفل ٹاور بنے رہنے سے بھی کوئی عاقبت نہیں سنورنی، اس سے پہلے کہ فرشتے آپ پر ہنسیں، خود پر ہنس لیجیے۔
تبصرہ لکھیے