ہوم << اسلام ، سائنس اور عقل پرستی - ڈاکٹر حسیب احمد خان

اسلام ، سائنس اور عقل پرستی - ڈاکٹر حسیب احمد خان

اس سے پہلے بھی متعدد بار سائنس اور اسلام کے حوالے سے گفتگو ہوئی ایک بہت بڑا مغالطہ ہمیں یہ لگا کہ ہم نے سائنس کو مستقل سمجھ لیا جب دور جدید کے ایک متکلم ڈاکٹر ذاکر عبد الکریم نائیک صاحب سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا خدا ایسا پتھر بنا سکتا ہے جو خود نہ اٹھا سکے تو انہیں بھی یہ کہنا پڑا ۔ God does Godly things یعنی خدا اپنے مقام کے مطابق کام کرتا ہے۔ مغرب میں اس سوال کو Omnipotence paradox کہتے ہیں اب مغربی فلسفے اور تصور علم پر اس مخمصے کا جواب دینا ممکن ہی نہیں کیونکہ ہر دو صورتوں میں اس کا نتیجہ خدا کے انکار پر نکلے گا ہاں ہمارے متکلمین نے اپنے اصولوں پر اس کا جواب دیا ہے۔

ایک آسان مثال پیش کرتا ہوں مغرب کے نزدیک مادہ یا مادے کی بنیادی اکائی ایٹم بے جان و بے شعور ہے دوسری جانب مذہبی scholastic philosophy کے مطابق کائنات کی ہر شے باشعور ہے۔ آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے مغرب پودوں کو بے جان سمجھتا تھا ایک ہندوستانی مفکر Jagadish Chandra Bose نے یہ ثابت کیا کہ پودے بھی جاندار ہیں یہ وہ وقت تھا کہ جب ہمارے بڑے علی گڑھ بنا رہے تھے ، ہندوستان کی دوسروں قوموں نے علی گڑھ نہیں بنایا بلکہ براہ راست سائنس پر کام کیا ، سی وی رامن ، سری نواسا راماننجن ، ستیندرا ناتھ بوس اور دیگر نے میتھ ، فزکس ، بائیولوجی جیسے شعبوں پر کام کیا انہوں نے اپنے پنڈتوں ویدوں سے یہ نہیں کہا کہ اپنی اپنی پاٹھ شالا بند کردیں یا ان میں سائنس پڑھانا شروع کردیں وہ ہم سے زیادہ عقل مند تھے۔

ہم مولوی کے پیچھے پڑ گئے اور پچھلے دو سو سال میں دس بڑے سائنس دان بھی پیدا نہ کرسکے۔
تو گفتگو ہو رہی تھی مادے یا ایٹم کے زندہ ہونے کی اگر کل سائنس انہیں زندہ تسلیم کرلے تو سائنسی نظریہ فکر کی ڈائینامکس ہی بدل جائیں گی ہمارے وہ تجدد پسند جو معجزات اور کرامات کی بابت پچھلے ڈیڑھ دو سو سال سے تاویلات کررہے ہیں ان کی تاویلات بیک جنبشِ قلم تاریخ کے کوڑے دان میں چلی جائیں گی۔

ہم اپنے اصولوں پر یہ مانتے ہیں کہ اللّٰہ نے آگ کو وحی کی کہ ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہوجائے ، ہم اپنے اصولوں پر مانتے ہیں کہ سمندر نے موسیٰ علیہ السلام کو راستہ دیا ہمارے اصولوں پر انسان کی ابتداء آدم علیہ السلام سے ہوئی ہمارے اصولوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کنکریوں کا کلام کرنا ثابت ہے ہم یہ مانتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس تنے سے ٹیک لگاتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوری پر روتا رہا۔
اسے ہم شخصی تعارف کے پیراڈاکس یعنی مخمصے کے طور پر لیتے ہیں یا اسے شپ آف تھیسیس کا پیراڈاکس یعنی مخمصہ کہا جاتا ہے یہ کیا ہے ؟
Ship of Theseus

یعنی تھیسیس کا جہاز یہ ایک قدیم یونانی داستان ہے کہ یہاں یونان کا مشہور بادشاہ تھیسیس ایک عفریت مینیٹار کو قتل کرتا ہے یہ جنگ ایک دور دراز علاقے میں ہوتی ہے اور اس جنگ کیلیے ایک طویل سمندری سفر درکار ہوتا ہے، اس سمندری سفر کیلئے ایک جہاز تیار کیا جاتا ہے اس طویل سفر پر جانے سے واپسی تک اس جہاز کا ہر ایک پرزہ تبدیل ہو چکا ہوتا ہے اب فلسفے کے اعتبار سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حقیقی شپ آف تھیسیس کیا ہے کیا وہ کہ جو سفر پر جانے سے پہلے موجود تھا یا پھر وہ کہ جو سفر سے واپسی پر سامنے آیا جب کہ اس کا ہر ایک پرزہ تبدیل ہو چکا ہے۔

