ہوم << پاکستان ایران اور اسرائیل کے بیچ: ایک فیصلہ کن موڑ پر - عدنان فاروقی

پاکستان ایران اور اسرائیل کے بیچ: ایک فیصلہ کن موڑ پر - عدنان فاروقی

مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے بدلتے ہوئے جغرافیائی اور سیاسی منظرنامے میں پاکستان ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے . جہاں ایک طرف ایران کے اندرونی جھٹکوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے، تو دوسری جانب اسرائیل کی چپ چاپ مگر منظم پیش رفت ایک گہرے خطرے کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

علاقائی اتحاد نئے سانچوں میں ڈھل رہے ہیں، پراکسی جنگوں کی شکل بدل رہی ہے، اور خطرات کی نوعیت بھی کہیں زیادہ پیچیدہ ہو گئی ہے۔ ایسے میں اسلام آباد کے لیے یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ وہ اپنی دفاعی و سفارتی حکمتِ عملی کا ازسرِنو جائزہ لے۔

یہ کوئی اختیاری یا خود چُنا گیا مقام نہیں بلکہ ایسا میدان بنتا جا رہا ہے جہاں بڑے عالمی مفادات کا تصادم ہو سکتا ہے، اور پاکستان نادانستہ طور پر اس تصادم کا مرکز بن سکتا ہے۔

پاکستان اور ایران کے تعلقات ہمیشہ مثالی نہیں رہے، مگر کبھی خطرناک حد تک بھی خراب نہیں ہوئے۔ دونوں کے درمیان اختلافات ضرور رہے ہیں . سرحدی کشیدگیاں، سفارتی تناؤ، اور پراکسی خدشات . مگر یہ سب معاملات ہمیشہ ذیلی سطح پر قابو میں رہے۔ اس میں ایک طرف دہلی اور تہران کی قربت کا عنصر تھا، تو دوسری طرف پاکستان کے خفیہ اداروں اور ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے درمیان ناپ تول کر طے کیے گئے قواعد۔

اسرائیل کی ایران کے خلاف مہم اب صرف جوہری تنصیبات تک محدود نہیں رہی۔ یہ ایک نرم مگر مکمل اندرونی بغاوت کی شکل اختیار کر چکی ہے. جس میں سائبر حملے، معیشت کو سبوتاژ کرنا، اندرونی گروہوں کو متحرک کرنا اور زمینی سطح پر موجود موساد کے نیٹ ورک شامل ہیں۔ مقصد؟ ایرانی ریاستی ڈھانچے کو اندر سے توڑنا، اور خطے میں طاقت کا توازن اپنی مرضی سے ڈھالنا۔

پاکستان کے لیے یہ صرف ایک "پڑوسی ملک" کا مسئلہ نہیں۔ اگر ایران غیر مستحکم ہوا، یا وہاں کوئی ایسی حکومت قائم ہوئی جو اسرائیل نواز ہو، تو پاکستان کی مغربی سرحد خطرناک حد تک غیر محفوظ ہو جائے گی۔ بلوچستان میں بغاوت، پراکسی جنگ اور داخلی انتشار کے امکانات کئی گنا بڑھ جائیں گے۔

اسی دوران، بھارت اور اسرائیل کے درمیان عسکری، تکنیکی اور خفیہ اداروں کی سطح پر جو اشتراک ہو رہا ہے، وہ صرف تعاون کی حد تک محدود نہیں — بلکہ یہ اب عملی اشتراکِ عمل (Operational Fusion) میں تبدیل ہو چکا ہے۔

ماہرانہ انداز میں چلنے والے ڈرون، سیٹلائٹ انٹیلیجنس، سائبر حملے، اور میدانِ جنگ کی جدید ٹیکنالوجی . سب کچھ اب مشترکہ طور پر تیار کیا جا رہا ہے۔ حالیہ پاک-بھارت کشیدگی کے دوران اسرائیلی ٹیکنالوجی کا بھارت کے ہاتھوں استعمال اس بات کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے۔

اسرائیلی خفیہ ادارہ موساد اور بھارتی "را" کے درمیان تعلقات کی بنیاد پر ایک واضح خطرہ یہ ہے کہ بلوچستان کے اندر ایرانی سرحد کے ذریعے تربیت یافتہ اور ہتھیار بند عسکریت پسند داخل کیے جا سکتے ہیں . جو پاکستان کے داخلی سلامتی کے ڈھانچے پر براہِ راست حملہ کریں

