اعتراف
میں کچھ نہیں…
کیونکہ میرے ہونے کا مطلب
میرے نہ ہونے میں پوشیدہ ہے۔
میں جتنا خود کو سمجھتی گئی،
اتنا ہی بھولتی گئی
کہ میرا وجود… محض ایک امانت ہے۔
تُو سب کچھ ہے…
کیونکہ تُو وہ ہے
جس کے ہونے سے میری حقیقت کو نام ملا
تُو وہ سکوت ہے جس میں کائنات گاتی ہے،
اور وہ آواز ہے جس سے خامشی بامعنی بنتی ہے۔
میں کچھ نہیں…
کیونکہ میری سوچیں میرے جسم کی قید میں ہیں،
میری تمنائیں وقت کی زنجیروں میں،
میرا ارادہ حالات کا محتاج،
میرا علم ایک قطرہ،
میرے سوال گم شدہ۔
تُو سب کچھ ہے…
کیونکہ تُو وہ علم ہے
جو بغیر الفاظ کے جانتا ہے،
وہ قدرت ہے
جو بغیر ہاتھوں کے تخلیق کرتی ہے،
وہ قرب ہے
جو بغیر فاصلوں کے چھو لیتا ہے۔
میں کچھ نہیں…
کیونکہ میں فنا کی طرف رواں ہوں،
چاہے میں مانوں یا نہ مانوں۔
میرے ہر دن کا اختتام
کسی نہ کسی چھوٹی موت پر ہوتا ہے
ایک خواہش کی موت،
ایک رشتے کی موت،
ایک یقین کی موت۔
تُو سب کچھ ہے…
کیونکہ تُو ہی بقا ہے،
اور ہر مرنے والی شے
تیرے آگے ہی سجدہ کرتی ہے۔
ہر فنا، تیرے بقا کی گواہی ہے۔
میں کچھ نہیں…
کیونکہ میری عبادت بھی تیری توفیق ہے،
میرا اخلاص بھی تیری عطا ہے،
میرا آنسو بھی تیرے قبضے میں ہے،
اور میری خاموشی…
بس تیری رضا کا انتظار ہے۔
تُو سب کچھ ہے…
کیونکہ تُو مجھے میرے بغیر بھی جانتا ہے۔
میں کچھ بھی کہوں یا نہ کہوں،
تُو میری "خامشی" سے بھی کلام کر لیتا ہے۔
میں کچھ نہیں…
یہ جاننا خود ایک نعمت ہے،
کیونکہ جو کچھ نہیں جانتا
وہی سب کچھ سیکھتا ہے،
اور جو کچھ ہو جائے —
وہ خود کو گم کر بیٹھتا ہے۔
تُو سب کچھ ہے…
کیونکہ تُو نے مجھے
میرے نہ ہونے میں
اپنا ہونے کا یقین دیا۔
یہی یقین… اصل زندگی ہے۔
میں فنا میں ہوں،
تُو بقا میں۔
میں کمی ہوں،
تُو کمال۔
میں سوال ہوں،
تُو خود جواب۔
اور جب میری ہستی تُو سے ٹکرا کر پاش پاش ہوئی
تب میں نے پہلی بار جانا:
"ربی میں کچھ نہیں… تُو سب کچھ ہے۔"
تبصرہ لکھیے