ہوم << ایران-اسرائیل: جنگ اور انصاف کا متزلزل ترازو - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

ایران-اسرائیل: جنگ اور انصاف کا متزلزل ترازو - اخلاق احمد ساغر ایڈووکیٹ

دنیا آج جس نازک موڑ پر کھڑی ہے، وہاں طاقت، انصاف، امن، اور میڈیا کا باہمی تعلق سب سے زیادہ بے نقاب ہو چکا ہے۔ ایران اور اسرائیل کے مابین حالیہ کشیدگی نے صرف مشرق وسطیٰ کو ایک نئے جنگی مرحلے میں داخل نہیں کیا، بلکہ مغربی میڈیا کے دوغلے پن کو بھی ایک بار پھر دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
ایران پر الزامات، اسرائیل پر خاموشی

مغربی میڈیا چیخ چیخ کر یہ بتا رہا ہے کہ تہران خالی ہو رہا ہے، لوگ پناہ گاہیں ڈھونڈ رہے ہیں، ایران نے ایٹم بم بنانے کی کوشش کی، ایران خطے میں عدم استحکام پھیلا رہا ہے۔ لیکن یہی میڈیا یہ نہیں بتا رہا کہ تل ابیب بھی خوف کے سائے میں ہے، اور اسرائیل وہ ملک ہے جو دہائیوں سے ایٹمی اسلحہ کا حامل ہے بغیر کسی بین الاقوامی معاہدے کے، بغیر کسی عالمی معائنے کے۔

ایران نے NPT (Non-Proliferation Treaty) پر دستخط کیے ہوئے ہیں، اس کی ایٹمی تنصیبات IAEA کے لیے کھلی رہی ہیں، لیکن اسرائیل نہ صرف اس معاہدے سے باہر ہے بلکہ اس نے کبھی بھی IAEA کو اپنی ایٹمی تنصیبات کے قریب تک نہیں آنے دیا۔ پھر بھی مغربی میڈیا ایران کو "خطرہ" اور اسرائیل کو "تحفظ کا متلاشی" ملک پیش کرتا ہے۔

فلسطین: لفظوں کی جنگ میں ہارنے والی قوم
میڈیا کی طاقت صرف خبر دکھانے میں نہیں، بلکہ خبر کی تشکیل میں ہے۔ فلسطین میں بچوں اور عورتوں کے قتل عام میں ملوث اسرائیلی شہریوں کو مغربی میڈیا "وجیلانٹے" کہتا ہے، دہشت گرد نہیں۔ صیہونی بستیوں کو "غاصب آبادیاں" کہنے کے بجائے "سیٹلمنٹس" لکھتا ہے۔ وہ علاقوں کو جنہیں اقوام متحدہ نے واضح طور پر "مقبوضہ فلسطین" قرار دیا ہے، "اسرائیل" کہہ کر گویا قبضے کو قانونی حیثیت دے دیتا ہے۔

احتجاج کہاں نظر آتا ہے؟
ایران میں اگر چند لوگ حکومت کے خلاف احتجاج کریں تو CNN، BBC، اور دیگر مغربی ادارے اس کو "انقلاب کی چنگاری" بنا کر پیش کرتے ہیں۔ لیکن اگر لاکھوں ایرانی شہری اسرائیل کے خلاف احتجاج کریں، یا اگر خود اسرائیل میں نیتن یاہو کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرے ہوں، تو یہ منظر کہیں غائب ہو جاتا ہے۔ میڈیا کا کیمرہ صرف وہی دکھاتا ہے جس سے "بیانیہ" بنتا ہے، حقیقت نہیں۔

طاقت کے خلاف سچ کا مقدمہ
ایران نے کبھی کسی ملک پر قبضہ نہیں کیا۔ اس نے دفاع کیا، اپنی خودمختاری کی حفاظت کی، فلسطینیوں کی اخلاقی حمایت کی۔ اس کے برعکس اسرائیل نے فلسطین، لبنان، شام، اور اردن کی زمین پر قبضہ کر کے خطے کو مسلسل جنگ و جدل میں جھونک رکھا ہے۔ پھر بھی ایران کو "خطرہ" کہا جاتا ہے اور اسرائیل کو "مدافع"۔ یہ وہ توازن ہے جو صرف طاقت کے بل بوتے پر قائم کیا گیا ہے انصاف کے نہیں۔

سفید فام تہذیب کا اندھا عقیدہ
سوال یہ نہیں کہ ایران ٹھیک ہے یا غلط، سوال یہ ہے کہ انصاف کا ترازو اتنا جھک کیوں گیا ہے؟ مغرب، جو انسانی حقوق اور جمہوریت کا دعویدار ہے، اپنے میڈیا کے ذریعے جب اسرائیلی بمباری کو "حق دفاع" اور فلسطینی مزاحمت کو "دہشت گردی" کہتا ہے، تو پھر اس کی تہذیبی صداقت بھی مشکوک ہو جاتی ہے۔

خاص نکتہ: تاریخ فیصلہ کرے گی
ایران اور اسرائیل کی اس کشیدگی کا فیصلہ شاید میدان جنگ میں ہو، لیکن اخلاقی فیصلہ تاریخ کرے گی، وہ تاریخ جو نہ CNN لکھے گا، نہ BBC بلکہ وہ تاریخ جو ان ماؤں کے آنسو لکھیں گی جن کے بچے غزہ میں ملبے تلے دفن ہوئے۔ اور وہ بچے بھی لکھیں گے جو تہران میں خوف کی نیند سوئے، کیونکہ دنیا نے طاقت کو سچ سمجھ لیا، اور سچ کو بے آواز کر دیا۔