600x314

قصہ حسین علیہ السلام کے سر مبارک کا (3) – ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

قسط نمبر۳
” یہ مضمون میری آنے والی کتاب “اہل وفا کی بستی “ میں شامل ہے ۔ جو فلسطین اور اسرائیل کے سفر کی یادداشتوں پر مشتمل ہے ۔”

آپ کا سر 906ء سے لے کر 1153ء تک تقریباً اڑھائی سو سال تک عسقلان میں دفن رہا ۔

کچھ ذکر خلافت فاطمیہ کا
اہل تشیع کے دو بڑے فرقے ہیں جن کی تفریق بنیادی طور پر اماموں کی بنیاد پر ہے ۔ اسی پچاسی فی صد شیع حضرات بارہ اماموں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ لہٰذا انہیں اثنا عشریہ ( بارہ اماموں والے یا Twelver ) کہا جاتا ہے ۔ اثنا عشریہ کے اماموں کا سلسلہ گیارہویں امام حضرت حسن عسکری کی شہادت پر آ کر رک جاتا ہے اور ان کا ایمان ہے کہ بارہویں امام حضرت مہدی ہوں گے اور دوسرے سارے مسلمانوں کی طرح وہ بھی حضرت مہدی کے آنے کے منتظر ہیں جنہیں المهدي المنتظر بھی کہا جاتا ہے ۔

جب کہ اہل تشیع کی ایک تھوڑی تعداد اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ اماموں کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ ابھی بھی جاری ہے جنہیں وہ حاضر امام کہتے ہیں ۔ اسماعیلی شیع کا تعلق اسی مکتبہ فکر سے ہے ۔ حضرت امام جعفر صادق چھٹے امام تھے یہاں تک تو تمام اہل تشیع کا اتفاق ہے لیکن ان کے بعد جو اہل تشیع ان کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل بن جعفر کو ساتواں امام اور ان کے بیٹے محمد بن اسماعیل کو آٹھواں امام تسلیم کرتے ہیں انہیں اسماعیلی شیع کہا جاتا ہے اور جو شیع حضرت جعفر صادق کے چھوٹے بیٹے حضرت موسیٰ کاظم کو ساتواں امام تسلیم کرتے ہیں انہیں اثنا عشریہ کہا جاتا ہے ۔
قرامطہ اور بوہری اسماعیلی شیع کی شاخیں ہیں ۔

حیدر نجم نے اپنی کتاب Shī’ī Islam: An Introduction میں لکھا ہے کہ حضرت محمد بن اسماعیل عباسیوں کے ڈر سے بھاگ کر ایران کے صوبہ خوزستان میں آکر چھپ گئے ۔ جہاں 795ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ پانچویں عباسی خلیفہ ہاروں الرشید کا دور تھا ۔ جس کے بعد اسماعیلی شیع تحریک منظر عام سے غائب ہو جاتی ہے ۔ لیکن اسماعیلی فرقے کے امام زیر زمین رہ کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتے ہے ۔ انہی سرگرمیوں کے نتیجے میں اسماعیلی فرقہ خوزستان ایران سے نکل کر یمن ، افریقہ ، بحرین اور ہندوستان کے علاقوں سندھ گجرات میں پھیلتاچلا گیا ۔

‎عبداللہ مہدی اکتیس جولائی 874ء کو ایران کے صوبہ خوزستان کے شہر عسکر مجرم میں پیدا ہوا جس کا موجودہ نام بندقیر ہے۔ یہ دور عباسی خلیفہ المعتمد علی اللّہ کا تھا ۔ جوان ہونے پر عباسیوں کی نظر عنائیت اس پر پڑی اور انہوں نے اسے مراکش جلا وطن کر دیا ۔ جہاں ایک مشہور اور جنگجو بربر قبیلے کتامہ نے اس کے ہاتھوں بیعت کرلی ۔ مراکش کے حکمران نے ان سرگرمیوں کو خطرناک جانتے ہوئے اسے سجلماسة میں قید کر دیا ۔ اس وقت مراکش میں الأغالبة Aghlabid Dynasty کی حکومت تھی جس کے حکمرانوں کا تعلق نجد کے قبیلے بنو تمیم سے تھا ۔ ان کا تعلق حنفی فرقے سے تھا ۔

