ہوم << بے بنیاد و جھوٹی خبریں پھیلانے میں سوشل میڈیا کا کردار - عاصمہ حسن

بے بنیاد و جھوٹی خبریں پھیلانے میں سوشل میڈیا کا کردار - عاصمہ حسن

جب ہم نئے دور کی بات کرتے ہیں تو لوگوں کو خبروں کے لیے زیادہ تر سوشل میڈیا پر انحصار کرتے دیکھا گیا ہے. ایک وہ بھی وقت تھا جب مصدقہ خبر اور حالاتِ حاضرہ کے لیے اخبار پڑھا جاتا تھا. صبح سویرے ہر گھر میں اخبار کا آنا معمول کا حصہ تھا اور اخبار میں خبر اسی وقت شائع ہوتی تھی جب اس کی قابلِ اعتماد ذرائع سے تصدیق ہو جاتی تھی، خبر لگاتے وقت بہت احتیاط برتی جاتی تھی اور کبھی اگر کوئی غلط بات شائع ہو جاتی تو اگلے ہی روز تردید کے ساتھ معافی نامہ بھی شائع ہو جاتا تھا، لیکن اب چونکہ وقت بدل گیا ہے اور لوگ ڈیجیٹلائز ہو گئے ہیں، اس لیے اخبارات کی جگہ موبائل نے لے لی ہے.

ا ب چونکہ ہر ایک کے پاس موبائل آ گیا ہے، لہذا ہر دوسرا بندہ وی لاگر اور سوشل میڈیا انفلوئنسر بن گیا ہے. ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ سب سے پہلے وہ لوگوں تک خبر پہنچا دے تاکہ زیادہ سے زیادہ ویوز اور شیئرز مل جائیں. اب چاہے خبر سچی ہو یا جھوٹی اس سے اِن لوگوں یا نیوز چینلز کو کوئی غرض یا مطلب نہیں ہوتا .
اب آتے ہیں دوسری طرف اور بات کرتے ہیں ان لوگوں کی جو سوشل میڈیا کی خبروں پر یقین رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کا حصہ سمجھتے ہوئے وٹس ایپ اور دیگر پلیٹ فارمز پر شیئر کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تلقین کرتے ہیں کہ آگے سے آگے شیئر کیا جائے. اگر ایسا نہ کیا تو باقاعدہ گناہ کے مرتکب ہوں گے .
پاک فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر جو کہ اب فیلڈ مارشل ہیں نے اس ضمن میں اپنی تقریر میں وضاحت کی کہ فارورڈ ایز رسیوڈ ایک غیر مناسب عمل ہے. اس بات کا ذکر قرآن مجید میں بھی آیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ " اگر کوئی فاسق تمھارے پاس خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لو' کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانستگی میں نقصان پہنچا بیٹھو اور اپنے کیے پر پشیمان ہو " . یعنی بغیر تصدیق کے کبھی کوئی بات نہ کریں، نہ ہی آگے پھیلائیں اور نہ ہی اُس پر یقین کریں.

جیسے تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ہر چیز کے منفی اور مثبت پہلو ہوتے ہیں. اب یہ دیکھنے کے زاویہ پر منحصر ہے یا دوسرے لفظوں میں ہم پر منحصر ہے کہ ہم کیسے اس چیز کا استعمال کرتے ہیں. افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوشل میڈیا کا کردار عمومی طور پر منفی ہی رہا ہے. اسے زیادہ تر منفی پروپیگنڈے، غلط اور اخلاق سے گرے مواد کو وائرل کرنے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے. حالانکہ اس کا درست طریقے سے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے. جہاں برے لوگ ہوتے ہیں وہیں اچھے لوگ بھی موجود ہیں جو دن رات محنت کر کے اپنے ملک اور نوجوان نسل کی بہتری اور شاندار مستقبل کے لیے دن رات کام کر رہے ہیں. لیکن المیہ یہ ہے کہ ان کے کام کو سراہا نہیں جاتا اور نہ ہی ان کو پذیرائی حاصل ہوتی ہے .

