ہوم << تنہائی - حمیراعلیم

تنہائی - حمیراعلیم

سینئر ایکٹریس عائشہ خان کی موت ہمارے لیے کئی اسباق رکھتی ہے۔وہ ایک خودمختار اور ویل آف ورکنگ لیڈی تھیں۔ اپنے اپارٹمنٹ میں تنہا نہیں تھیں بلکہ دو ہیلپرز ان کے ساتھ رہتے تھے۔ان کے بیٹے بھی خاصے مخیر ہیں۔اگر وہ چاہتیں تو ان کے ساتھ رہ سکتی تھیں مگر یہ ان کی اپنی چوائس تھی کہ وہ اکیلے رہیں گی۔

وجہ خواہ ان کا اندیپینڈنٹ ہونا ہو، ان کا مزاج تنہائی پسند تھا یا بچے ساتھ رکھنا نہیں چاہتے تھے کچھ بھی ہو ۔ان کے قریبی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب انہوں نے اپنی جائیداد بچوں میں تقسیم کر دی تو انہوں نے عائشہ خان سے تعلق ختم کر لیا۔مغربی ممالک میں چونکہ اسلامی طریقے رائج ہیں،  جی آپ نے بالکل درست پڑھا، مغرب والے نام کے تو غیر مسلم ہیں لیکن رہن سہن میں کئی کام عین اسلام کے مطابق ہیں۔جیسے کہ بالغ ہوتے ہی بچوں کو کام پر لگا دینا 18 سال کی عمر میں الگ رہائش میں بھیج دینا۔اور اولڈ ایج ہومز۔

آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اولڈ ایج ہوم کیسے اسلام کے مطابق ہیں جب کہ اسلام والدین کی خدمت کو فرض قرار دیتا ہے۔تو جناب اگر بچے ان کی کفالت کے قابل نہ ہوں، ان کے لیے رہائش کا بندوبست نہ کر سکیں، بیٹیاں سسرال شوہر کی وجہ سے مجبور ہوں اور بیٹے بیرون ملک یا اپنے ملک میں ہی غم روزگار میں اتنے مصروف ہوں کہ ان کا خیال نہ رکھ سکیں تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ایسے ضعیف لوگوں کی دیکھ بھال کرے۔

مغربی ممالک میں جب تک ایسے ضعیف لوگ چلتے پھرتے رہیں،  خود کام کرنے کے قابل رہیں اپنے گھروں میں مقیم رہ سکتے ہیں۔بیمار ہوں تو حکومت انہیں جز وقتی نرس بھی مہیا کر دیتی ہے۔لیکن جب وہ چلنے پھرنے ، کام کرنے سے قاصر ہو جائیں تو خواہ ان کی مرضی ہو یا نہ ہوحکومت انہیں اولڈ ایج ہومز یا اشد بیماری کی صورت میں نرسنگ ہومز میں لے جاتی ہے۔جہاں نہ صرف فری آف کاسٹ ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے بلکہ ورثاء کی عدم دلچسپی یا عدم موجودگی کی بناء پر انتقال کے بعد تدفین کی ذمہ داری بھی ادا کی جاتی ہے۔
 
اگر ورثاء موجود ہوں تو وہ ویکلی،  منتھلی یا کرسمس،  برتھ ڈے وغیرہ پر سہولت کے مطابق ان سے ملاقات بھی کر لیتے ہیں اور اگر استطاعت رکھتے ہوں تو ان اداروں کو عطیات بھی دیتے رہتے ہیں۔ہمارے ہاں حکومت نے تو  ایسا کوئی سسٹم نہیں بنایا مگر این جی اوز یا مخیر حضرات نے اپنے والدین کے انتقال کے بعد ایسے اولڈ ایج اور نرسنگ ہومز بنا رکھے ہیں۔جہاں نہ صرف لاولد غریب بلکہ کئی مخیر حضرات ، سابقہ ڈاکٹر، انجینئر، بیرون ملک مقیم اچھے عہدوں پر فائز خواتین و حضرات بھی موجود ہیں۔کچھ اس لیے کہ تنہا نہیں رہنا چاہتے۔

کچھ کو بدبخت اولاد رکھنا نہیں چاہتی۔ کچھ عائشہ خان کی طرح اپنی زندگی میں جائیداد تقسیم کرنے کی سزا میں گھر سے نکالے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہم اکثر اولاد کی ایسی ویڈیو دیکھتے ہیں جن میں جائیداد نہ دینے پر والدین پر تشدد کر رہے ہوتے ہیں۔آج کل پیسے کی ہوس نے ہر احساس اور رشتے کی عزت ختم کر دی ہے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ اگر پیسہ یا جائیداد ہو تو وصیت ضرور لکھ کر رکھیں مگر کسی بھی صورت اپنی زندگی میں بچوں میں تقسیم نہیں کریں۔اور اگر غریب ہیں بچوں،  بہووں، داماد پر بوجھ ہیں تو بہتر ہے خود ہی ان اولڈ ایج ہومز کا رخ کر لیں۔

یہ نہ سوچیں کہ لوگ کیا کہیں گے بچوں کی اور اپنی تذلیل ہو گی۔لوگ دو چار روز باتیں کریں گے پھر بھول جائیں گے۔اپنی آسانی اور ذہنی سکون دیکھیں۔ عائشہ خان کی طرح خودمختار زندگی کے عادی ہیں تو ایک دو ایسی فیملیز کو بطور ہیلپر ساتھ رکھیں جو مستقل آپ کا خیال بھی رکھیں اورآپ ان کے روزگار کا سبب بھی بن جائیں۔اولاد اور رشتے داروں سے تعلق مضبوط بنائیے تاکہ وہ آپ کی خبر گیری کرتے رہیں۔کسی بیماری کی صورت میں تندرست ہونے تک ہاسپٹل میں ہی رہیے یا ایک مستقل نرس ہائر کر لیجئے۔

