ہوم << علامہ اقبال کے فکری جہان کا ایک ہمہ گیر جائزہ - سید حسیب شاہ

علامہ اقبال کے فکری جہان کا ایک ہمہ گیر جائزہ - سید حسیب شاہ

علامہ محمد اقبال کا شمار بلا شک و شبہ بیسویں صدیکے بڑے شعراء میں ہوتا ہےـ انکو نہ صرف اردو بلکہ فارسی دونوں زبانوں پہ یکساں دسترس حاصل تھی اور ان دو زبانوں میں انکی کی گئ شاعری بے مثل اور ہمہ جہت ہے ـ ان کی شاعری محض حسنِ بیان کا مظہر نہیں بلکہ ایک فکری تحریک کا سرچشمہ ہے۔ علامہ اقبال کی شاعری میں مذہب سے لےکے،وطن،شخصیات،روحانیت اور نظامہائے حکومت ہر موضوع پہ اشعار پڑھنے کو ملتے ہیں ـ علامہ اقبال کی شاعری کی زبان اکثر بڑی سادہ اور عام فہم ہوتی ہےـ علامہ کا شاعرانہ تخیل بہت اثر آفریں،مسحورکن اور نصیحت آموز ہے ـ علامہ محمد اقبال کا زبان و بیان پہ عبور کمال درجے کا ہے خواہ وہ فارسی زبان ہو یا اردو ان کے اشعار میں استعمال کی گئ استعارات،تلمیحات اور کنایات حد درجہ متاثر کن ہوتی ہے ـ اقبال کی شاعری میں موضوعات کی کثرت، فروانی اور زبان پہ دسترس اور روانی کی وجہ سے ہر مکتبہ فکر کے لئے دلچسپی اور کشش کا باعث ہے ـ علامہ مغرب کی مادی ترقی کے اکثر ناقد نظر آتے ہیں جیسا کہ اپنی نظم 1907میں وہ فرماتے ہیں

"زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہوگا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خوار ہوگا
دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا"

کسی اور جگہ مغربی تہذیب پہ کچھ اس طرح نشتر زنی فرماتے ہیں ـ

"میر سپاہ ناسزا لشکریاں شکستہ صف
آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف
تیرے محیط میں کہیں گوہر زندگی نہیں
ڈھونڈ چکا میں موج موج دیکھ چکا صدف صدف
عشق بتاں سے ہاتھ اٹھا اپنی خودی میں ڈوب جا
نقش و نگار دیر میں خون جگر نہ کر تلف
خیرہ نہ کر سکا مجھے جلوہ دانش فرنگ
سرمہ ہے میری آنکھ کا خاک مدینہ و نجف"

لیکن اقبال کی یہ طنز صرف مغرب تک محدود نہیں بلکہ اسی سانس میں وہ طنز فرزندان تہذیب پہ بھی ہے کیونکہ وہ صوفی، ملا، فقیہہ حرم، پیر حرم کسی کو بھی اپنے تنقیدی محاسبے سے ماوراء نہیں سمجھتے۔ مشرقیت اور مغربیت کے خلاف ان کے یہ اعتراضات کچھ یوں ہیں ـ

"ضمیر مغرب ہے تاجرانہ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ، یہاں بدلتا نہیں زمانہ
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا پیران حرم کی آستیں
طبع مشرق کے لئے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام
اس قوم کو تجدید کا پیغام مبارک
ہے جس کے تصور میں فقط بزم شبانہ
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلید فرنگی کا بہانہ
یہاں مرض کا سبب ہے غلامی و تقلید
وہاں مرض کا سبب ہے نظام جمہور"

علامہ مغرب کی سائنسی ترقی اور عملیت پسندی کی ستائش کے باوجود اس سے کچھ زیادہ متاثر نظر نہیں آتے ـ

"نظر کو خِیرہ کرتی ہے چمک تہذیبِ حاضر کی
یہ صنّاعی مگر جھُوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
وہ حکمت ناز تھا جس پر خردمندانِ مغرب کو
ہوَس کے پنجۂ خُونیں میں تیغِ کارزاری ہے
تدبّر کی فسُوں کاری سے محکم ہو نہیں سکتا
جہاں میں جس تمدّن کی بِنا سرمایہ داری ہے
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی، جہنّم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے"

وہ جگہ جگہ امت مسلمہ کو انکی عظمت رفتہ کی یاد بھی دلا رہے ہوتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ ان کی ماضی کی خبط میں مبتلا ہونے کی بھی حوصلہ شکنی فرماتے ہیں عصر حاضر میں ان کی بے ہنری اور بے چارگی کو بھی تنقید کے ہدف پہ رکھنے کے ساتھ ان سے کچھ کر دکھانے کا تقاضا بھی کرتے ہیں ـ