مغرب شناخت کے اس تصور کے حوالے سے پریشان ہے کہ ان کے یہاں روح کا تصور موجود نہیں ہے جب کہ مشرق ایسی کسی غلط فہمی میں مبتلاء نہیں مشرق کے نزدیک جسم تو صرف ہے لباس ہے جبکہ انسان کی حقیقت تو اس کی روح ہے۔
ہمارے اصولوں پر تو انسان روح ہے اور ہمارے تجدد پسند پچھلے سو سال سے روح کی تاویل میں لگے ہوئے ہیں کہ مغرب کیلیے اسے قابل قبول بنا سکیں جبکہ مغرب خود اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہے کہ انسان کیا ہے۔

مزید تصور روح کو دیکھیے ایک معروف مخمصہ یہ کہتا ہے کہ پیدائش سے مرنے تک انسانی جسم کا ایک ایک خلیہ تبدیل ہو چکا ہوتا ہے تو کیا انسان مرتے وقت بھی وہی تھا کہ جو وہ پیدائش کے وقت تھا یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی قدیم مشین کا ہر ایک پرزہ تبدیل کردیا جائے تو پھر انسان کون ہے ؟

جی ہاں ہمارے اصولوں پر دل سوچتا ہے سمجھتا ہے شعور رکھتا ہے منبع ہدایت ہے ہمیں ضرورت نہیں کہ لغت کھول کر دل کو دماغ ثابت کریں کہ دل الگ ہے اور دماغ الگ۔
حدیث
خبردار ہو جاؤ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔
صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 51 کتاب الایمان

دلیل حقیقی وحی الہی ہے!
دلائل دو طرح کے ہوتے ہیں دلیل قطعی اور دلیل ظنی کیا ہم خدا کے وجود کی بابت عقلی طور پر کوئی دلیل قطعی پیش کر سکتے ہیں ، مثال کے طور پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ اس کائنات کا ایک نظم ہے دن و رات کا ظہور موسموں کی تبدیلی ماہ و سال کا آنا جانا سو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نظم کو کوئی چلا رہا ہے مغرب کی اصطلاح میں اسے Fine Tuning کہا جاتا ہے۔

Fine-tuning refers to the surprising precision of nature’s physical constants and the early conditions of the universe. To explain how a habitable planet like Earth could even exist, these fundamental constants have to be set to just the right values (like tuning a dial to find just the right radio station). If the universe had physical constants with even slightly different values, the universe simply could not support life: it would expand too quickly, or never form carbon atoms, or never make complex molecules like DNA.

لیکن یہ بھی دلیل ظنی ہوگی ،یعنی اس دلیل کے مطابق ہمارا یہ گمان ہے کہ کوئی خدا ہے دوسری جانب انبیاء علیہم السلام کے دلائل قطعی تھے وہ یہ کہتے تھے کہ ہمارے پاس وحی آتی ہے سو مان لیجئے کہ خدا ہے ۔ ہم خدا کو اگر صرف دلیل ظنی کی بنیاد پر مانتے ہیں تو کیا اس سے بہتر دلیل آنے پر ہم اپنے اعتقاد سے دستبردار ہو جائینگے یا پھر اس سے بہتر دلیل تلاش کر سکنے تک معلق رہیں گے۔

دیکھئے علوم انسانی کے دو بنیادی منابع ہیں ایک تو ہوا مشاہدہ اور دوسرا ہوا مکاشفہ ، مذاہب کی بنیاد مکاشفات پر ہے اور مکاشفات کی اعلی ترین شکل انبیاء پر اترتی ہے دوسری جانب فلسفہ اپنی بنیاد مشاہدے اور تخیل پر رکھتا ہے مسلمان متکلمین کے جتنے مباحث فلاسفہ سے ہوئے وہ دلیل کی بنیاد پر وحی کو عقل پر فائق کرنے کیلئے ہی ہوئے اس سے کہیں بھی یہ مطلب نہیں نکلتا کے وحی عقل سے عاری ہے یا عقل کے مطابق نہیں اب اس مقدمے کو کچھ اور آگے بڑھائیں دور جدید میں فلسفے کی جگہ سائنس نے لے لی ہے اور سائئنس کا مدار مکمل طور پر مشاہدے کے اوپر ہے یہاں تخیل کی گنجائش نہیں ہے ، جب تک ہم فلسفے کے مقابل تھے ہماری بحث منطقی تھی مگر اب سائنس کنکریٹ فیکٹس مانتی ہے سائنس کے ساتھ منطقی بحث نہیں ہو سکتی آپ ایک فلسفی کے ساتھ یہ بحث کر سکتے ہیں اور منطقی دلائل کے ساتھ کر سکتے ہیں کہ خدا ہے یا نہیں مگر سائنس آپ کے دلائل کو بیک جنبش قلم مسترد کر دے گی اور کہے گی کہ اگر خدا ہے تو اس کا سائنسی مشاہدہ پیش کیجئے یہاں منطق و فلسفہ نہیں چلے گا چونکہ دور جدید میں عقل کا حقیقی مظہر سائنس کو سمجھا جاتا ہے تو جناب آپ کس لیب میں وجود خدا وندی کو ثابت کر سکتے ہیں لا محالہ آپ کو وحی پر جا کھڑا ہونا پڑے گا۔