ہینز حام Heinz Halm نے اپنی کتاب فاطمید Fatimid میں لکھا ہے کہ 18 مارچ 909 ء کو اسماعیلی تحریک کے داعی missionary ابو عبداللؔہ شیعی نےکتامہ قبیلے کی مدد سے الأغالبة سلطنت کے آخری حکمران زیادت اللّہ سوئم کو الئیربس کے مقام پر فیصلہ کن شکست دی ۔ زیادت اللّہ جان بچا کر اپنا خزانہ اور حرم اپنے دارلحکومت رقادہ کے محل میں ہی چھوڑ کر مصر کی جانب فرار ہوگیا . داعی ابو عبداللّہ شیعی نے رقادہ پر قبضہ کرنے کے بعد سجلماسة پہنچ کر اپنے مالک عبداللہ المہدی کو جیل سے نکالا اور اس کی خلافت کا اعلان کر دیا. مائیکل بریٹ نے اپنی کتاب میں یہ منظر کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔

On 26 August, outside the walls of Sijilmasa, the Imam emerged. He was riding a bay horse and wearing a turban whose cloth trailed over his neck and shoulders, an Egyptian linen shirt and sandals. … Just then, a voice rang out over the crowds of the Kutama tribesmen: ‘O faithful! This is my lord and yours, and the lord of all mankind!’ When the Kutama saw their chief, Abu Abd Allah al-Shi’i, dismount from his horse, they followed suit. Al-Shi’i rushed towards the Imam, falling to his knees to kiss the stirrup of the Imam’s horse, tears streaming down his face as he wept with joy. Then, he heard the first of Abd Allah al-Mahdi’s words, ‘Rejoice in the glad-tidings’.
— The reception of al-Mahdi by the Kutama army at Sijilmasa

اکثر غیر جانبدار تاریخ دان عبداللّہ المہدی کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کرتے کہ اس کا تعلق محمد بن اسماعیل سے تھا کیونکہ ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں لیکن اس کی اس قابلیت سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ وہ فاطمی خلافت کا بانی تھا
مشہور فرانسیسی مصنف اور تاریخ دان موریس کنارڈ Marius Canard نے لکھا ہے کہ
“ Whoever ʿUbayd Allah-Saʿīd may have been, he laid the foundations of the dynasty in North Africa”

فاطمی خلافت کا آغاز 909 ء میں تیونس کے شہر قیروان سے ہوا اور اس کا پہلا دارالحکومت تیونس کا شہر رقادہ تھا جو قیروان سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس کا بانی عبداللّہ مہدی تھا جو عبداللّہ المہدی باللّہ کے نام سے پہلا فاطمی خلیفہ بنا ۔ وہ اپنا تعلق حضرت فاطمہ رضی تعالیٰ اللّہ عنہا سے بتاتا تھا اس لئے اس کی قائم کردہ سلطنت کو تاریخ میں فاطمی سلطنت کہا گیا . عبداللّہ مہدی اسماعیلی شیعہ فرقہ کا گیارہ امام بھی تھا ۔

عبداللّہ المہدی کا انتقال 934ء میں ہوا لیکن اس وقت تک وہ تیونس مراکش اور لیبیا فتح کر کے ایک مضبوط سلطنت قائم کر چکا تھا جو آنے والی چند ہی دہائیوں میں عباسی خلافت کے لئے ایک بہت بڑاخطرہ بن گئی ۔ اس کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ابو قاسم القائم بأمر الله کے نام سے فاطمید سلطنت کا دوسرا خلیفہ اور اسماعیلوں کا بارہواں امام بنا اس کے سپہ سالار اور وزیراعظم جوزر نے آنے والی دہائیوں میں سسلی مصر اور شام فتح کر کے فاطمی خلافت کو اپنے عروج پر پہنچا دیا ۔ 943 ء میں تیسرے فاطمی خلیفہ اور تیرہویں اسماعیلی امام المنصور باللّہ نے قیروان کے قریب ایک نیا شہر بسایا جسے المنصورية کا نام دیا اور اپنا دالخلافہ المنصورية میں منتقل کر دیا ۔

