ہوم << علوم کا مبدا: سائنسی اور اسلامی تناظر میں - مجیب الحق حقی

علوم کا مبدا: سائنسی اور اسلامی تناظر میں - مجیب الحق حقی

علم کی ابتدا اور اس کی حقیقت پر غور کرنا انسانی فکر کے سب سے قدیمی اور اساسی مسائل میں سے ہے۔ جدید سائنس اور اسلامی تعلیمات دونوں ہی اس موضوع پر منفرد انداز میں روشنی ڈالتی ہیں، مگر ان کے نقطہ ہائے نظر میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔

سائنسی نقطہ نظر کے مطابق علم کو محض ڈیٹا کا مجموعہ قرار دیا جاتا ہے جو حواس کے ذریعے حاصل ہوتا ہے، تجربات سے جانچا جاتا ہے اور دماغ میں نیورونز کے پیچیدہ ارتباط سے تشکیل پاتا ہے۔ مگر یہ نظریہ کئی اساسی سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ مثال کے طور پر، بے شعور مادی ذرات سے شعور کیسے وجود میں آ سکتا ہے؟ ڈیوڈ چامرز جیسے جدید مفکرین نے اسے "شعور کا مشکل مسئلہ" قرار دیا ہے۔ اسی طرح، 1 گرام ڈی این اے میں 700 ٹیرا بائٹ ڈیٹا کا سما جانا، یا کوانٹم انٹینگلمنٹ میں معلومات کی فوری منتقلی جیسے مظاہر مادہ پرست نظریے کی توضیح سے بالاتر ہیں۔

اسلامی تعلیمات علم کو ربانی عطا قرار دیتی ہیں۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے: "اور آدم کو تمام ناموں کا علم سکھایا" (البقرہ 2:31)۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ بنیادی علم انسان کو خالق کی طرف سے عطا ہوا۔ سورہ علق کی ابتدائی آیات میں پڑھنے اور علم کے حصول کو ربوبیت سے جوڑا گیا ہے۔ اسلامی نقطہ نظر کے مطابق، جو ذات زمان و مکاں سے ماورا ہے، وہی حقیقی علم رکھ سکتی ہے۔

فطرت میں پائے جانے والے حیرت انگیز نظام، جیسے شہد کی مکھیوں کو راستے سکھانا (النحل 16:68) یا پرندوں کو رہنمائی (الملک 67:19)، اس بات کی واضح نشانیاں ہیں کہ علم کا منبع کوئی اعلیٰ ہستی ہے۔ قرآن مجید میں انسان کے محدود علم کا تذکرہ بھی موجود ہے: "تمہیں بہت ہی تھوڑا علم دیا گیا ہے" (بنی اسرائیل 17:85)۔

جدید سائنس کے سامنے بھی کئی بنیادی سوالات حل طلب ہیں۔ کوانٹم فزکس کا مشاہدہ کار کا اثر (Observer Effect) بتاتا ہے کہ شعور کائنات کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ 2023 کی جدید تحقیق کے مطابق، دماغ کے 86 بلین نیورون بھی شعور کی مکمل وضاحت پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ڈی این اے کی دریافت کرنے والے فرانسس کرک نے خود تسلیم کیا تھا کہ زندگی کا کوڈ خود بخود وجود میں نہیں آ سکتا۔

اسلامی نقطہ نظر کی برتری اس کے جامع ہونے میں ہے۔ یہ نہ صرف مادی دنیا بلکہ معنوی حقائق کا بھی احاطہ کرتا ہے۔ جہاں سائنس صرف "کیسے" (How) کا جواب دیتی ہے، وہیں اسلام "کیوں" (Why) اور "کس نے" (Who) کے اساسی سوالوں کا جواب فراہم کرتا ہے۔ جس طرح کمپیوٹر کو چلانے کے لیے پروگرامر کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح کائنات کے پیچیدہ نظام کو چلانے کے لیے ایک عظیم ہستی کا ہونا ضروری ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہے: "کہہ دیجئے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟" (الزمر 39:9)۔ یہ آیت علم کی اہمیت اور اس کے الہامی مبدا کی طرف واضح اشارہ کرتی ہے۔ حقیقی علم وہی ہے جو انسان کو خالق کی معرفت تک پہنچائے، نہ کہ صرف مادی دنیا کی محدود معلومات تک محدود کر دے۔

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم کی حقیقی نوعیت کو سمجھنے کے لیے سائنسی دریافتوں اور الہامی تعلیمات دونوں کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے۔ سائنس کائنات کے مظاہر کی وضاحت کرتی ہے، جبکہ اسلام ان مظاہر کے پیچھے کارفرما حکمت اور مقصد کو واضح کرتا ہے۔ دونوں کا ہم آہنگ مطالعہ ہی انسان کو علم کی حقیقی روح تک پہنچا سکتا ہے۔

Comments

Avatar photo

مجیب الحق حقی

مجیب الحق حقی ریٹائرڈ پی آئی اے آفیسر ہیں۔ دو کتب " خدائی سرگوشیاں" اور۔ Understanding the Divine Whispers کے مصنف ہیں۔ توحید کا اثبات اور الحاد کا رد ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ ان کی تحاریر کائنات میں غوروفکر کے ذریعے رب تک پہنچنے کی دعوت دیتی ہیں

Click here to post a comment