الحاد سے مکالمے کے مختلف مناہج
الحاد سے بنیادی گفتگو خدا کے وجود پر ہے اور پھر یہ گفتگو وحی ، روح ، کتاب ، نبوت ، معجزہ ، جنت ، جہنم ، برزخ ، فرشتے ، جنات اور دیگر مابعد الطبیعیاتی امور تک پھیل جاتی ہے اسی گفتگو کے حوالے سے مسلمانوں کے دو گروہ ایسے رہے ہیں کہ جو بالکل دو ٹوک اور واضح موقف پیش کرتے ہیں۔

پہلا گروہ ہے ظواہر کا ہے ان کے یہاں قرآن سنت سے ایک لفظ بھی اضافی قبول نہیں یہاں تک کہ وہ بعض جگہوں پر فقہ جیسے شرعی علم سے بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں جیسے شیخ ابن حزم اندلسی رح ان حضرات کے یہاں صاف اور واضح موقف ہے کہ مابعد الطبیعیاتی امور کو جن الفاظ اور جس انداز میں بیان کردیا گیا وہاں سے ایک انچ بھی ہلنے کی گنجائش نہیں کوئی تاویل کوئی تفویض کسی بھی درجے میں قبول نہیں۔

دوسرا گروہ ہے صوفیاء کا ان حضرات کا صاف اور واضح موقف ہے کہ مابعد الطبیعیاتی امور سے متعلق ان کا وجدان ان کی کیفیات و احساسات ان کے مکاشفات گواہی دیتے ہیں وہ کائنات کے ہر مظہر میں خالق کی خالقیت کے مظاہر کا مشاہدہ کرتے ہیں اگر ہم مولانا روم رح کی مثنوی دیکھیں تو ہمیں یہی رنگ دکھائی دیتا ہے۔
ان دو گروہوں کے درمیان متکلمین ہیں پھر متکلمین بعض تو وہ ہیں کہ جو اہل تصوف سے قریب ہیں اور بعض وہ ہیں کہ جو ظواہر سے قریب ہیں یہ وہ دور ہے کہ جب الحاد فلسفے کے پردے میں ظاہر ہوا اور الہیات کو بہت سے حضرات نے فلسفے کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی اور اس حد تک گئے کہ شریعت ان کے ہاتھ سے نکل گئی جیسے ابن رشد وغیرہ یا معتزلہ کا پورا منہج فکر کہ جو یونانی فلسفے سے متاثر رہا۔

دوسری جانب شیخ الاسلام ابن تیمیہ رح جیسی شخصیات ہیں انہوں نے فلاسفہ سے کلام کیا تو متکلمین کے اصولوں پر کیا لیکن کسی حد تک ظاہری منہج فکر سے قریب رہے اسی لیے مابعد الطبیعیاتی امور میں ان کی آراء معقولات و منقولات ہر دو دائروں میں گفتگو کرتی ہیں۔ پھر ہمیں ابن عربی رح دکھائی دیتے ہیں ابن عربی کی بنیاد مکاشفات اور وجدان پر تھی ان کی گفتگو کیفیات و احساسات پر مبنی تھی لیکن جب وہ مابعد الطبیعیاتی امور کو چھیڑتے ہیں تو وہ بھی متکلمین کے اصولوں پر گفتگو کرتے دکھائی دیتے ہیں اسی لیے بہت سے مابعد الطبیعیاتی امور میں انکی اور ابن تیمیہ رح کی رائے شدید ترین منہجی اختلاف کے باوجود ایک جیسی دکھائی دیتی ہے۔

ان تمام گروہوں کے وسط میں ہمیں امام غزالی رح کھڑے دکھائی دیتے ہیں غزالی نے کلامی اصولوں پر گفتگو تو کی ہے لیکن اس میں کشفی رنگ دکھائی دیتا ہے ان کے یہاں اعتقاد ظاہری منہج فکر پر ہے مگر تصوف کی چاشنی کے ساتھ ، وہ فلسفے کو فلسفے سے رد کرتے ہیں مگر اس کے مقابل ایک مکمل روحانی نظام بھی پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں متکلمین کے اشعری مکتب فکر کا رنگ انکے یہاں کافی گہرا ہے مگر اصحاب زہد کی کیفیات کے ساتھ ، ان کی گفتگو خالص علمی ہونے کے ساتھ ساتھ خالص الہامی بھی ہے۔ امام غزالیؒ کے فکری مظاہر ہمیں اشعری و ماتریدی حلقوں میں دکھائی دیتے ہیں اور اہل سنت متکلمین کے دائرے میں انہی شخصیات کو مدار و معیار تسلیم کیا جاتا ہے۔