جوزر مشرقی یورپ سے تعلق رکھنے والا ایک خواجہ سرا اور غلام تھا ۔ جو القائم کے بعد اس کے بیٹے المنصور باللّہ اور چوتھے خلیفہ المعز لدين الله کا بھی وزیراعظم اور سپہ سالار تھا اور فاطمی سلطنت کو عروج میں پہنچانے والا سب سے اہم کردار تھا۔ 969ء میں جوزر نے مصر فتح کیا تو قاہرہ فاطمی خلافت کا نیا دارالخلافہ بن گیا ۔۹۷۰ ء میں اس نے عراق شام فلسطین (Levant) کا سارا علاقہ بھی عباسیوں سے چھین لیا ۔ اور نجد و حجاز اور یمن پہلے ہی قرامطیوں کے قبضے میں تھا ۔ جس کے بعد فاطمی خلافت کی قدرومنزلت عباسی خلافت سے بڑھ گئی جو اب اپنے زوال کی پستیوں کو چھو رہی تھی۔

نیرنگئی سیاست دوراں تو دیکھئیے کہ چند دہاہیاں پہلے تک اہل بیت عباسیوں سے جان بچاتے پھرتے تھے اور ان پر زمین تنگ کر دی گئی تھی لیکن دسویں صدی کے اختتام تک وہی اہل بیت دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے مالک بن چکے تھے ۔ اور ستم ظریفی یہ کہ انہوں نے اپنی سلطنت کا ستر اسی فی صد حصۂ عباسیوں کو شکست دے کر حاصل کیا تھا ۔ عوام میں بھی انہیں اہل بیت ہونے کی وجہ سے بڑی پزیرائی ملی تھی ۔ گیارہویں صدی کا آغاز ہوا تو مسلم دنیا تین واضح اکائیوں میں بٹ چکی تھی ۔ تین خلافتیں خلافت عباسیہ فاطمی خلافت اور سپین کی اموی خلافت قائم ہو چکی تھیں اور تینوں آپس میں ہی برسر پیکار تھیں ۔ جس کی وجہ سے مرکزیت ختم ہو چکی تھی ۔ غیر مسلم علاقوں کی فتوحات کا سلسلہ تقریباً رک چکا تھا ۔

فاطمی خلفاء کی ایک بڑی خصوصیت اور انفرادیت یہ تھی کہ وہ بہت ہی کم باہر نکلتے تھے اور سال میں صرف ایک دو دفعہ ہی عوام کو دیدار کرواتے لیکن انہیں جانثار اور بہادر جرنیلوں کی مدد حاصل رہی جن کو داعی کہا جاتاتھا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے ترک اور افریقی غلاموں کی بھی ایک بڑی فوج بنا رکھی تھی اور وقت پڑنے پر کرائے کے سپاہی بھی حاصل کر لیتے اور انہی وجوہات کی بناء پر وہ جلد ہی اتنی بڑی سلطنت کھڑی کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی حکومت کے سارے امور وزیراعظم کے سپرد ہوتے تھے ۔

اور فوجی معاملات جرنیلوں کے ہاتھ میں ہوتے اکثر اوقات کوئی طاقتور جرنیل ہی وزیراعظم بھی ہوتا اور یوں خلیفہ کی زندگی مکمل طور اس کے رحم وکرم پر ہوتی اور وہ ان کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے رہتے ۔ جرنیلوں اور وزراعظم پر ضرورت سے زیادہ انحصار ہی بالآخر ان کے زوال کا سبب بھی بنا ۔ داعی ان کی خلافت قائم کرنےکے ذمہ دار تھے اور وہی اس کے زوال اور خاتمے کی وجہ بھی بنے ۔ فاطمی خلافت جتنی تیزی سے عروج کی انتہا کو پہنچی تھی اتنی ہی تیزی سے زوال کا شکارہوتی چلی گئی ۔ گیارہویں صدی کے وسط تک ان کی سلطنت کی کمزوریاں عیاں ہونے لگیں ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ المستنصرباللہ تھا ۔ جو اسلامی تاریخ کا سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والا حکمران ہے وہ دولت فاطمیہ کا آٹھواں خلیفہ اور اسمٰعلیوں کا اٹھارواں امام تھا۔