سوشل میڈیا جس میں فیس بک' اسٹاگرام' ٹک ٹاک ' یوٹیوب وغیرہ شامل ہیں ان کو ایسے لوگ چلاتے ہیں جن کا مقصدِ حیات بظاہر صرف اور صرف منفی سوچ' تضحیک آموز مواد کی تشریح کرنا ہی ہوتا ہے . اگر سیاسی جماعتوں کی مثال لی جائے تو وہ بھی ایک دوسرے پر گند اچھالتے' کردار کشی کرتے ہی نظر آتے ہیں. اگر ڈیلی ویلاگرز کی بات کی جائے تو روزانہ وڈیو ڈالنے اور ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں اپنے گھر کے اندر کی وڈیوز حتٰی کہ گھر والوں کو بھی ریکارڈ کرتے نظر آتے ہیں. اب روز کا کیا کانٹینٹ بنائیں لہٰذا اوچھی حرکتوں پر اتر آتے ہیں، اپنے جسم کی نمائش کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے ان کو شرم تک نہیں آتی. ایسے واحیات کانٹینٹ پر ان کو ویوز بھی ملتے ہیں کیونکہ ان کو دیکھنے سننے والا طبقہ بھی انہی کی طرح جاہل و اَن پڑھ ہے جن کو وقت کے ضیاع سے کوئی سروکار نہیں، بس ان کو سستی انٹرٹینمنٹ چاہئیے جس سے وہ دل بہلا سکیں.

اچھا اور معیاری کانٹینٹ بنانا آسان نہیں ہوتا کیونکہ اس کے لیے دماغ کے ساتھ ساتھ محنت کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے، جبکہ آج کل کے ٹک ٹاکرز محنت کہ بجائے صرف دن رات ڈالر کمانے کے لیے ہر حد سے گزرنے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں، اور لوگوں کے دل و دماغ میں وہی خناس بھرتے رہتے ہیں. ان میں سے اکثر پڑھے لکھے نہیں ہوتے اور نہ ہی کوئی ہنر ان کے پاس ہوتا ہے، بس پیسہ کمانے کا یہ آسان طریقہ ان کے ہاتھ لگ گیا ہے. کچھ لوگوں نے فیس بک پیجز بنائے ہی صرف منفی کاموں کے لیے ہیں ـ غلط ، غیر تصدیق شدہ سنسنی خیز خبروں کی اشاعت، منفی اور غلیظ پروپیگنڈے، کردار کشی، عزتوں کو اچھالنا اُن کی اولین ترجیحات میں شامل ہے.

اب سوشل میڈیا پر بولنا آسان ہو گیا ہے، جس کے دل میں جو آتا ہے بول دیتا ہے اور جو چاہتا ہے دکھا دیتا ہے. اب تصاویر یا وڈیو بنانے کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں پڑتی، کیونکہ موبائل ہر ایک کے ہاتھ میں ہے، لوگوں کی چھپ کر وڈیو یا تصاویر بنا کر بس ایک پوسٹ ڈال دی جاتی ہے اور پھر ان کے جیسے کئی لوگ بغیر کچھ سوچے سمجھے آگے سے آگے شئیر کرتے چلے جاتے ہیں. ایسی حرکتوں سے بین الاقوامی سطح پر بھی ہمارے ملک کی جگ ہنسائی ہوتی ہے لیکن کسی کو پرواہ تک نہیں ہوتی.

