تاریخ بعض لمحوں کو ہمیشہ کے لیے اپنے اوراق میں محفوظ کر لیتی ہے۔ یہ صرف واقعات نہیں ہوتے، یہ قوموں کی روح، وقار اور غیرت کا عکس بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک لمحہ تب وقوع پذیر ہوا جب ایرانی سرکاری ٹی وی صدا و سیما کے ہیڈکوارٹر پر حملہ ہوا۔
گولیوں کی تڑتڑاہٹ، خوف کی پرچھائیاں، اور عمارتوں کے جھکتے ہوئے در و دیوار مگر اسی ہنگامے میں ایک آواز گونجی، ایک خاتون اینکر کی باوقار، پُراعتماد اور جرات سے لبریز صدا۔جب ہر طرف افراتفری کا عالم تھا، وہ اپنے اسٹوڈیو میں ڈٹی کھڑی تھیں۔ نہ لرزش، نہ خوف۔ ان کا لہجہ محض ایک صحافی کی ترجمانی نہ کر رہا تھا، بلکہ وہ ایک پوری قوم کا وقار بن چکی تھیں۔ آج وہ اینکر صرف میڈیا پرسن نہیں، ایک علامت بن چکی ہیں۔ جرات، فرض شناسی، اور حوصلے کی علامت۔تاریخ میں ایسے لمحات کم آتے ہیں جب ایک فرد کی استقامت پورے قومی مزاج کی نمائندگی کرے۔ جیسے دوسری جنگِ عظیم کے دوران وینسٹن چرچل کی تقاریر نے برطانوی قوم کا حوصلہ بلند رکھا، یا نور انایت خان نے نازیوں کے خلاف خفیہ خدمات انجام دے کر برصغیر کی بیٹی کا لوہا منوایا۔ ویسے ہی صدا و سیما کی یہ اینکر ایران کی بیٹی بن کر ابھری ہیں۔
یہ محض ایک نشریاتی لمحہ نہیں تھا، یہ مزاحمت کی ایک روشن قندیل تھا۔ ایران نے، ماضی کی طرح، حال میں بھی ظالم کے سامنے جھکنے سے انکار کیا۔ جنگ کبھی حل نہیں ہوتی یہ تباہی لاتی ہے، بربادی چھوڑتی ہے۔ مگر جنگ اگر غلامی اور غیرت کے بیچ ہو، تو مزاحمت ہی قوموں کی زندگی کی علامت بن جاتی ہے۔
آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسرائیل، جو خود کو ناقابلِ تسخیر سمجھتا تھا، ایران کی میزائل قوت کے سامنے ہچکولے کھا رہا ہے۔ تل ابیب میں ایران کے میزائلوں نے آئرن ڈوم کو چیر کر دنیا کو پیغام دیا کہ مزاحمت کی ٹیکنالوجی اب مشرق کے پاس ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ نے اپنی قوم کوبہت اہم پیغام دیا ہے ایران اب پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ کو امریکہ نشانہ بنانے کی بات کرتا ہے جبکہ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ کا کہنا ہے ا گر میں مرگیا تو رونا نہیں خوش ہونا کیونکہ ہم لڑ کر مررہے ہیں میری فوج اور میری عوام بھی لڑ کر مررہی ہے ہمیں یہودیوں اور امریکیوں کے سامنے نہ جھکنا ہے نہ ہی امریکہ سے مدد مانگنی ہے۔ کیونکہ میں آخرت میں اس حالت میں جواب دے سکوں کہ میں اسلام کے لیے لڑا تھا کسی طاقت کے سامنے جھکا نہیں تھا۔ ہم حسینی ہیں اور حسنیی لڑکر مرتے ہیں جھکتے نہیں ہیں۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اور امیر قطر کی جانب سے ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان سے اظہارِ یکجہتی ایک اہم سفارتی لمحہ ہے۔ یہ وہی خلیج ہے جہاں کبھی ایران تنہا کھڑا نظر آتا تھا۔ روس اور چین اس منظرنامے کو احتیاط سے دیکھ رہے ہیں۔ چین کا موقف سوشل میڈیا پر زیرگردش ہے۔یہ سرکاری موقف ہے یا سوشل میڈیا کا کمال لیکن حقیقت کے قریب ترین ہے۔
''دنیا امریکہ کے بغیر بھی آگے بڑھ سکتی ہے۔''
یہ بیان فقط سفارتی زبان نہیں، عالمی طاقت کے نئے توازن کی گواہی ہے۔ وہ امریکہ جس نے عراق، شام، افغانستان میں آگ لگائی، اب خود اپنے ہی دام میں گرفتار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ جنگی معیشت، اخلاقی دیوالیہ پن اور اندرونی خلفشار نے امریکہ کو زوال کی طرف دھکیل دیا ہے۔