وہ تقریباً ساٹھ سال تک حکمران رہا ۔ وہ سات سال کی عمر میں جون 1036ء کو تخت پر بیٹھا تو دولت فاطمیہ دنیا کی بڑی اور مضبوط ترین سلطنت تھی شروع میں اس کے نام کا خطبہ عراق اور بغداد میں بھی پڑھا گیا لیکن جب جنوری 1094ء کو اس کا انتقال ہوا تو فاطمی خلافت اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی اس کی سب سے بڑی وجہ المستنصرباللہ کی آرام کوشی اس کا ضرورت سے زیادہ اپنے وزراء اور فوجی جرنیلوں پر انحصار تھا ۔ ناصر خسرو قبادیانی فارسی کا مشہور شاعر، فلسفی، اسماعیلی دانشور اور سیاح تھا ۔ اس کا شمار فارسی ادب کے بہترین شاعروں اور ادیبوں میں کیا جاتا ہے۔ اس نے اپنے سات سالہ سفر کے دوران میں بیسیوں شہروں کا دورہ کیا اور ان تمام شہروں کے مدارس، درسگاہوں، خانقاہوں، مساجد، علاقے، آبادی، سائنسدانوں، بادشاہوں، عوام اور دلچسپ واقعات بارے درج کیا۔

1000 سال گزرنے کے باوجود آج بھی اس کی تصنیف “ سفرنامہ“ کے نام سے موجود ہے فارسی زبان میں پڑھی جانے والی اچھی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اردو میں اس کا ترجمہ “ سفرنامہ خسرو ناصر “ کے نام سے ہوا ہے ۔ وہ مصر بھی گیا اور ڈیڑھ سال تک خلیفہ سے ملاقات کرنے کےلئے انتظار کرتا رہا ۔ اس نے فاطمی دربار کی شان و شوکت اور دولت و ثروت کے چشم دید واقعات کے ساتھ ساتھ فاطمی خلیفہ کی اس بے بسی اور کسمپرسی کا بھی ذکر کیا ہے ۔ جب خلیفہ کے پاس اپنی فوج کو تنخواہ دینے کے لئے بھی پیسے نہ تھے اور وہ اپنے محل کی قیمتی اشیاء فروخت کر کے اپنے فوجی سالاروں کے منہ بند کرتا رہا ۔

خسرو ناصر نے لکھا ہے “کہ ایک دفعہ ایک ترک سالار ناصر الدولہ کواور اس کے سپاہیوں کو تنخواہ نہ ملی تو اس نے قاہرہ کا محاصرہ کر لیا اور المستنصرباللہ اپنے محل میں کئی مہینے تک قید رہا اس کے پاس کھانے پینے کو بھی کچھ نہ بچا تھا۔ اس کی ساری شان و شوکت جاتی رہی اس کے پاس اتنی رقم نہ تھی کہ اپنی گزر اوقات ہی کر پاتا ۔ کھانے کو لالے پڑ گئے ۔ کسمپرسی کے اس عالم میں اس کے ایک امیر ابن بابشند کی لڑکی روزانہ اسے دو روٹیاں بھجواتی تھی۔ ناصر الدولہ نے جب اپنا ایلچی پیسہ وصول کرنے کے لئے بھجا تو اس نے مستنصر کو ایک چٹائی پر بے بسی کی حالت میں بیٹھا پایا اور محل میں تین نوکروں کے سوا کوئی اس کے اردگرد نہ تھا۔ ایلچی نے جا کر مستنصر کا حال بتایا ۔ تو ناصر الدو لہ نے اس کے لئے وظیفہ مقرر کر دیا اور مستنصر کو قید کر کے خود مصر کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی ۔

1071 ء میں ایک دوسرے ترک سالار اَتسِز بن اُوَق خوارزمی نے اجرت کے مسئلے پر ہی ناراض ہو کر فلسطین اور شام پر قبضہ کر لیا۔ اور اپنی حکومت قائم کر لی اور خلیفہ بے بسی کے عالم میں دیکھتا ہی رہ گیا ۔ 1065ء اور 1072ء کو مصر میں آنے والے قحط نے رہی سہی کسر پوری کردی اور بیشمار لوگ بھوک سے مر گئے ۔ جس نے خلافت فاطمیہ کی کسمپرسی میں اور اضافہ کر دیا ۔ 1073 ء میں خلیفہ نے بدرالجمالی کو اپنا وزیراعظم اور سپہ سالا مقرر کیا ۔ بدرالجمالی ایک آرمینئین Arminian Slave غلام تھا ۔ جسکی تعیناتی نے فاطمی سلطنت کی گرتی ہوئی دیواروں کو کچھ سہارا دیا ۔ بدرالجمالی کی آمد سے فاطمی خلافت کو اتنا سہارا ضرور مل گیاکہ وہ اگلے ستر سال قائم تو رہی لیکن