اب تاریخ کے صفحات پلٹتے ہوئے اور نیچے چلے آئیے تو ہمیں شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے باب پر پڑاؤ ڈالنا پڑتا ہے شاہ صاحب کے یہاں اشعری رنگ بھی ہے اور ماتریدی رنگ بھی ہے یعنی علم الکلام کی مکمل روایت موجود ہے تو دوسری جانب غزالی کا رنگ پوری طرح دکھائی دیتا ہے اگر ہم حجتہ اللہ البالغہ کو احیاء العلوم کی تجدید کہیں تو کچھ غلط نہ ہوگا پھر شاہ صاحب رح نے مجدد الف ثانی رح کی روحانیت کو اکبری الحاد کا مقابلہ کرتے دیکھا ہے انہیں دکھائی دیتا ہے کہ دین اکبری معدوم ہو چکا اور مجدد کا رنگ ہر طرف موجود ہے دوسری جانب وہ خالص اہل حدیثی(منہج اہل حدیث بخاری و مسلمؒ وغیرہ) رنگ بھی رکھتے ہیں حکم و معارف مکاشفات و مشاہدات کے ساتھ منقولات کے بھی امام ہیں انہیں فلسفے کا بھی درک ہے اور وہ روحانیت کی دنیا کے بھی شناور ہیں۔ آج کے دور میں الحاد سے گفتگو کا منہج ہمیں انہی میں تلاش کرنا ہوگا چاہے وہ فلسفیانہ موشگافیاں ہوں یا مادیت پرستانہ رویہ ہمیں ولی الہی منہج فکر پر ہی الحاد سے گفتگو کرنی ہوگی۔

الحاد سے مکالمہ کرنے والوں کی ایک عظیم غلطی
جدید الحاد آپ کو سائنس کے کٹہرے میں کھڑا کرے گا اور آپ سے خدا ، وحی ، نبوت ، معجزات ، روح ، برزخ اور جنت و جہنم کا ثبوت مانگے گا اور ہمارے جدید متکلمین اسی دائرے میں ان کو جواب دینے کی کوشش کریں گے اور یہی سب سے بڑی غلطی ہے یاد رہے یہ تمام امور روحانی ہیں ان کا جواب مادیت کے دائرہ کار میں نہیں دیا جا سکتا آپ جتنی کوشش کریں گے اتنی مار کھائیں گے طریقہ کار تو یہ ہونا چاہیے کہ مادیت پرستوں کو روحانیت کے میدان میں لے کر آئیں اور ان سے گفتگو صرف روحانیت کے دائرہ کار میں کریں یاد رہے ایک مسلمان کیلئے دلیل حقیقی صرف قرآن و حدیث ہے۔

تشکیکی مزاج
جب ہم مذہب گریز نظریات سے گفتگو کرتے ہیں تو ان کا دائرہ کا ماضی کے سوفسطائیہ سے دور جدید کے ارتیابیوں تک پھیلا ہوا ہے ان نظریات کی شکل پیرامڈ کی طرح ہے کہ جس کی بنیادیں تشکیک پر قائم ہیں تشکیک بطور نظریہ بھی اور تشکیک بطور رویہ بھی ، تشکیک کی بنیاد پر قائم اس اہرام کے مختلف درجات ہیں تشکیک ہمیں روایت گریزی کی طرف لے جاتی ہے روایت گریزی سے مراد اس راہ کو کھوٹی کردینا اسلام کا وہ پیٹا پاٹا راستہ چھوڑ دینا اس الصراط سے ہٹا دینا کہ جسے منہج سلف کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اگر ہم تشکیک کے وائرس کو دیکھیں تو یہ روایت کے امیون سسٹم پر حملہ آور ہوتا ہے ، جدید مسلم دنیا میں تشکیک استشراقی فکر کی شکل میں وارد ہوئی وہ استشراقی فکر کے جو چرچ تک محدود تھی استعمار کی چھتر چھایہ میں ہمارے گڑھوں تک چلی آئی ، استشراقی فکر نے تشکیک کے کام کو ہی آسان کیا اور اس تشکیک کو علمی مواد فراہم کرکے ہماری تمام تر ثقافتی ، تاریخی ، علمی ، فکری اور اعتقادی مسانید تک پہنچا دیا ، اس استشراقی فکر کا اصل کام یہ تھا کہ ہم پر ہماری تاریخ ، ہماری سیاست ، ہماری فقہ ، ہمارا تصوف ، ہماری حدیث اور ہماری تفسیر سبھی کچھ مشکوک ہوجائے یہ وہ پہلا پھندا تھا کہ جس میں ہمیں جکڑا گیا۔
سائنس پرستی
Scientism: Scientism is the view that science is the best or only objective means by which society should determine normative and epistemological values.

