ایک دوست نے کہا کہ سکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہیں اور بچے موبائل اور کمپیوٹر پر کھیلوں میں مگن ہیں۔ جو والدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے ان چھٹیوں میں کچھ اچھا پڑھیں، ان کی سمجھ میں بھی نہیں آتا کہ بچوں کو پڑھنے کی طرف کیسے راغب کریں؟ اس ضمن میں ایک مسئلہ تو کتابوں کی پسند کا ہے۔ دوست کا مشورہ تھا کہ بچوں کےلیے اسلامی کتب کی کوئی فہرست مرتب کرنی چاہیے ۔ چنانچہ ایک ادھوری فہرست یہاں دی جارہی ہے۔ اہلِ علم اس میں اضافہ کرسکتے ہیں۔ یہ فہرست ذاتی پسند کے علاوہ ذاتی تجربے پر بھی مبنی ہے۔
بچوں کےلیے سب سے مفید رسالہ ’نونہال‘ ہے۔ میں خود بچپن میں اس کا رسیا تھا۔ اپنے بچوں کو بھی اس کی لت لگائی ہے۔ بنیادی اسلامی تعلیمات سے آگاہی کےلیے مفتی کفایت اللہ صاحب کا ’تعلیم الاسلام‘ مفید بھی ہے اور آسان بھی۔ بچہ ساتویں یا آٹھویں جماعت میں ہو، تو اسے مولانا یوسف اصلاحی صاحب کی کتاب ’آسان فقہ‘ ضرور پڑھوائیے اور سمجھائیے۔ آٹھویں جماعت میں اس کی ایک جلد اور نویں جماعت میں دوسری جلد پڑھ لے تو بہت مفید ہوگا اور بچہ بہت سی الجھنوں سے بچ جائے گا۔ ’آسان فقہ‘ کے علاوہ مولانا یوسف اصلاحی کی ’اسلامی آدابِ زندگی‘ بھی اس عمر میں پڑھوانے کی چیز ہے اور بہت مفید ہے۔
قرآن، حدیث ، سیرت النبی ﷺ اور سیرتِ خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم سے بچوں کی بنیادی واقفیت کےلیے ڈاکٹر عبد الرؤف صاحب کی آسان زبان اور شستہ اسلوب میں لکھی گئی کتب بہت زیادہ مفید ہیں ۔ یہ کتب فیروز سنز نے شائع کی ہیں۔ بچوں کےلیے مولانا ابو الحسن ندوی کی ’قصص النبیین‘بہت پراثر ہے۔ اس کے علاوہ اس موضوع پر دار السلام کی شائع کردہ کتب کا سلسلہ بھی بہت مفید ہے جو اشتیاق احمد صاحب نے لکھا تھا۔
بچے ذرا بڑی عمر کے ہوں، آٹھویں یا نویں جماعت میں، تو پھر مولانا عنایت اللہ سبحانی صاحب کی کتاب ’محمد عربی ﷺ‘ ضرور انھیں پڑھوایئے۔ بہت ہی جذب کے عالم میں لکھی گئی کتاب ہے اور اسی لیے بہت تاثیر رکھتی ہے۔ زبان بھی سادہ اور آسان ہے۔ ذرا مزید بڑی عمر کے ہوں، تو پھر تحقیقی کتابوں کی طرف متوجہ کیجیے اور اگر ممکن ہو تو اپنی نگرانی میں علامہ شبلی نعمانی و مولانا سید سلیمان ندوی کی ’سیرت النبی ﷺ‘ کی پہلی دو جلدوں کا مطالعہ کروائیے۔ بے شک مقدمہ نہ پڑھوائیں کہ وہ بہت بعد میں پڑھنے کی چیز ہے۔ مولانا سلیمان ندوی کے ’خطباتِ مدراس‘ بھی ضرور پڑھوائیے۔ قرآن مجید کا ’آسان ترجمہ‘ جو مولانا محمد تقی عثمانی صاحب نے مختصر حواشی کے ساتھ لکھا ہے ، وہ بھی آٹھویں جماعت کی عمر تک پہنچنے کے بعد بہ آسانی پڑھوایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح مولانا منظور نعمانی کی ’معارف الحدیث‘ بھی باقاعدہ سبقاً پڑھائی جاسکتی ہے۔ مصری دانشور محمد قطب کی کتاب کا اردو ترجمہ ’اسلام اور جدید ذہن کے شبہات‘ بھی اس عمر میں پڑھنے کی چیز ہے اور بہت مفید ہے۔ ’قرآن کا راستہ‘ کے عنوان سے خرم مراد صاحب کی کتاب سے بچوں میں قرآن کے مطالعے کا ذوق پیدا ہوتا ہے۔
