ہوم << پاکستان میں سیکولرازم کی تاریخ، اثرات اور ناکامی کی وجوہات. ڈاکٹر مولانامحمدجہان یعقوب

پاکستان میں سیکولرازم کی تاریخ، اثرات اور ناکامی کی وجوہات. ڈاکٹر مولانامحمدجہان یعقوب

پاکستان کا قیام کسی جغرافیائی یا لسانی وحدت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ ایک نظریاتی نصب العین کے تحت عمل میں آیا۔ برصغیر کے مسلمان دو قومی نظریہ کی بنیاد پر جدا وطن کا مطالبہ اس لیے کر رہے تھے کہ وہ چاہتے تھے ایک ایسا خطہ جہاں وہ آزادانہ طور پر دینِ اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں، اور ایک ایسی ریاست قائم ہو جہاں قانون، تعلیم، معیشت، سیاست، ثقافت سب کچھ اسلام کی روشنی میں ترتیب دیا جائے۔ قائداعظم محمد علی جناح نے متعدد مواقع پر واضح کیا کہ پاکستان کا آئندہ دستور قرآن و سنت پر مبنی ہوگا۔

پاکستان میں سیکولرازم کے ناپاک قدم :
تاہم قیام پاکستان کے بعد ہی سے ایک مخصوص طبقہ، جو مغربی تعلیم یافتہ اور استعماری فکر سے متاثر تھا، ملک کے اسلامی تشخص کو کمزور کرنے کے لیے متحرک ہو گیا۔ ان کا مقصد ریاست کو مذہب سے بے تعلق کرنا تھا۔ سیکولرازم کا یہ بیانیہ ترقی اور روشن خیالی کے خوبصورت عنوانات کے ساتھ پیش کیا گیا تاکہ اسے عوامی سطح پر قبولیت حاصل ہو۔نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں سیکولرازم کو جتنی بھی سرکاری سرپرستی ملی، وہ محض وقتی اور طبقاتی سطح پر محدود رہی۔ عوامی سطح پر اس کی کبھی بھی پذیرائی نہ ہو سکی۔ یہ ایک فکری ہتھیار ضرور ہے، مگر اسلام اس کے مقابلے میں ایک زندہ، مکمل اور ہمہ گیر نظام کے طور پر قائم و دائم ہے۔پاکستان میں تین حکمرانوں نے سیکولرازم کو نافذ کرنے کی کوشش کی ،جن کا مختصر ذکرکیاجاتاہے:
۱۔جنرل محمدایوب خان پاکستان کے پہلے فوجی آمر تھے جنہوں نے 1958 میں مارشل لا نافذ کرکے سیاسی جماعتوں اور آئینی عمل کو معطل کر دیا۔ ان کا نظریہ ترقی اور استحکام پر مبنی تھا، مگر اس ترقی کا ماڈل مکمل طور پر مغرب زدہ اور سیکولر نوعیت کا تھا۔ انہوں نے دین کو ریاستی نظم سے جدا کرنے کی کوشش کی، اور "اسلامی نظریہ" کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا۔ایوب دور میں درج ذیل سیکولر اقدامات کیے گئے:

۱۔اسلامی اصلاحات کے نام پر دینی تعلیمات کی تحریف
1961 کا عائلی قوانین آرڈیننس اسلامی فقہ سے متصادم تھا، جس میں طلاق، وراثت اور تعددِ ازدواج جیسے معاملات کو ریاستی قانون کے تابع کر دیا گیا۔
۲۔دینی طبقے کی کردارکشی:
علمائے کرام اور دینی جماعتوں کو رجعت پسند، دقیانوسی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا گیا۔ انھیں عوام کی نظروں میں غیر متعلق بنانے کی منظم کوشش کی گئی۔
۳۔مسجد اور مدرسے کو محدود کرنے کی پالیسی:
دینی مدارس پر سرکاری نگرانی بڑھائی گئی اور جدید تعلیمی اداروں میں اسلامیات کو کمزور کیا گیا۔
۴۔اسلامی نظریہ پاکستان کو کمزور کرنا:

