"چودھری صاحب نے سب کو ہدایت کی ہے کہ ووٹ صرف ان کے بیٹے کاہے."
رحمت اپنے بیٹے کو بتا کم ڈرا زیادہ رہا تھا تاکہ وہ بھولے سے بھی کوئی ایسا قدم نہ اٹھا لے کہ جو نقصان دہ ہوں. مگر بیٹا سمجھنے یا ڈرنے کے بجائے بحث کے موڈ میں تھا .فورا بولا،
" بابا ایک بات بتائیں، چودھری اور اس کا خاندان کب سے ہم پر حکومت کر رہا ہے."
رحمت بولا : "بیٹا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے جب انگریز تھے تب سے یہ ہمارے مائی باپ ہیں۔"
بیٹا بولا: "آپ کے ان مائی باپ نے کبھی ہمارے بنیادی انسانی حقوق دئیے ہیں؟ کبھی ہمیں آزاد شہری سمجھا ہے ؟ اب سچ پوچھو تو یہ انگریزوں سے بھی برے ہیں انگریز تو پھر بھی رعایا کو رعایا سمجھتا تھا مگر ان کالے انگریزوں نے ہمیں کبھی انسان بھی نہیں سمجھا .یہ ہم سے غلاموں سے بھی بدترین سلوک کرتے ہیں ، دوسرا اچھا مسلمان تو دور یہ بہتر انسان تک نہیں ہیں چھوٹا چودھری شرابی کبابی اور زانی ہے ۔ بابا سچ بتاؤ کیا انھوں نے ہم پر بدترین حکمرانی نہیں کی؟"
آج رحمت کا بیٹا پھٹ پڑا تھا ایک لاوہ تھا۔ جس کو وہ اپنے سینے سے نکال رہا تھا۔ مگر رحمت پوری طرح ڈر گیا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کس طرح وہ اس کو چپ کروائے، لگتا تھا اس کے اب برے دن آگئے ہیں۔ چودھری کسی طور ان کو معاف نہیں کرتا، مگر بیٹا تھا کہ نتائج سے لاپروا بہادری کا مظاہرہ کررہا تھا۔
رحمت یہ سب برداشت نہیں کرسکتا تھا اس لئے اس نے فوری تدبیر کے لیے پہلے تو بیٹا کو ڈانٹ ڈپٹ کی، پھر پیار سے سمجھایا پھر ڈرایا اور پھر اپنی قسم دے کر کچھ بھی الٹا سیدھا کرنے سے روکا۔
پھر شام کو رحمت "سیرت حسین" پر دیا گیا مولانا صاحب کا درس سن رہا تھا اور تمنا کر رہا تھا کہ اے کاش وہ بھی قافلہ حسین میں شامل ہوتا۔
تبصرہ لکھیے