عین ممکن ہے کہ یہ اصطلاح آپ کیلئے حیران کن ہو مذہب سائنس ! اگر ایسا ہے تو گوگل پر scientism کی اصطلاح سرچ کیجئے سائنٹزم کا سفر نیچریت سے شروع ہوتا ہے فلسفہ اور سائنس پڑھنے والے Thomas Henry Huxley کے نام سے ضرور واقف ہوں گے ہگسلے نے Agnosticism یعنی تشکیک کی اصطلاح ایجاد کی ، کہیں پر تشکیک کو skepticism کا خوبصورت نام دیا جاتا ہے اور کہیں اسے freethinking گردانا جاتا ہے، ان تمام اصطلاحات کو آپ گوگل پر سرچ کر سکتے چاہے وہ سکیپٹک ہو یا فری تھنکر ہو یا خود کو اگناسٹک کہلاتا ہو ان کے نزدیک empirical یعنی مشاہداتی یا تجرباتی امور ہی قابل قبول ہیں یعنی جو دیکھا جا سکتا ہے یا جو کسی لیبارٹری میں ثابت کیا جا سکتا ہے ، وہی ہے ، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ، جیساکہ کہ اوپر تذکرہ ہوا کہ ہگسلے نے مذہب تشکیک کو باقاعدہ نام دیا لیکن اس سے پہلے اس کی بنیاد مذہب نیچریت کے بانی چالس ڈارون نے ڈال دی تھی ، ہمیں اکثر یہ مغالطہ لگتا ہے کہ شاید ارتقاء صرف ایک سائنسی یا حیاتیاتی مسئلہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے اس کی معاشی ، معاشرتی ، نفسیاتی ، یہاں تک کہ سیاسی جہات بھی ہیں Thomas Robert Malthus کا نظریہ آبادی دیکھیے اور پھر ڈارون کا survival of the fittest دیکھیے ہر دو کے ڈانڈے ملتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔

After being mobbed in their carriage by poor, starving people, Charles and Erasmus Darwin are prompted to consider the human struggle for existence. As they discuss Malthus's assertion that human population would skyrocket if not for natural controls such as famine and disease, Charles has a new insight: other animals' populations must also be kept low by a struggle for existence, in which only the best adapted survive. The theory of natural selection is born. From Evolution: "Darwin's Dangerous Idea"

یہ سب بھی empirical thinking کا ہی کمال ہے سائنٹزم نے اسی نظریے کو آگے بڑھایا یہ مذہب اور یہ نظریہ اپنی ہر ہر سطح پر الہامی مذاہب کے مخالف کھڑا دکھائی دے گا خاص کر اس منہج فکر سے مابعد الطبیعیاتی امور کی مخالفت تواتر اور شدت کے ساتھ ملے گی ، ہمارے یہاں جب یہ نیچریت سرسید کے ہاتھوں مذہبی دائروں میں داخل ہوتی ہے تو سب سے زیادہ انکار یا انکار نما تفہیم مابعد الطبیعیاتی امور کی ہی ملتی ہے عقیدہ خدا تو اس تصور دین میں موجود رہتا ہے لیکن باقی تمام امور مشکوک ہوجاتے ہیں ، اسی منہج فکر کی روشنی میں روح ، معجزہ ، وحی یا بعض حلقوں میں کشف ، الہام اور امکان کرامت کے انکار کا نظریہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔
نیچریت مغربی ہو یا مشرقی اپنے ساتھ اپنے اپنے حصے کا فتنہ لیکر آئی ایک جگہ تو گفتگو عقل پرستی کی ہوئی تو دوسری جگہ عقل کو ہی واحد معیار حق تسلیم کیا جانے لگا، لیکن کیا عقل اپنی بنیاد میں معیار حق بننے کا حق رکھتی تھی۔

ایک جانب تو ڈاکنز جیسے سائنس پرستوں نے خدا ایک واہمہ God Delusion جیسی کتابیں تحریر کیں تو دوسری جانب مغرب سے ہی اس کے خلاف آواز بلند ہوئی۔ روپرٹ شیلدریک نے سائنس ایک واہمہ جیس کتب تخلیق کیں۔ تو جناب سائنس کو سر مارنے دیجیے ہمیں ضرورت نہیں کہ ان کے اصولوں پر دین ثابت کریں انہیں ضرورت ہے کہ ہمارے اصولوں کو سمجھیں۔

اسلام ، سائنس اور ہمارے نوجوان اہل علم
سائنسی علمیت صرف چیزوں کو کھوجنے کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل زاویہ نگاہ ہے جس طرح ماضی میں مذہب کے مقابل فلسفہ کھڑا ہوا تھا اسی طرح آج مذہب کے مقابل سائنسی علمیت کھڑی ہے، یہاں پر سائنسی علمیت سے مراد ایجادات و مصنوعات یا پھر کائناتی حوالے سے وہ تحقیق نہیں کہ جو حیاتیات یا طبیعیات کے میدان میں اشیاء کے اوصاف و صفات سے گفتگو کرتی ہے، بلکہ سائنسی علمیت کا اس دائرے میں داخل ہو جانا ہے کہ جو مذہب کا دائرہ ہے۔

