ہر عہد میں کچھ شخصیات ایسی جنم لیتی ہیں جو اپنے علم، کردار اور اخلاص سے زمانے کے سینے پر انمٹ نقوش ثبت کرتی ہیں۔ ان کے وجود سے زمانہ منور ہوتا ہے اور ان کے جانے سے ایک ایسا خلا جنم لیتا ہے جو مدتوں پُر نہیں ہوتا۔ ایسی ہی ایک بلند کردار، روشن ضمیر اور عظمت شعار ہستی کا نام تھا، پروفیسر شاہدہ خانم۔
پروفیسر شاہدہ خانم اُن نادر روزگار خواتین میں شامل تھیں جنھوں نے زندگی کو صرف جینا نہیں بلکہ خلقِ خدا کی خدمت میں جینے کا ہنر سکھایا۔ ان کا وجود گویا ایک درویش صفت معلمہ کا مجسمہ تھا، علم، شفقت، تدبر، دیانت اور خلوص کی لازوال تجسیم۔ وہ فقط درس و تدریس کی روایتی حدود تک محدود نہ رہیں بلکہ انھوں نے زندگی کے ہر شعبے میں ایک خاموش انقلاب برپا کیا۔ ان کا دل علم کی روشنی سے منور تھا اور آنکھوں میں ایک ایسا خواب، جس میں ہر فردِ بشر باوقار، باعلم اور باعمل نظر آتا تھا۔
1990 کی دہائی سے لے کر 14 جولائی 2014 کو اپنے وصال تک، وہ ایک چراغ کی مانند روشن رہیں، جو تاریکیوں میں راہ نمائی فراہم کرتا ہے، جو سرد موسموں میں گرمی عطا کرتا ہے اور جو اپنی آخری سانس تک جلنے کو عبادت جانتا ہے۔ بطور پرنسپل گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ ویمن کالج، عارف والا میں ان کی خدمات کا دائرہ صرف ادارے تک محدود نہ تھا بلکہ وہ ایک تہذیبی حوالہ، ایک فکری راہ نما اور ایک قلبی سہارا تھیں۔
ان کی زیرِ قیادت کالج ایک تعلیمی ادارہ نہیں بلکہ ایک تربیت گاہِ روح و دل تھا جہاں طالبات فقط کتابیں نہیں پڑھتیں بلکہ جینے کا سلیقہ، عزتِ نفس کا شعور اور خدمتِ خلق کا جذبہ بھی سیکھتیں۔ اُن کے لبوں پر جو لفظ آتے، وہ علم کی خوش بو لیے ہوتے، اُن کے ہاتھوں سے جو عمل صادر ہوتا، وہ خلوص کی مہک بکھیرتا اور اُن کی نگاہوں سے جو روشنی پھوٹتی، وہ راستہ دکھانے والی مشعل ہوتی۔
شاہدہ خانم نہ صرف استاد تھیں بلکہ ایک شفیق راہ نما، ناصح دوست اور باوقار مشیر بھی تھیں۔ ان کے مشوروں میں فہم و فراست کی گہرائی، ان کے رویّے میں وقار کا بانکپن اور ان کی مسکراہٹ میں ایسی طمانیت ہوتی جو دکھتے دلوں کا مرہم بن جائے۔ وہ کسی ایک فرد کی نہیں، ایک پوری نسل کی معلمہ تھیں۔ جنھوں نے دلوں کو جیتا، اذہان کو روشن کیا اور کرداروں کو سنوارا۔
میرے لیے اُن کا وجود فقط ایک استاد کا نہ تھا بلکہ وہ میری روح کی ہم راز، دکھوں کا مرہم اور زندگی کی پیچیدہ راہوں میں ایک مینارِ نور تھیں۔ ان کے ساتھ گزرے لمحات یادوں کے نہاں خانے میں ایک خوش بو کی مانند بکھرے ہوئے ہیں۔ آج بھی اُن کی شفیق آواز، مہربان آنکھیں اور اُنس سے لبریز انداز ذہن کے پردے پر اُبھر آتے ہیں اور دل ایک مانوس سَحر میں ڈوب جاتا ہے۔
اُن کا وجود ایک ایسی روشنی تھا جس نے پسماندہ طبقات، خواتین اور بچوں کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم کے اجالوں سے روشناس کرایا۔ وہ صدقِ دل سے یقین رکھتی تھیں کہ تعلیم صرف کتابوں کی تحصیل نہیں بلکہ انسان سازی کا عمل ہے اور وہ اس فن کی کامل ماہر تھیں۔
پروفیسر شاہدہ خانم کے انتقال کو اب ایک دہائی بیت چکی ہے، مگر اُن کی یاد آج بھی دل کی دھڑکنوں میں گونجتی ہے۔ اُن کی شخصیت ایک خوش بو کی مانند ہے جو نہ نظر آتی ہے، نہ چھوئی جا سکتی ہے مگر ہر دم محسوس کی جا سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اُن کی مغفرت فرمائے، اُن کے درجات بلند کرے، اور انھیں جنت الفردوس میں انبیاء، صدیقین اور صالحین کے ساتھ مقام عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔
ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، اور نسلوں کو روشنی دے کر خاموشی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔
اور اُن کی روشنی پھر مدتوں زمین کے باسیوں کا دل منور کرتی رہتی ہے۔
تبصرہ لکھیے