آج کے دور میں صحیح اور غلط کی پہچان مٹ گئی ہے. رہی سہی کسر اے آئی نے پوری کر دی ہے جو ہو بہو شکل اور آواز تک بنا لیتا ہے. کس بات یا خبر پر یقین کیا جائے اور کس پر نہیں یہ اب ایک معمہ بن کر رہ گیا ہے . اِسی کشمکش اور تگ و دو میں اکثر اہم اور صحیح خبر بھی جھوٹ معلوم ہوتی ہے. ایسے میں حکومتی اداروں کو چاہیے کہ سخت سے سخت اقدامات کریں. ایسی پالیسیاں ترتیب دیں کہ منفی اور اخلاق سے گرے ہوئے کانٹینٹ کو اپ لوڈ ہونے سے روکا جا سکے، ان کی سرزنش کی جا سکے. ایسے قوانین نہ صرف متعین کیے جائیں بلکہ ان پر سختی سے عمل کروایا جائے کہ کسی کی کردار کشی نہ ہو، لوگوں کی نجی زندگی کا خیال کیا جائے، کسی کی ذاتی معلومات یا وڈیوز لیک نہ ہوں، کسی کی اجازت کے بغیر ان کی تصاویر یا وڈیوز کوئی بھی کسی بھی پلیٹ فارم پر نہ لگا سکے اور اگر کوئی لگائے تو اسے قوانین کے مطابق سزا دی جائے. مزید یہ کہ عریاں لباس پہننا، اپنے جسم کی نمائش کرنا، اخلا ق سے گری باتیں اور حرکتیں کرنے والوں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے. اِس سلسلے میں برقی میڈیا اپنا مثبت کردار ادا کرے .

غلط،منفی' جھوٹی، بے بنیاد اور غیر تصدیق شدہ خبر کو کسی بھی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر شائع کرنے پر سزا رکھی جائے تاکہ اس طرح مصدقہ خبر ہی لوگوں تک پہنچ سکے . مزید یہ کہ حکومتی اداروں کو اپنے تصدیق شدہ سوشل میڈیا پیجز بنانے چاہیے اور عوام الناس کو براہ راست ہر خبر، سفری معلومات، قوانین اور قانون توڑنے کی سزا، تعمیراتی منصوبوں، ٹریفک کے حالات اور دیگر معلومات فراہم کی جائی، تاکہ لوگ بے بنیاد خبروں کی زد میں نہ آئیں اور کسی بھی معاملے میں ابہام کا شکار نہ ہوں .

اس وقت عوام میں شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام حکومتی سطح پر ہونا چاہیے تاکہ ہم اپنی نوجوان نسل کی درست سمت میں رہنمائی کر سکیں. ان کے مستقبل کو محفوظ کر سکیں. ان کے معصوم ذہنوں کی مثبت سوچ، اعلیٰ اخلاق اور محبت کی گوندھی مٹی سے آبیاری کرنا ہم والدین، اساتذہ اور حکومتی اداروں کی ذمہ داری ہے اور یہی اولین ترجیح بھی ہونی چاہیے. کسی بھی پلیٹ فارم پر اکاؤنٹ بنانے کی عمر کی حد مقرر ہونی چاہیے کیونکہ شہرت کو ہضم کرنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے. مزید یہ کہ چھوٹی عمر میں مقبولیت کے ساتھ پیسے کی لگن کئی غلط کام بھی کروا لیتی ہے. والدین کی بھی تربیتی ورکشاپ ہونی چاہیے کہ وہ کیسے اپنے بچوں کی اس ڈیجیٹل دور میں تربیت کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کو غلط راہ پر چلنے سے بروقت روک سکتے ہیں.

Comments

Avatar photo

عاصمہ حسن

عاصمہ حسن کا تعلق باغوں کے شہر لاہور سے ہے۔ شعبہ تدریس سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے' پڑھنے کا بھی شوق رکھتی ہیں۔ معیار زندگی نامی کتاب کی مصنفہ ہیں۔ کئی قومی اخبارات میں کالم لکھتی ہیں. اپنی تحریروں سے ہر عمر کے لوگوں بالخصوص نوجوان نسل کو مثبت پیغام دیتی ہیں۔ آسان اور عام فہم لفظوں کا چناؤ ہی ان کا خاصا ہے۔ ان کا قلم ایک دہائی سے اپنے مقصد پر ڈٹا ہوا ہے۔ منزل کی کس کو فکر ہے، دلکش نظارے ہی دل لبھانے کو کافی ہیں۔

Click here to post a comment