ہوم << پہلی تنخواہ؛ زمانہ کتنا بدل گیا - خواجہ مظہر صدیقی

پہلی تنخواہ؛ زمانہ کتنا بدل گیا - خواجہ مظہر صدیقی

آج لاہور سے ملتان آتے ہوئے بس میں ایک بزرگ ہم سفر بنے۔ عمر کوئی ستر، بہتر سال ہوگی۔ بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا تو اُنہوں نے ایک دل چھو لینے والی کہانی سنائی۔

وہ کہنے لگے، 1971ء میں مجھے وفاقی محکمے میں ملازمت ملی۔ ماہانہ تنخواہ تین سو روپے تھی۔ مجھے جب پہلی تنخواہ ملی تو میں خوشی خوشی گھر گیا اور ساری رقم اماں کے ہاتھ پر رکھ دی۔ ماں نے پیار سے کہا، بیٹا یہ تنخواہ ابا کو دے آؤ۔ میں ابا کے پاس گیا، انہوں نے کہا: یہ تنخواہ تمہاری ماں کا حق ہے، اُسے ہی دو۔ میں پھر اماں کے پاس آیا، تو اُنہوں نے کہا، تم یوں کرو کہ آدھی تنخواہ خود رکھ لو اور آدھی میں لے لیتی ہوں۔ وہ کچھ دیر توقف کے بعد گویا ہوئے ، چونکہ میرے اپنے کوئی خاص اخراجات نہیں تھے، میں آدھی تنخواہ ہر ماہ بینک میں جمع کروا دیتا۔ دو سال بعد یہی پیسے والدین کو حج پر بھیجنے کے کام آئے۔ وہ بہت خوش ہوئے۔ حج سے واپسی پر میری شادی کر دی۔

شادی کے بعد جب تنخواہ ملی، تو اماں نے کہا: اب وہ حصہ اپنی بیوی کو دینا شروع کر دو۔ میں نے کہا کہ میں آپ کو ہی دیتا رہوں گا، لیکن اماں نے سختی سے منع کر دیا۔ یوں میں آدھی تنخواہ بیوی کو دینے لگا۔۔ کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ میری بیوی وہ پیسے میرے والدین اور بہن بھائیوں پر خرچ کر دیتی ہے۔ اس کے اس طرز عمل سے مجھے بہت خوشی ہوئی۔کئی سال بعد میرا بڑا بیٹا اپنی پہلی تنخواہ لے کر آیا۔ اُس نے بھی وہی کیا جو میں نے کیا تھا۔ ماں کو تنخواہ دی، اُس نے اُسے میرے پاس بھیجا۔ میں نے بھی وہی بات کی جو میرے باپ نے کہی تھی۔ خوش نصیب ہوں کہ میرے بیٹے اور بہو نے ہمیں اپنی جمع پونجی سے حج کروایا۔

یہ کہتے کہتے اُن کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ آ گئی، لیکن پھر لہجہ کچھ بدل گیا۔ وہ بولے کہ اب دیکھیں وقت بہت بدل گیا ہے۔ کچھ سال پہلے میرے پوتے کو جب پہلی تنخواہ ملی تو اُس نے سیدھا جا کر ایک قیمتی موبائل فون خرید لیا۔ اگلے مہینے بھی اپنی ضرورت کی چیزیں لاتا رہا۔ ماں باپ کو کچھ نہ دیا۔ اُس کا خیال ہے کہ یہ اُس کی محنت کی کمائی ہے، وہ جس طرح چاہے خرچ کرے۔ اس کے بعد وہ پھر خاموش ہو گئے۔

Comments

Avatar photo

خواجہ مظہر صدیقی

خواجہ مظہر صدیقی ارتقاء آرگنائزیشن پاکستان کے ڈائریکٹر ہیں۔ تعلق اولیاء کی نگری ملتان سے ہے۔ اٹھارہ سال روزنامہ نوائے وقت میں صدائے دل کے عنوان سے سماجی اور معاشرتی عنوانات پر کالم شائع ہوتے رہے ہیں۔ پانچ کتب کے مصنف ہیں۔ 1993 میں جنوبی پنجاب میں کہانی گھر کی بنیاد رکھی، اب تک 320 کہانی گھر قائم کیے ہیں۔ اس سلسلے میں بچوں میں کہانی کی ختم ہوتی قدیم ترین روایت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

Click here to post a comment