اس کی تعیناتی سے فاطمی خلافت میں ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے جسے “ فاطمی خلافت کا آرمینئین دور” کہتے ہیں ۔ یہ دور 1171 ء میں فاطمی خلافت کے کے اختتام تک قائم رہا ۔ جس میں فاطمی حکومت کے سارے اختیارات خلیفہ کے ہاتھ سے نکل کر آرمنئین نژاد فوجی سالاروں کے ہاتھ میں چلے گئے جن کی طاقت کا سرچشمہ خلیفہ کی ذات نہیں بلکہ فوج تھی ۔ خلیفہ ان فوجی سالاروں کے رحم وکرم پر کٹھ پتلی بنا محل تک محدود ہو کر رہ گیا ۔خلیفہ کا کردار صرف چند مذہبی رسومات کی ادائیگی تک محدود ہو کر رہ گیا تھا اور ان کی ادائیگی کے لئے بھی اسے بدرالجمالی کی پیشگی اجازت درکار ہوتی تھی ۔

بدر الجمالی کی طاقت اور اثر ورسوخ کا یہ عالم تھا کہ اس نے خلیفہ کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی اس کے بیٹے الافضل شہنشاہ سے کر دے اور یوں وہ شاہی خاندان اور اہل بیت کا رشتے دار بھی بن گیا ۔ بدرالجمالی کا انتقال جولائی 1194ء میں ہوا تو اقتدار کی باگ دوڑ اس کے بیٹے الافضل شہنشاہ کے ہاتھ میں آگئی ۔ اسی سال دسمبر میں المستنصر باللّہ بھی چل بسا ۔ الافضل شہنشاہ نے اس کے سب سے چھوٹے بیٹے پندرہ سالہ المستعلی بالله کو خلیفہ بنا دیا جو اس کا برادر نسبتی بھی تھا جس پر مستنصر کے سب سے بڑے بیٹے نزار نے اسکندریہ میں بغاوت کر دی لیکن افضل شہنشاہ نے اس کی بغاوت کو سختی سے کچل دیا ۔ نزار گرفتاری کے بعد قتل کر دیا گیا ۔

جس سے اسماعیلی فرقہ ہمیشہ کے لئے دو حصوں میں بٹ گیا عراق اور ایران کے اسماعیلیوں نے مستعلی کو امام ماننے سے انکار کر دیا اور اس لئے ان کو نزاری کہا جاتا ہے ۔ نزاری فرقہ کا بانی حسن بن صباح تھا ۔ جبکہ شام یمن اور مصر کے اسماعیلی جو مستعلی کو مانتے تھے مستعلیہ کہلائے لیکن چونکہ خلافت مستعلی کو ملی تھی لہذٰا نزار کے قتل کے بعد نزاری فرار ہو کر ایران آگئے اور وہاں حسن بن صباح نے ۱۰۹۰ء کو قزوین شہر کے قلعہ الموت پر قبضہ کر کے اپنی سلطنت قائم کرلی ۔ اس کی بنائی جنت بھی تاریخ میں بہت مشہور ہے اس کے ماننے والے فدائی حششین کہلاتے تھے ۔

حسن صبا کے ان فدائیوں میں دنیا میں قتل وغارت اور دہشتگری ایک ایسا باب رقم کیا جس کی پہلے ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی ہزاروں مسلمان علماء ، عمائدین سلطنت اور حکمران ان کی بربریت کا شکار ملے ۔ حسن بن صبا کی قائم کردہ جنت اور سلطنت تقریباً ڈیڑھ سو سال تک قائم رہی اور ۱۲۵۷ء میں ہلاکو خان کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی ۔ بوہرہ کا تعلق مستعلیہ سے ہے جبکہ آغا خانی نزاری فرقے کی باقیات ہیں ۔ یوں اسماعیلی فرقے کے دو حصوں میں بٹ جانے سے رہی سہی کسر بھی پوری ہوگئی اور فاطمی خلیفہ کی سیاسی اور مذہبی طاقت انتہائی کمزور ہو گئی ۔