بچوں کو کسی بھی قسم کی کوئی بھی مجبوری ہو جس کی وجہ سے والدین کو ساتھ نہ رکھ سکیں تو کم از کم ان کی رہائش کا بندوبست گھر کے نزدیک ہی کر لیں۔تاکہ صبح و شام  ان سے ملاقات کر سکیں۔یا بوقت ایمرجنسی ان کے پاس پہنچ سکیں۔اور اگر دور ہوں تو دن میں دو بار فون ضرور کریں تاکہ ان کی خیریت سے آگاہ ہو سکیں۔بچوں کو بچپن سے یہ سکھایا جائے کہ والدین کی خدمت صرف مذہبی فریضہ نہیں بلکہ ان سے محبت کا عملی مظاہرہ بھی ہے۔ پرانی تصویریں، قصے اور ویڈیوز ان کے ساتھ بیٹھ کر دیکھیے تاکہ ان کے دل میں والدین کی قربانیوں کا احساس پیدا ہو۔اکثر اولاد یہ بھول جاتی ہے کہ والدین کو صرف مالی امداد نہیں بلکہ عزت، مشورہ، اور فیصلہ سازی میں شریک رکھنا بھی ضروری ہے۔

اس سے والدین کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ اب بھی خاندان کا اہم حصہ ہیں۔ہفتہ وار یا ماہانہ خاندان، دوستوں کی ملاقات کا نظام بنائیں، چاہے وہ گھر پر ہو یا زوم ، واٹس،ایپ وغیرہ جیسے آن لائن پلیٹ فارم پر۔ اس میں تمام نسلوں کی شرکت ضروری ہو تاکہ والدین کی سماجی تنہائی کم ہو اور نئی نسل ان سے جڑ سکے۔قریبی کمیونٹی سینٹرز، بزرگوں کے لیے کلب، یا مساجد میں ہونے والی سرگرمیوں میں شرکت ان کو خوش رکھ سکتی ہے۔ بچوں کا کام ہے کہ وہ والدین کو ان میں شامل کرنے میں مدد کریں۔

اکثر ہم صرف جسمانی بیماریوں پر توجہ دیتے ہیں، جبکہ بڑھاپے میں ذہنی تنہائی، ڈپریشن اور بے مقصدی کا احساس بہت عام ہے۔ نفسیاتی مدد، مشغلے، اور گفتگو والدین کو زندگی سے جوڑے رکھتے ہیں۔ اگر والدین نے قربانی دی، پڑھایا لکھایا، تو ان کی بڑھاپے میں خدمت اور انہی راحت دینا اصل شکر گزاری ہے۔بچوں کو بچپن سے یہ سکھایا جائے کہ دادی، نانی، دادا، نانا کے ساتھ وقت گزارنا ان کی زندگی کا حصہ ہے۔ جب یہ عادت بن جائے تو بڑے ہو کر انہیں بوجھ سمجھنے کے بجائے سرمایہ سمجھا جائے گا۔

اسلام میں والدین کے ساتھ بدسلوکی یا لاپرواہی سخت گناہ ہے۔ بچوں کو دینی تعلیم کے ذریعے یہ شعور دلانا کہ والدین کی دعائیں ہی ان کی دنیا و آخرت کو سنوار سکتی ہیں بہت مؤثر ہو سکتا ہے۔ اگر والدین خود کفیل بھی ہیں تب بھی والدین کا مالی تحفظ اور ان کی ضروریات پوری کرنا اولاد کی ذمہ داری ہے۔ والدین کو مجبور نہ کریں کہ وہ اپنی جائیداد اپنی زندگی میں ہی تقسیم کر دیں۔عائشہ خان جیسی خودمختار، باشعور اور مالی طور پر مستحکم خاتون کی تنہائی اور افسوسناک موت اس بات کا ثبوت ہے کہ صرف دولت، مقام یا سہولیات سے زندگی مکمل نہیں ہوتی۔

محبت، عزت، اور تعلق کی ضرورت ہر عمر میں باقی رہتی ہے۔ ہمیں یہ فیصلہ آج کرنا ہوگا کہ ہم اپنے والدین کے ساتھ کیسا سلوک کریں گے تاکہ کل ہماری اولاد ہمارے ساتھ ویسا ہی کرے۔کیونکہ یہ دنیا مکافات عمل کا مقام ہے۔

Comments

Avatar photo

حمیرا علیم

حمیراعلیم کالم نویس، بلاگر اور کہانی کار ہیں۔ معاشرتی، اخلاقی، اسلامی اور دیگر موضوعات پر لکھتی ہیں۔ گہرا مشاہدہ رکھتی ہیں، ان کی تحریر دردمندی اور انسان دوستی کا احساس لیے ہوئے ماحول اور گردوپیش کی بھرپور ترجمانی کرتی ہیں۔ ایک انٹرنیشنل دعوی تنظیم کے ساتھ بطور رضاکار وابستہ ہیں اور کئی لوگوں کے قبول اسلام کا شرف حاصل کر چکی ہیں۔ کہانیوں کا مجموعہ "حسین خواب محبت کا" زیرطبع ہے

Click here to post a comment