ماضی میں وہ تمام دائرے کہ جو الہامی تھے فلسفے نے ان میں دخل دینے کی کوشش کی غزالیؒ کی تہافتہ الفلاسفہ سے شاہ محمد اشرف علی تھانیؒ کی الانتباہات المفیدہ تک اسی فلسفیانہ فکر کی رد میں لکھی گئیں۔
فلسفے نے جن دو بڑے مباحث کو چھیڑا ان کا تعلق زمان و مکان سے تھا اور آج فلسفے کی جگہ سائنس نے لی ہے آج کے دور میں سب سے بڑی گفتگو زمان و مکان کے حوالے سے ہی کی جارہی ہے زمان و مکان یعنی ٹائم اور سپیس۔
اس تمام گفتگو میں ہمارے اہل علم خاص کر دور استمار کی ظلمت سے دور عالمگیریت کی تیرگی تک پیدا ہونے والے اہل علم دو بڑے مغالطوں کا شکار ہوئے، یہاں پر ہم انتہائی اختصار کے ساتھ ان کا تذکرہ کرتے ہیں۔
پہلا مغالطہ؛ پہلا مغالطہ تو یہ پیدا ہوا کہ سائنسی علمیت کو مستقل سمجھ لیا گیا اب اس گروہ کے نزدیک مذہب اسی وقت قابل قبول ہو سکتا تھا کہ جب وہ سائنسی علمیت کے مطابق ہو مسلمانوں اور خاص کر برصغیر کے مسلمانوں میں اسی ذہنیت سے متاثر ہوکر سرسید نے نیچریت کا علم بلند کیا اور تمام تر مابعد الطبیعیاتی امور یعنی سپر نیچرل کا انکار کردیا یعنی دین کی تعبیر کے مطابق وہ ہر طرح کی کرامت اور معجزے سے منکر ہوگئے اور یہ فکر ان پر اس درجہ غالب ہوئی کہ ایک جگہ فرماتے ہیں۔

" نیچری کافر ہوں یا لامذہب یا بد مذہب مگر وہ ایسے مذہب کو جیساکہ منبر پر اعوذ باللہ پڑھنے والے کا ہے پسند نہیں کرتے وہ یقین کرتے ہیں کہ فطرت اور اسلام ایک چیز ہے جو چیز فطرت کی رو سے بری ہے وہ بری ہے اور جو چیز فطرت کی رو سے اچھی ہے وہ اچھی ہے "
صفحہ، 22
ایک اور جگہ وہ نیچریوں یعنی ڈارونی یا پھر ٹی ایچ ہگسلے کی تشکیکی فکر کے لوگوں کو ہی حقیقی مسلمان قرار دیتے نظر آتے ہیں۔

یہ ساری بحث موصوف اسلام دین فطرت کے تحت فرما رہے ہیں اور ان کی نگاہ میں درحقیقت نیچری اور ملحد ہی اسلام کو درست سمجھنے والے ہیں یہ اقتباسات مقالات سرسید سے لیے گئے ہیں۔
الاسلام ہو الفطرت و الفطرت ہی الاسلام : رسالہ تہذیب الاخلاق۔

دوسرا مظالطہ؛ دوسرا مغالطہ ہمیں یہ لگا کہ آج کے دور میں زمان و مکان کے حوالے سے جو کچھ بھی تحقیقات ہو رہی ہیں انہیں قرآن و سنت سے ثابت کردیا جائے اس گروہ کے حوالے سے برصغیر کے مسلمانوں میں وحید الدین خان صاحب کا نام لیا جا سکتا ہے۔
یہ مغالعہ پچھلے سے بھی شدید تر ہے آج کوئ ملٹی ورس یعنی متعدد کائناتوں کی بات کرتا ہے یا پھر ملٹیپل رئیلیٹیز یعنی متعدد حقیقتوں کی بات کرتا ہے یا پھر وقت میں سفر کی بات ہوتی ہے یا پھر خود وقت کیا ہے اور سپیس کیا ہے تو ایک عجیب و غریب مغالطہ ہمیں یہ لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمیں دین سے بھی ثابت کرنا چاہیے اب اس کیلئے ہمارا نوجود عالم کبھی کسی بلیک ہول میں سر مارتا ہے اور کبھی کسی بلیک ہول میں اپنی گردن پھنساتا ہے۔
ان تمام بحثوں سے پرے سائنس کی ایک اور بحث خود حقیقت سے متعلق بھی ہے کہ جہاں سائنس کے بڑے دماغ اس بات کا اقرار کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ انہیں ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ حقیقت کیا ہے۔

Marcelo Gleiser, a 60-year-old Brazil-born theoretical
physicist

مارسیلو گلیسر ایک ساٹھ سالہ نظری ایسٹرو فزیسسٹ ہے متعدد سائنسی ایوارڈز جیتنے والا یہ سائنس دان حقیقت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے۔