1071ء میں دو واقعات ایسے ہوئے جنہوں نے اہل یورپ کو توجہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ کی طرف مبذول کروائی اور یہی دو واقعات صلیبی جنگوں کا پیش خیمہ سمجھے جاتے ہیں ان میں سے پہلاتو منزکرت کی جنگ میں الپ ارسلان کے ہاتھوں بزنطینی سلطنت کی عبرت ناک شکست اور بزنطینی شہنشاہ رامانوس چہارم قیصر روم کی گرفتاری جس نے اہل یورپ اور خاص طور پر قسطنطنیہ کے حکمرانوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی اور نئے قیصر روم الیکسیوس اول کومنینوس نے اس جنگ میں فتح کو بزنطینی اقتدار کے لئے شدید خطرہ سمجھا اور اسے اسلام اور عیسائیت کی جنگ بنانے کے لئے اپنا پورا زور لگادیا ۔ کیونکہ اس جنگ میں فتح سے اناطولیہ کے دروازے مسلمان ترکوں کے لئے جیسے کھل گئے تھے اور وہ دو تین دہائیوں میں تقریباً سارے اناطولیہ پر قابض ہو چکے تھے

دوسرا واقعہ اَتسِز بن اُوَق خوارزمی جیسے معمولی ترک سردار کی فلسطین پر چڑھائی یروشلم کی فتح اور اس کے ہاتھوں فاطمی خلافت کی بے بسی نے انکی سلطنت کی مضبوطی کی قلعی کھول دی تھی ۔ دوسری طرف عباسیوں کی حالت زار بھی کچھ بہت مختلف نہ تھی وہ بھی ایران کے اہل بویہ کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے تھے ۔ وہ جب چاہتے بغداد پر چڑ ھ دوڑتے اور اینٹ سے اینٹ بجا کر چلے جاتے ۔ درحقیقت عباسی خلیفہ کا کردار بھی بس مذہبی اور سیاسی اہمیت کا حامل رہ گیا تھا ورنہ فوجی طور پر وہ بھی سلجوقیوں کے مرہون منت تھے ۔

ان دونوں خلافتوں کی باہمی چپقلش داخلی اور محلاتی سازشوں اور فوجی کسمپرسی نے مسلمانوں کے اندرونی خلفشار اور کمزوری کو پوری دنیا پر عیاں کردیا تھا ۔ یورپ کے عیسائی حکمرانوں کو پہلی مرتبہ محسوس ہوا کہ فلسطین اور یروشلم پر قبضے کا اس سے بہتر اور کوئی دوسرا وقت نہیں ہو سکتا ۔ چنانچہ پوپ اربن دوئم نے صلیبی جنگ کا اعلان کردیا اور پورا یورپ فلسطین پر چڑھ دوڑا ۔ اور یوں گیارویں صدی کا اختتام صلیبی جنگوں کے آغاز سے ہوا ۔ جب 1096ء میں صلیبیوں نے پہلی صلیبی جنگ کا آغاز کیا تو اس وقت تک مضبوط سلجوقی سلطنت الپ ارسلان کے بیٹے ملک شاہ کی ناگہانی موت کے بعد ٹکڑوں میں بٹ کو انتہائی کمزور ہو چکی تھی ۔

اور اب پورے اناطولیہ اور مشرق وسطیٰ میں کوئی مضبوط مسلمان سلطنت ایسی نہ تھی جو صلیبیوں کی ارض مقدس کی طرف یلغار کے رستے میں رکاوٹ بن سکتی چنانچہ وہ قتل وغارت کرتے اناطولیہ اور شام فتح کرتے یروشلم کے دروازے پر آن پہنچے ۔ صلیبیوں نے پندرہ جولائی 1099 ء میں پہلی صلیبی جنگ کے دوران پانچ ہفتے کے محاصرے کے بعد یروشلم کے فاطمی گورنر افتخار الدولہ کو شکست دے کر یروشلم بھی فتح کرلیا اور گد فروا دو بویون Godfrey of de Bouillon یروشلم کا پہلا صلیبی حکمران بنا ۔ جس نے اس فتح میں سب سے زیادہ اہم کردار اداکیا تھا۔