"جس کو آتا نہیں دنیا میں کوئ فن،تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن،تم ہو
بجلیاں جس میں ہو آسودہ،وہ۔خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن،تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کی تجارت کرکے
کیا نہ بیچو گے جو مل جائیں صنم پتھر کے
صفحۂ دہر سے باطل کو مِٹایا کس نے؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چھُڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبِینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قُرآن کو سِینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آبا وہ تمھارے مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو"

اقبال ہمیشہ ملت اسلامیہ کی وحدت کے آرزومند رہے ہیں اور اس کے لئے وہ وطن کی قید کو بھی لازمی تصور نہیں کرتے ـ نظم "وطنیت" میں وہ یوں گویا ہوتے ہے ـ

" اس دور ميں مے اور ہے ، جام اور ہے جم اور
ساقي نے بنا کي روش لطف و ستم اور
مسلم نے بھي تعمير کيا اپنا حرم اور
تہذيب کے آزر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے
جو پيرہن اس کا ہے ، وہ مذہب کا کفن ہے
يہ بت کہ تراشيدہء تہذيب نوي ہے
غارت گر کاشانہء دين نبوي ہے
بازو ترا توحيد کي قوت سے قوي ہے
اسلام ترا ديس ہے ، تو مصطفوي ہے
نظارہ ديرينہ زمانے کو دکھا دے
اے مصطفوي خاک ميں اس بت کو ملا دے !
ہو قيد مقامي تو نتيجہ ہے تباہي
رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہي
ہے ترک وطن سنت محبوب الہي
دے تو بھي نبوت کي صداقت پہ گواہي
گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے
ارشاد نبوت ميں وطن اور ہي کچھ ہے
اقوام جہاں ميں ہے رقابت تو اسي سے
تسخير ہے مقصود تجارت تو اسي سے
خالي ہے صداقت سے سياست تو اسي سے
کمزور کا گھر ہوتا ہے غارت تو اسي سے
اقوام ميں مخلوق خدا بٹتي ہے اس سے
قوميت اسلام کے جڑ کٹتي ہے اس سے
ثان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے،وہ مذہب کا کفن ہے"

ان کے نزدیک قوم پرستی کی ہر وہ شکل قبیح ہے جو امت کی تقسیم کا باعث بنے اس لئے وہ ہمیشہ ایک ایسی عالم گیر اسلامی ریاست چاہتے تھے کہ جو مسلمانوں کی روحانی و تہذیبی ہر حوالے سے بقاء کا ذریعہ ہو اسی لئے وہ انیس سو اکیس میں انگریزوں کے ہاتھوں خلافت عثمانیہ کے خاتمے پہ بڑے رنجیدہ نظر آئے اور اس کا اظہار "طلوع اسلام" میں یوں فرمایا:
"کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
ربود آں ترک شیرازی دل تبریز و کابل را
صبا کرتی ہے بوئے گل سے اپنا ہم سفر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا تو کیا غم ہے
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا"

لیکن دوسری طرف وہ" ترانہ ملی"میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک "جداگانہ وطن" کا تصور بھی دیتے ہیں:

"چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
توحید کی امانت سینوں میں ہے ہمارے
آساں نہیں مٹانا نام و نشاں ہمارا"

اقبال کی شاعری میں"خودی" کو ایک ستون کی حیثیت حاصل ہے۔اقبال اپنے قاری کو اپنے اکثر اشعار میں خودی کی پہچان کی تلقین کرتے ہوئے نظر آتے ہیں

"خِردمندوں سے کیا پُوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ مَیں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہا کیا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پُوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے"

لیکن اپنے کچھ اشعار میں وہ انسان کی روحانی اتقاء کے لئے خودی کے مٹانے کو ہی نگاہ خداوندی میں ایک مستحسن عمل سمجھتے ہیں دراصل وہ ایک ایسی خودی کا تصور دے رہے ہوتے ہے جو فنا کے مراحل سے گزرکر ہی دوام کی شکل اختیار کر لیتی ہےـ
اقبال ہر جگہ مسلمانوں کو فکری پسماندگی، تہذیبی غلامی اور روحانی زوال سے نکلنے اور خودی، علم، وحدت اور قربِ الٰہی کو پانے کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہے ان کے کلام میں پائ جانے والی یہ تضادات دراصل انکے متوازن اور جامع فکری نظام کی تشکیل کی ایک کوشش ہے نہ کہ فکری انتشار کا اظہار جس کی طرف بعض نقاد اشارہ کرتے ہیں ۔اقبال نے اپنے دور کے ہر تاریخی، سیاسی، فلسفیانہ اور تہذیبی شخصیت کو اپنے اشعار کا موضوع بنایا جنھیں اپنے دور میں شہرت اور عروج ملا خواہ وہ اطالوی فاشسٹ مسولینی ہو، کمیونسٹ مارکس و لیلن، نازی ہٹلر ہو یا نظریہ ارتقاء کے موجد سائنس دان ڈارون ہو
اقبال ایک طرف مارکس کے اقتصادی نظریات سے متاثر نظر آتے ہے اور دوسری طرف اس کی دینی روح سے خالی مادہ پرستانہ فلسفے کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہے

"روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب

وہ کلیم بے تجلی وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر ولیکن در بغل دارد کتاب

کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب

اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب"

اقبال نے مسولینی کا ذکر" مسولینی " نظم میں کچھ یوں کیا:

کيا زمانے سے نرالا ہے مسوليني کا جرم!
بے محل بگڑا ہے معصومان يورپ کا مزاج

ميں پھٹکتا ہوں تو چھلني کو برا لگتا ہے کيوں
ہيں سبھي تہذيب کے اوزار ! تو چھلني ، ميں چھاج

ميرے سودائے ملوکيت کو ٹھکراتے ہو تم
تم نے کيا توڑے نہيں کمزور قوموں کے زجاج؟"

اقبال فسطائیت (Fascism) کے لئے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار فرماتے ہیں اور روحانیت کے بغیر کسی بھی نظام اور قیادت کو خطرناک قرار دیتے ہیں ـ

اقبال "لینن خدا کے حضور میں" ایک اہم نظم ہے، جس میں وہ لینن کی روح کو خدا سے ہم کلام کرتےہوئے دکھائ دیتے ہیں:

"یہ علم یہ حکمت یہ تدبر یہ حکومت
پیتے ہیں لہو دیتے ہیں تعلیم مساوات

بیکاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات

وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات

کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات"

اس نظم میں اقبال ایک طرف اگر لینن کے انقلابی جذبے کی تعریف و توصیف فرماتے ہیں تو دوسری طرف اس کو روحانیت سے خالی ہونے کی بنیاد پہ سند جواز سے محروم قرار دیتے ہیں ـ

اپنی نظم "لا دین سیاست" میں علامہ اقبال یوں گویا ہوتے ہیں ـ

"جو بات حق ہو ، وہ مجھ سے چھپي نہيں رہتي
خدا نے مجھ کو ديا ہے دل خبير و بصير

مري نگاہ ميں ہے يہ سياست لا ديں
کنيز اہرمن و دوں نہاد و مردہ ضمير

ہوئي ہے ترک کليسا سے حاکمي آزاد
فرنگيوں کي سياست ہے ديو بے زنجير

متاع غير پہ ہوتي ہے جب نظر اس کي
تو ہيں ہراول لشکر کليسيا کے سفير"

اقبال نے "صحرا"، "بلوچ" اور "افغان" کو اپنی شاعری میں بہادری، آزادی، فطری سادگی اور دینی حمیت کی علامت کے طور پر پیش کیا: نظم "خوشحال خان کی وصیت" میں وہ افغانوں کی کچھ اس طرح مدح سرائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ـ

"قبائل ہوں ملت کي وحدت ميں گم

کہ ہو نام افغانيوں کا بلند

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہيں کمند

مغل سے کسي طرح کمتر نہيں
قہستاں کا يہ بچہء ارجمند

کہوں تجھ سے اے ہم نشيں دل کي بات
وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند

اڑا کر نہ لائے جہاں باد کوہ
مغل شہسواروں کي گرد سمند!"

ایک فارسی نظم میں وہ افغانوں کی تحسین کچھ یوں فرما رہے ہوتے ہیں ـ

آسیا یک پیکر آب وگل است
ملت افغان در آں پیکر دل است

از کشاد او کشاد آسیا
از فساد او فساد آسیا

ترجمہ،ایشیا پانی اورمٹی کا ایک وجود ہے اورافغانستان اس کے اندر دل کی حیثیت رکھتا ہے ـ اس کی خوشحالی سے ایشیا کی خوشحالی مشروط ہے اوراسکی بگاڑ میں ایشیا کی بگاڑ ہے ـ

"بڈھے بلوچ کی نصیحت بیٹے کو" میں علامہ اقبال بلوچ غیرت ملی کو اس طرح بیان کرتے ہیں ـ

ہو تيرے بياباں کي ہوا تجھ کو گوارا
اس دشت سے بہتر ہے نہ دلي نہ بخارا

جس سمت ميں چاہے صفت سيل رواں چل
وادي يہ ہماري ہے، وہ صحرا بھي ہمارا

غيرت ہے بڑي چيز جہان تگ و دو ميں
پہناتي ہے درويش کو تاج سر دارا

حاصل کسي کامل سے يہ پوشيدہ ہنر کر
کہتے ہيں کہ شيشے کو بنا سکتے ہيں خارا

افراد کے ہاتھوں ميں ہے اقوام کي تقدير
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

الغرض علامہ کا فکری جہان ہمہ گیر ہے ـ اس میں فکر خودی اور روحانیت کا امتزاج ،مشرق و مغرب کا تنقیدی محاسبہ،دین اور سیاست کی وحدت، غلامی سے آزادی اور تقلید سے تخلیق کی طرف سفر، اسلامی تصور قومیت اور ریاست عالم کی جستجو سب کچھ اس میں شامل ہے ـ