To me, science is one way of connecting with the mystery of existence. And if you think of it that way, the mystery of existence is something that we have wondered about ever since people began asking questions about who we are and where we come from. So while those questions are now part of scientific research, they are much, much older than science. I’m not talking about the science of materials, or high-temperature superconductivity, which is awesome and super important, but that’s not the kind of science I’m doing. I’m talking about science as part of a much grander and older sort of questioning about who we are in the big picture of the universe. To me, as a theoretical physicist and also someone who spends time out in the mountains, this sort of questioning offers a deeply spiritual connection with the world, through my mind and through my body. Einstein would have said the same thing, I think, with his cosmic religious feeling.

اہل ایمان کا یہ ماننا ہے کہ جو کچھ بھی مذہب نے ہمیں بتا دیا وہ مستقل ہے ہمیں اس کی ضرورت نہیں کہ اپنے دینی مصادر کو سائنس پر پیش کریں یا پھر سائنسی حقائق کو اپنے دینی مصادر سے ثابت کرنے کی کوشش کریں سائنس تو ابھی راستے میں ہے سائنس تو ابھی حقیقت کی تلاش میں ہے لیکن وحی تو پورے یقین کے ساتھ حقیقت کو بیان کررہی ہے بلکہ مجھے کہنے دیجیے کہ ہمارے یہاں تو مذہبی علمیت کے بعد خاص ذوقی علمیت یعنی حکم و معارف اور روحانی مکاشفات و مشاہدات کو بھی سائنسی علمیت پر فوقیت ہے۔
سچائی تو یہ ہے کہ جدید سائنسی علمیت سے متاثر اذہان نے جہاں جہاں دین کو سائنسی حقائق کے مطابق کرنے کی کوشش کی یا پھر سائنسی حقائق کو دین سے ثابت کرنے کی کوشش کی وہاں وہاں فتنے کا در وا ہوا ہے۔

سوشل میڈیا کے سائنس پرست
الحادی طرز فکر کا مشاہدہ کریں تو اس کی ایک مخصوص نفسیات نظر آتی ہے اور اسی نفسیات کے تحت الحادی ذہن کے مختلف درجات متعین کیے جا سکتے ہیں ، سوشل میڈیا خاص کر فیس بک پر نظر آنے والے ملحد درحقیقت متشککین ہیں ان کے پاس اپنے کوئی مخصوص دلائل و نظریات نہیں بلکہ یہ مختلف جگہوں سے مستعار دلائل کی ہی تکرار کرتے دکھائی دیتے ہیں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں , سوشل میڈیا کے صفحات کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک پوسٹ سامنے آئی کہ جو کچھ یوں تھی ۔

" ہم سب عقلی دلائل پر مُطمئن ہونے والے ، تشکیکی اور عقل پرست ہیں لیکن ہماری یہ صلاحیت دُوسروں کے مذاہب ، عقائد اور مسالک تک محدود ہے "

یہ ایک ارتیابی ذہن کا آرگیومنٹ ہے لیکن یہ آرگیومنٹ آیا کہاں سے اگر اس کی کھوج کی جائے تو درحقیت یہ کہیں اوپر سے آیا ہے گو کہ ہمارے سوشل میڈیا مصنفین کی عادت نہیں کہ وہ پرائمری حوالہ نقل کریں مگر یہاں پر شاید انہیں پرائمری حوالے کا علم ہی نہیں ہوتا کجا کہ وہ حوالہ پیش کرنے کی صلاحیت رکھیں سوشل میڈیا پر اسی قبیل کے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں۔

آج سے کچھ عرصہ پہلے ہندوستان کے معروف ملحد ، شاعر ، گیت نگار ، مفکر ، کہانی کار اور سیاسی کارکن جاوید اختر کو سن رہا تھا تو ایک انٹریو سامنے آیا ۔ یہ جاوید اختر صاحب کا فائے ڈی سوزا کو دیا گیا انٹرویو ہے جو ایک معروف انڈین اینکر اور صحافی ہیں ، جاوید اختر کا شمار جارح ملحدوں میں ہوتا ہے اور ان کے نزدیک مذہب کا سرے سے موجود نہ ہونا ہی دنیا کے لیے بہتر ہے اسی انٹریو میں وہ ایک جگہ کہتے ہیں۔
" ہر مذہبی اپنی بنیاد میں ملحد ہوتا ہے کیونکہ وہ دیگر مذاہب کو عقلی و تشکیکی دلائل پر رد کرتا ہے اسلیے ہر مذہبی اپنے مذہب کے حوالے سے تو معتقد ہوتا ہے لیکن دوسرے مذاہب کے حوالے سے اسکیپٹک اور اتھیسٹ ہی ہوتا ہے"
Javed Akhtar Explains Atheism | Faye D'Souza