انگریزی میں کم از کم دو کتابیں ایسی ہیں جو میٹرک یا ایف اے، ایف ایس سی کے بچوں کو ضرور پڑھوانی چاہئیں: ایک سیرت النبی ﷺ پر مارٹن لنگز (ابو بکر سراج الدین) کی کتاب: Muhammad (peace be upon him) His Life Based on Earliest Sources؛ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی دستیاب ہے، لیکن اصل انگریزی کا الگ ہی اثر ہے۔ یہ کتاب صرف ’علمی ذوق‘ کی تسکین کےلیے نہیں، بلکہ اسے پڑھ کر دل میں رسول اللہ ﷺ کی محبت راسخ ہوتی ہے اور اس کا اثر عمل پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ دوسری کتاب سید حسین نصر کی ہے: A Young Muslim’s Guide to the Modern World، یعنی ایک نوجوان مسلمان کےلیے جدید دنیا کا تعارف؛ اس کتاب سے نوجوان مسلمان کو صرف جدید دنیا کا تعارف ہی نہیں ملتا، بلکہ اپنی علمی روایت کا سراغ بھی ملتا ہے اور وہ اپنی روایت پر پورے اعتماد کے ساتھ جدید دنیا کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔
یہ بھی ذاتی تجربے پر مبنی بات ہے کہ بچوں کو آسمان، نظامِ شمسی، ستاروں اور سیاروں سے بہت دلچسپی ہوتی ہے اور ان کے متعلق کتابیں بھی شوق سے پڑھتے ہیں اور ڈاکومینٹریز بھی شوق سے دیکھتے ہیں۔ بچوں کو کہانیوں سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے، بالخصوص ان کہانیوں سے جن میں جانوروں کے کردار ہوتے ہیں۔ اس لیے ’کلیہ و دمنہ‘ ایک بہترین مجموعہ ہے۔ Aesop’s Fables بھی اس نوعیت کی ہے، لیکن کلیہ و دمنہ میں پیچھے ایک بڑی کہانی چل رہی ہوتی ہے، جس کے بیچ میں کہانیوں اور جوابی کہانیوں کا سلسلہ ہوتا ہے۔
نیز احساسِ کمتری کے شکار نام نہاد دانشور کتنا ہی مذاق اڑائیں، نسیم حجازی کے ناول اس عمر کے بچوں کو ضرور پڑھوائیں۔ البتہ اس کے ساتھ ساتھ ابن صفی کی جاسوسی دنیا اور عمران سیریز کا چسکا بھی ضرور بچوں کو لگنا چاہیے۔ جو بچے کتاب سے دور بھاگتے ہیں، انھیں ابن صفی کے ناول پڑھوائیے۔ دو، زیادہ سے زیادہ تین، ناول پڑھنے کے بعد پڑھنے کی ایسی عادت پڑ جائے گی کہ ساری عمر یہ عادت نہیں چھوٹے گی۔
ابن صفی کا جو پہلا ناول میں نے پڑھا وہ ’دہرا قتل‘ تھا جو ’نیا رخ‘ ڈائجسٹ کے آخری صفحات میں شائع ہوا تھا اور اس وقت میری عمر 11 سال سے کم تھی۔ دوسرا ناول ’پاگل خانے کا قیدی‘ پڑھا، تیسرا ’سازش کا جال‘۔۔۔ اور اس کے بعد وہ جادو یوں سر چڑھ کر بولنے لگا کہ آج بھی ابن صفی کا ناول ’طوفان کا اغوا‘میرے سرھانے پڑا ہے اور رات کو اس میں سے کچھ پڑھ کر ہی سوؤں گا۔ تین دہائیوں سے زیادہ عرصے کا یہ عشق آج بھی جوان ہے اور شاید ہی کوئی رات ایسی ہو جب میں ابن صفی کے کسی ناول سے کچھ حصہ پڑھے بغیر سویا ہوں۔ اگر کسی وجہ سے ابن صفی کا ناول دستیاب نہ ہو، تو کسی اور کتاب کا کچھ حصہ ضرور پڑھتا ہوں اور پڑھے بغیر نیند ہی نہیں آتی۔
کتابوں کی فہرست میں مزید اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے، لیکن سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا آپ خود کتابیں پڑھتے ہیں؟ اگر اس سوال کا جواب نفی میں ہے، تو پھر اپنے بچوں سے ہرگز یہ توقع نہ رکھیں کہ وہ کتابیں پڑھیں گے کیونکہ بچے آپ کے حکم کی تعمیل تو شاید نہ کریں، لیکن آپ کے طرزِ عمل کی پیروی ضرور کرتے ہیں (خواہ لاشعوری طور پر ہی کریں)۔ جس دوست کے کہنے پر یہ تفصیل لکھی، ان کو بتایا تھا کہ بچے آپ کی اطاعت کریں یا نہ کریں، اتباع ضرور کرتے ہیں۔ اس لیے یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کتابوں کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن اصل اہمیت خود آپ کی ہے کہ آپ بچے کو کتنی توجہ دیتے ہیں، اس کی تعلیم اور اس سے زیادہ اس کی تربیت کے متعلق کتنے فکرمند ہیں، اس کی الجھنوں کے حل اور سوالات کے جوابات کےلیے کتنی کوشش کرتے ہیں اور خود کتابیں پڑھنے سے دلچسپی رکھتے ہیں یا سارا دن سکرین کے سامنے گزارتے ہیں لیکن چاہتے یہ ہیں کہ بچے سکرین کے بجائے کتاب پر وقت صرف کریںِ؟
تبصرہ لکھیے