1962 کے آئین میں قراردادِ مقاصد کو محض دیباچے میں شامل کیا گیا، اس کی آئینی حیثیت ختم کر دی گئی۔ یہ اقدام اسلامی ریاست کے نظریاتی تشخص کو دھندلانے کے لیے تھا۔غرضیکہ جنرل محمدایوب خان کے دور میں اس سوچ کو حکومتی سرپرستی ملی اور اسلام پسندی کو پسماندگی تصور کیا جانے لگا۔ایوب خان نے ترکی کے مصطفی کمال اتاترک کی طرز پر ایک مغرب زدہ ترقی پسند پاکستان کی بنیاد رکھنا چاہی، مگر عوام کی مزاحمت اور علماء کی تحریکوں کی وجہ سے وہ اپنی مکمل سیکولر ایجنڈا نافذ نہ کر سکے۔ ان کے خلاف چلنے والی 1969 کی تحریک میں دینی جماعتوں اور طلبہ نے مرکزی کردار ادا کیا۔
۲۔ذوالفقار علی بھٹو نے اسلامی سوشلزم کے نعرے کے ساتھ سیاست میں قدم رکھا۔ ان کا بیانیہ ظاہری طور پر اسلامی تھا، مگر عملاً انھوں نے ایک ایسا نظام تشکیل دیا جس میں اسلام کو صرف جذباتی سطح پر استعمال کیا گیا، جبکہ ریاستی نظام کو سیکولر خطوط پر استوار کیا گیا۔بھٹو دور میں سیکولرازم کے اثرات: کوہم یوں بیان کرسکتے ہیں:

۱۔نصاب تعلیم اور میڈیا کو سیکولرائز کرنا:
دینی مضامین کو محدود کر دیا گیا، میڈیا پر مغربی ثقافت کو فروغ دیا گیا، ٹی وی اور فلم انڈسٹری کو ریاستی سرپرستی دی گئی۔
۲۔اسلامی شعائر کو جذباتی نعروں میں محدود کرنا:
اسلام ہمارا دین ہےجیسے نعروں کو استعمال کیا گیا، مگر اسلام کو سیاسی، قانونی اور معاشی نظام کی شکل میں نافذ نہ کیا گیا۔
۳۔مخلوط تعلیم اور ثقافتی بے راہ روی:
اسکولوں، کالجوں میں مخلوط تعلیم کو فروغ دیا گیا، جامعات میں اسلامی لباس و تہذیب کو دقیانوسیت سے تعبیر کیا گیا۔

اسلامی اصلاحات میں تضاد:
اگرچہ 1973 کے آئین میں اسلام کو ریاست کا مذہب قرار دیا گیا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، مگر عملی پالیسیوں میں مغربی رجحان غالب رہا۔ ان اصلاحات میں عوامی دباؤ کا کردار زیادہ تھا، نہ کہ حکومت کی نیت۔غرضیکہ ذوالفقار علی بھٹو نے کچھ علامتی اسلامی اقدامات ضرور کیے، مگر عملی طور پر تعلیم، میڈیا اور قانون سازی میں سیکولر رجحان غالب رہا۔بھٹو کا سیکولر رویہ دراصل اسلامی سوشلسٹ تضاد کا عکس تھا۔ دینی طبقات نے ان کی نیت پر ہمیشہ سوال اٹھائے۔ بھٹو حکومت کا خاتمہ بھی ایک دینی بیداری کی فضا میں ہوا، جب ملک گیر احتجاج میں علماء و طلبہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔
۳۔جنرل پرویز مشرف پاکستان کے تاریخ میں وہ فوجی آمر تھے جنہوں نے سب سے زیادہ شدت کے ساتھ روشن خیال سیکولر ازم کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ انھوں نے اپنے دور میں اسلام اور دینی شعائر کو عالمی دباؤ اور مغرب کے تقاضوں کے تحت "انتہاپسندی" سے جوڑنے کی کوشش کی۔مشرف دور میں سیکولرازم کی واضح پالیسیوں کو ذیل میں بیان کیاجاتاہے:

۱۔روشن خیال اسلام کا نعرہ:
مشرف نے اسلامی فکر کو ماڈرنائزکرنے کی کوشش کی۔ دراصل یہ مذہب کو ذاتی عبادات تک محدود کرنے اور اجتماعی و سیاسی دائرہ کار سے باہر نکالنے کا منصوبہ تھا۔
۲۔مدارس کے خلاف عالمی بیانیہ:
9/11 کے بعد مشرف نے دینی مدارس کو شدت پسندی کی آماجگاہ قرار دے کر ان پر عالمی ایجنڈے کے تحت اصلاحات مسلط کرنے کی کوشش کی، جیسے کہ رجسٹریشن، نصاب میں تبدیلی، مالیاتی نگرانی۔
۳۔میڈیا کو فحاشی کے لیے آزاد کرنا:
نجی ٹی وی چینلز کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ بھارتی ڈرامے، مخلوط شوز، ماڈلنگ اور رقص و موسیقی عام ہو گئے۔آزادی اور جدت کے نام پر حیا سوز مواد کو ترقی کی علامت قرار دیا گیا۔
۴۔اسلامی شناخت پروار:
مشرف دور میں پردہ، داڑھی، مذہبی علامات کو مشکوک بنایا گیا۔ دینی افراد کو دہشتگردی سے جوڑ کر بدنام کیا گیا۔ یہاں تک کہ جہادجیسے مقدس تصور کو بھی دہشت گردی سے وابستہ کر دیا گیا۔
۵۔نصابِ تعلیم میں مذہبی مواد کی کمی:
نصابی کتب سے جہاد، اسلامی فتوحات، خلافت، اور اسلامی اقدار کے ابواب کو ختم کیا گیا یا نرم کر دیا گیا۔مگر مشرف کے ان اقدامات کو شدید عوامی ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔

غرضیکہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور میں سیکولرازم کو باقاعدہ روشن خیال اسلام کے لبادے میں پیش کیا گیا، جس کے تحت دینی اداروں کو انتہاپسندی سے جوڑا گیا، اور میڈیا پر فحاشی و بے حیائی کو ترقی اور آزادی کے نام پر عام کیا گیا،تاہم لال مسجد آپریشن، مولانا عبدالرشید غازی شہید کی شہادت، اور عدلیہ بحالی تحریک نے مشرف کے سیکولر پاکستان کے خواب کو خاک میں ملا دیا۔ علماء، وکلاء، طلبہ، اور عوامی تحریکوں کے نتیجے میں ان کا دور رسوا کن انجام کو پہنچا۔
سیکولرازم کے پاکستانی معاشرے پر اثرات:
سیکولرازم کے اثرات آج ہمارے معاشرے میں نمایاں ہیں۔ میڈیا پر دینی پروگراموں کی جگہ غیر اسلامی مواد کو فروغ دیا جاتا ہے۔ تعلیم کے میدان میں اسلامیات کو محض ایک اختیاری مضمون کی حیثیت دی گئی ہے، اور تاریخِ اسلام کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔ سیاست میں دین کی بات کرنے والوں کو تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں "مولوی سیاست" یا شدت پسند قرار دیا جاتا ہے۔ اسلامی دفعات آئین میں موجود تو ہیں، مگر اکثر غیر مؤثر یا معطل کر دی جاتی ہیں۔ عدلیہ سے لے کر انتظامیہ تک، ہر شعبے میں سیکولر نظریات کو نافذ کرنے کی خاموش کوششیں جاری رہیں۔

پاکستان میں سیکولرازم کی ناکامی کی وجوہات:
مگر ان تمام تر کوششوں کے باوجود سیکولرازم پاکستان میں جڑ نہیں پکڑ سکا۔ پاکستان میں سیکولرازم کے فروغ کی ہر کوشش — چاہے وہ ایوب خان کا مغربی ماڈل ہو، بھٹو کی سوشلسٹ چالاکی، یا مشرف کی جدید لادینیت آخر کار ناکامی سے دوچار ہوئی۔ وجہ یہ ہے کہ:
۱۔پاکستانی قوم کی تہذیبی و ایمانی جڑیں اسلام میں پیوست ہیں۔ اسلام یہاں صرف ایک مذہب نہیں بلکہ ثقافت، تاریخ، زبان، شناخت، قانون، اور عوامی شعور کا مرکزی محور ہے۔ جو نظام اس مرکز سے کٹ کر چلے گا، وہ کبھی مقبولیت اور استحکام حاصل نہیں کر سکتا۔
۲۔دوسری وجہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی غالب اکثریت آج بھی دینِ اسلام سے جذباتی و عملی وابستگی رکھتی ہے۔ رمضان، جمعہ، حج اور دیگر دینی ایام میں قوم کا دینی مزاج واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے۔

۳۔تیسری وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس، علماء، جماعتیں، خطباء اور فکری دانشوروں نے مسلسل اسلامی بیانیہ کو زندہ رکھا۔ سیکولرازم ایک درآمد شدہ نظریہ ہے، جو یہاں کی تہذیب، اقدار اور روح سے مطابقت نہیں رکھتا۔
۴۔چوتھی وجہ یہ ہےکہ یہ نظریہ داخلی طور پر بھی متضاد ہے۔ ایک طرف آزادی اور رواداری کی بات کرتا ہے، دوسری طرف اسلام کی عوامی اور اجتماعی حیثیت کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ عوام نے ان تضادات کو محسوس کیا اور اسے مسترد کر دیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ: اگر اہلِ علم، مفکرین، اساتذہ، میڈیا کارکنان اور نوجوان نسل علم و بصیرت کے ساتھ اس فکری حملے کا جواب دیں تو نہ صرف سیکولرازم کا چہرہ بے نقاب ہو سکتا ہے بلکہ اسلام کو دنیا کے سامنے ایک کامیاب ماڈل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہی وقت کی ضرورت اور مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