یہ انٹرویو اس وقت لیا گیا کہ جب جاوید اختر وہ پہلے انڈین بنے کہ جسے Richard Dawkins Award دیا گیا ، ڈاکنز ایک معروف ملحد ہے ، مزید تحقیق کیجئے تو یہ دلیل خود جاوید اختر صاحب کے ذہن سے نمودار نہیں ہوتی بلکہ انہوں نے مستعار لی ہے درحقیقت یہ خود رچرڈ ڈاکنز کی ہی دی ہوئی دلیل ہے اور یہ اس نے اپنی کتاب The god delusion میں نقل کی ہے۔

اب غور کیجئے کوئی عالمی سطح کا ملحد ایک الحادی دلیل تراشتا ہے اور پھر وہ دلیل اس سے ہوتی ہوئی کسی مقامی سطح کے ملحد تک پہنچتی ہے جیسے ڈاکنز کی دلیل جاوید اختر تک پہنچی اور پھر سوشل میڈیا کا کوئی ملحد و متشکک اسے من و عن مستعار لے کر ہمارے سامنے پیش کردیتا اور نا صرف لبرل سیکولر بلکہ مذہبی بے وقوفوں کی بھی ایک بڑی تعداد اس پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتی دکھائی دیتی ہے۔

اب آئیے اس دلیل کی جانب کہ اس میں کتنی حقیقت ہے کیا واقعی ایک مذہب جب کسی دوسرے مذب کو رد کرتا ہے تو اس کے دلال عرف عام میں آج کے سکیپٹک یا متشکک کے دلائل ہوتے ہیں کیا واقعی وہ آج کے پیمانوں پر کوئی پریگمیٹک اپروچ اختیا کر رہا ہوتا ہے یا پھر اس کے پاس کچھ اپنی علمی بنیادیں بھی ہوتی ہیں ؟
اسلام کے حوالے سے تو یہ بات بہت واضح ہے کہ ہمارے دلائل کی بنیاد اول تو قرآن کریم ہے اور اس کے بعد احادیث رسول ﷺ صلی علیہ وسلم ہیں ، پھر فہم سلف ہے لیکن اس کے علاوہ بھی جب ہم اسلامی نکتہ نگاہ سے عقل کی گفتگو کرتے ہیں تو ہمارے پاس منطقی استدلال کی اپنی بنیادیں ہیں اور ہمارا اپنا علم الکلام ہے جب غزالی رح تہافت الفلاسفہ لکھتا ہے تو اپنے اصولوں پر لکھتا ہے جب ابن حزم رح الفصل في الملل والأهواء والنحل میں سفسطہ سے بحث کرتا ہے تو اپنے اصولوں پر کرتا ہے ، ابن تیمیہ رح کی الرد على المنطقيين میں اپنے اصول ہیں ہمیں اس بات کی ضرورت نہیں کہ اپنے مذہب کی حقانیت کو ثابت کرنے کیلئے کہیں اور سے دلائل مستعار لیں۔
اور یہ گفتگو مسیحی یا صیہونی مصادر میں بھی دکھائی دیتی ہے scholastic philosophy کے نام سے ہر ہر مذہب کے اپنے اپنے اصول و مبادی ہیں یہاں پر کچھ نام پیش کیے جا سکتے ہیں جیسے۔

Some of the main figures of scholasticism include Anselm of Canterbury (“the father of scholasticism"
Grant, Edward. God and Reason in the Middle Ages. Cambridge University Press, 2004, 56

اسی طرح Aquinas, Scotus, and Ockham بڑے ناموں میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔
اسی طرح ہندومت کے مصادر میں Sankhya, Yoga, Nyaya, Vaisheshika, Mimamsa and Vedanta شامل ہیں۔
Andrew Nicholson (2013), Unifying Hinduism: Philosophy and Identity in Indian Intellectual History, Columbia University Press, ISBN 978-0231149877, pages 2–5

تو یہ کہنا ہی ایک بے بنیاد اور بچگانہ بات ہے کہ ایک مذب دوسرے مذہب کو الحادی یا تشکیکی منطق پر رد کرتا ہے ، لیکن یہ گفتگو اعلیٰ علمی اذہان کیلے ہے سوشل میڈیا کا الحادی و تشکیکی ذہن نہ تو اسے سمجھنے کی استعداد رکھتا ہے اور نہ ہی یہ اس کا میدان ہے وہ صرف چند سرقہ شدہ بے حوالہ تحاریر پر کھڑا ہے اور کم عقل لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔

Comments

Avatar photo

ڈاکٹر حسیب احمد خان

ڈاکٹر حسیب احمد خان ہمدرد یونیورسٹی کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے شعبہ قرآن و سنت سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے الحاد، دہریت، مغربیت اور تجدد پسندی کے موضوعات پر لکھ رہے ہیں۔ شاعری کا شغف رکھتے ہیں، معروف شاعر اعجاز رحمانی مرحوم سے اصلاح لی ہے

Click here to post a comment