ایک تشویشناک نیا اتحاد کرد علیحدگی پسند جماعت (PKK) اور بلوچ علیحدگی پسندوں (BLA) کے درمیان دیکھا جا رہا ہے جس کا مقصد بیک وقت ترکی اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا ہے۔

یہ اتحاد صرف نظریاتی نہیں بلکہ عملی پراکسی جنگ کی تیاری کا اشارہ ہے، اور اسے چلانے والے وہی بین الاقوامی عناصر ہیں جو خطے میں انتشار کو بطورِ آلہ استعمال کرتے ہیں۔

اس تمام تر تناظر میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کے دفاعی پروگرام، خصوصاً بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی پر بڑھتا ہوا دباؤ، اور حالیہ مہینوں میں قومی دفاعی اداروں پر لگائی جانے والی پابندیاں محض اتفاق نہیں۔ پسِ پردہ اسرائیلی اثر رسوخ کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

یہ سب اقدامات ایک پیشگی حکمتِ عملی کا حصہ معلوم ہوتے ہیں ۔ جس کا مقصد ہے کہ پاکستان کو کسی بھی ممکنہ فوجی تصادم سے پہلے ہی دفاعی و تکنیکی اعتبار سے محدود کر دیا جائے۔

اس سارے منظرنامے میں دو ممالک ایسے ہیں جو پاکستان کے لیے امید اور توازن کا کردار ادا کر سکتے ہیں: چین اور ترکی۔

چین، جو ایران اور پاکستان دونوں میں بڑی سرمایہ کاری کر چکا ہے ۔ بالخصوص سی پیک اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت ، اس کے لیے ایران یا بلوچستان کا غیر مستحکم ہونا براہِ راست معاشی اور جغرافیائی خطرہ ہے۔ چین نہ صرف پاکستان کی اقتصادی مدد جاری رکھے گا بلکہ سائبر، انٹیلیجنس، اور دفاعی تعاون بھی بڑھا سکتا ہے۔

ترکی، جو پی کے کے سے خود بھی متاثر ہے، بلوچستان میں ہونے والے ممکنہ بغاوتی اتحاد کو اپنے لیے بھی خطرہ سمجھتا ہے۔ پاک-ترک تعلقات کا نیا باب کھل سکتا ہے جہاں دونوں ممالک انسدادِ دہشت گردی، ڈرون ٹیکنالوجی، اور خفیہ معلومات کے تبادلے میں قریبی تعاون کریں گے۔ ترکی کی حیثیت ایک نیٹو رکن ہونے کے باوجود آزاد خارجہ پالیسی رکھنے والے ملک کی ہے، جو پاکستان کے لیے عالمی سطح پر بھی ایک مؤثر آواز بن سکتی ہے۔

پاکستان کو کسی بڑی غلطی کی ضرورت نہیں ۔ دنیا کے بدلتے حالات خود اسے ایک ایسے مقام پر لا رہے ہیں جہاں فیصلہ کن حکمتِ عملی اختیار کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔

ایران کی صورتحال، اسرائیل اور بھارت کا گٹھ جوڑ، پراکسی خطرات، اور بین الاقوامی پابندیاں ۔ سب مل کر پاکستان کو ایک نئے دفاعی، سفارتی اور سیاسی چیلنج کی طرف دھکیل رہے ہیں۔

اگر پاکستان نے وقت رہتے اپنی حکمتِ عملی، اتحادی تعلقات، اور جدید خطرات کے خلاف تیاری نہ کی، تو اسے نہ صرف سفارتی محاذ پر پچھتاوا ہو سکتا ہے، بلکہ داخلی سلامتی اور قومی خودمختاری بھی داو پر لگ سکتی ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان صرف ردِعمل نہ دے، بلکہ خطے کے نئے منظرنامے میں اپنی فعال اور مضبوط موجودگی کا لوہا منوائے۔

Comments

Avatar photo

عدنان فاروقی

عدنان فاروقی ربع صدی سے زائد عرصہ بیرون ملک رہے۔ انگریزی، اردو، عربی اور ترکی زبانوں سے شناسائی ہے۔ مترجم اور محقق کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ اردو اور انگریزی ادب سے لگاؤ ہے۔ مشتاق احمد یوسفی اور غالب کے عاشق ہیں۔ ادب، تاریخ، سماجی علوم اور بین الاقوامی تعلقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اردو نثر میں مزاحیہ و سنجیدہ اسلوب کو یکجا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سماجی، تاریخی اور فکری موضوعات پر اظہارِ خیال کرتے ہیں

Click here to post a comment