آج ایران، چین، روس، سعودی عرب، اور پاکستان ایک غیر اعلانیہ مزاحمتی بلاک کی صورت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے لیے ایران کا استحکام جغرافیائی، مذہبی اور سفارتی سطح پر اہم ہے۔ بھارت، جو علاقائی تھانیدار بننے کا خواہش مند ہے، اپنے ہی پھیلائے گئے دہشتگردی کے جال میں عالمی سطح پر رسوا ہو چکا ہے۔
روس کا انتباہ سامنے آیا کہ اسرائیل کے لیے امریکی فوجی مدد مشرق وسطیٰ کو غیر مستحکم کر سکتی ہے۔روس کے نائب وزیر خارجہ سیرگئی ریابکوف نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ نے اسرائیل کو براہ راست فوجی مدد فراہم کی، تو اس سے مشرق وسطیٰ میں صورت حال مکمل طور پر غیر مستحکم ہو سکتی ہے۔دوسری طرف روسی خفیہ ایجنسی ایس وی آر کے سربراہ سیرگئی ناریشکن نے خبردار کیا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی اب خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔روسی خبر رساں ادارے انٹرفیکس کے مطابق ریابکوف نے کہا، ”امریکا کا ایسا کوئی قدم، یا اس نوعیت کے کسی بھی قیاس آرائی پر مبنی آپشن پر غور، پورے خطے کی صورت حال کو سنگین طور پر غیر مستحکم کر دے گا۔“روسی صدر ولادیمیر پوٹن دونوں فریقون سے جنگ بندی کی اپیل کر چکے ہیں۔ روس نے رواں سال جنوری میں ایران کے ساتھ اسٹریٹیجک شراکت داری کا ایک اہم معاہدہ کیا تھا۔
شمالی کوریا کا کہنا ہے ایران اس جنگ میں تنہا نہیں ہے، ہم اسے ہر طرح کی حمایت اور مدد فراہم کر رہے ہیں۔اسرائیل مشرق وسطیٰ میں صرف ایک امریکی اڈہ ہے، کوئی حقیقی ریاست نہیں، اور اس کی تمام چالیں واشنگٹن کے احکامات پر عمل کرتی ہیں۔
امریکہ ایک مجرم ریاست ہے، جو جرم کی ثقافت کو فروغ دیتی ہے، اس کے پاس سب سے بڑا جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے، اور وہ پہلا ملک ہے جس نے ایٹمی ہتھیار استعمال کیے۔اگر کسی بھی ملک نے اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ کیا تو یہ ہمارے خلاف جنگ کے اعلان کے مترادف ہوگا، اور ہم جنگ میں داخل ہوں گے اور اسرائیل پر اپنی مکمل طاقت سے حملہ کریں گے۔آج اگر امریکہ دنیا کے ساتھ چلنے پر تیار نہیں تو دنیا بھی امریکہ کے ساتھ کھڑی نہیں۔امریکہ اسرائیل کو بچاتا ہے توخود مشکلات کاشکار ہوگا۔ عالمی امن قائم نہیں ہوسکتا۔تباہی اور بربادی امریکہ اور اسکے ساتھی ممالک کے لیے قرین قیاس نہیں۔ بابا وانگا جیسی ماہر نجوم کی پیش گوئیاں جو محض تفریح کا ذریعہ سمجھی جاتی تھیں، اب سنجیدہ تجزیہ نگار بھی ان پر کان دھرنے لگے ہیں۔ ان کی 2025 کے لیے پیشگوئی یورپ کا زوال اور مشرق کا ابھار اب سیاسی مباحثوں کا حصہ بن رہی ہے۔
ایران آج بھی پابندیوں کی زد میں ہے، معاشی دباؤ کا شکار ہے، مگر جو چیز اسے ایک عظیم قوم بناتی ہے وہ ہے عزتِ نفس اور مزاحمت کا مزاج۔ جو قومیں اپنی خودی کو قربان کر دیتی ہیں، وہ زندہ لاشیں بن جاتی ہیں۔ ایران کے عوام اور قیادت نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ قرض میں ڈوبی ہوئی امن کی زندگی پر غیرت سے لبریز قربانی کو ترجیح دیں گے۔اور آخر میں سلام!
سلام اس باوقار اینکر کو
سلام ایرانی قوم کے ہر فرد کو
سلام اُن ماوں کو جنہوں نے شہداء کو جنم دیا
سلام اُن صداؤں کو جو گولیوں کے شور میں بھی دبنے نہ پائیں
سلام اُس ملت کو جو صدیوں بعد بھی ظلم کے خلاف سینہ تان کر کھڑی ہے
یہ وقت ہے جب دنیا ظلم و جبر کے مقابل حوصلہ و عزیمت کے اس باب کو تاریخ کے ماتھے پر رقم ہوتے دیکھ رہی ہے۔ اور یقین رکھیے، یہ آوازیں کبھی خاموش نہیں ہوتیں، یہ نسلوں کو بیدار کرتی ہیں۔
تبصرہ لکھیے