پہلی صلیبی جنگ کا خاتمہ جنگ عسقلان Battle of Ascalon میں صلیبیوں کی فتح پر ہوا جو بارہ اگست 1099ء میں لڑی گئی جس کی قیادت فاطمی وزیراعظم الافضل شہنشاہ کر رہاتھا ۔ صلیبی عسقلان قلعے کے باہر لڑی جانے والی جنگ تو جیت گئے لیکن وہ عسقلان کا قلعہ توڑنے اور فتح کرنے میں ناکام رہے ۔ یہ قلعۂ اپنے محل وقوع اور انتہائی مضبوط دیواروں کی وجہ سے ناقابل شکست سمجھا جاتا تھا ۔ کئی مہینوں کے محاصرے کے بعد صلیبیوں کو یہ قلعہ فتح کرنے میں ناکامی ہوئی تو وہ مجبوراً قلعے کا محاصرہ چھوڑ کر یروشلم واپس لوٹ گئے ۔

اس دن سے ہی عسقلان کا مضبوط فوجی قلعہ صلیبیوں کی آنکھوں میں کھٹکتا تھا ۔ انہوں نے کئی بار اسے فتح کرنے کی کوشش کی لیکن فاطمی خلافت اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود پچاس سال تک اس کا کامیابی سے دفاع کرتی رہی ۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ عسقلان کے قلعے کا جغرافیائی محل وقوع اور اس کی انتہائی مضبوط دیواریں تھیں ۔ 1150 ء تک صلیبی پورے فلسطین پر قابض ہوچکے تھے اور عسقلان وہ واحد فوجی مستقر تھا جو اپنے مضبوط جغرافیائی محل وقوع کی بناء پر ان کی دسترس سے دور تھا. عسقلان صلیبیوں اور مصر کے درمیان مسلمانوں کا آخری دفاعی مرکز بھی تھا ۔

جنوری 1153 ء میں دوسری صلیبی جنگ میں پوری تیاری کے ساتھ صلیبیوں نے عسقلان کا محاصرہ کر لیا اور سات مہینے کے محاصرے کے بعد بالآخر 22اگست 1153ء کو عسقلان فتح کر لیا ۔ یہ وہ دور تھا جب شام پر نورالدین زنگی کی حکومت تھی لیکن وہ بھی عسقلان کی مدد کو نہ پہنچ سکا ۔ اور نہ خلافت عباسیہ نے مدد کی کوئی کوشش کی ۔عسقلان کے محصور مسلمانوں کو جب کہیں کسی طرف سے فوجی امدا نہ ملی تو انہوں نے جان اور مال کی امان پا کر ہتھیار ڈال دئیے اور قلعے کے دوازے صلیبیوں کے لئے کھول دئیے ۔ یروشلم کے حاکم بالڈون سوئم Baldwin III نے عسقلان کے تمام مسلمانوں کو عسقلان چھوڑنے کاحکم دے دیا ۔

عسقلان پر قبضے کے ساتھ ہی پورا فلسطین صلیبیوں کے قبضے میں آگیا ۔ مورُخ ابن العرزق الفریقی نے لکھا ہے کہ “عسقلان کی شکست سے پہلے ہی بیسویں فاطمی خلیفہ الضافر باللّہ نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا تھا اس نے عسقلان کے حاکم سیف الملاکا تمیم کو حکم دیا کہ کسی بھی قیمت پر حضرت حسینؓ کے سر کو مصر منتقل کر دیا جائے ۔ حضرت حسینؓ کے سر والا تابوت زمین سے کھود کر نکالا گیا اور اکتیس اگست 1153 ء کو عسقلان کے لٹے پٹے بے گھر مسلمانوں کے ایک بڑے قافلے کے ساتھ حضرت حسینؓ کاسر بھی قاہرہ روانہ ہوگیا ۔

حضرت حسین علیہ السلام کے سر کی دلچسپ اور دردناک کہانی صرف نواسہ رسول کی بے بسی کی داستان نہیں فلسطین کے مسلمانوں کے عروج وزوال کی داستان بھی ہے۔ اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑی ہیں کہ آپ چاہتے ہوئے بھی انہیں جدا نہیں کرسکتے ۔ فلسطین کے مسلمانوں اور حضرت حسین کے سر کے ساتھ کیا بیتی
اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیے.
(جاری ہے )