دشمن قوتیں جب کسی قوم کو مغلوب کرنا چاہتی ہیں تو سب سے پہلے اس کی نوجوان نسل کو نشانہ بناتی ہیں، تاکہ انہیں ان کے دینی، علمی، تہذیبی ورثے سے کاٹ کر فکری طور پر مغلوب کر سکیں۔ ایسے میں نوجوانوں کا کردار محض دفاعی نہیں بلکہ تہذیبی احیا اور فکری قیادت کے لیے کلیدی اور فیصلہ کن بن جاتا ہے۔ نظریاتی جنگ کے اس نازک دور میں نوجوان صرف سننے، دیکھنے اور شکایت کرنے والے نہ بنیں، بلکہ عملی میدان کے مجاہد، فکری جہاد کے علمبردار، اور تہذیبی احیاء کے معمار بنیں۔یہ دور نظریاتی جنگ کا دور ہے، اور ہر مسلمان نوجوان ایک مورچے کا سپاہی ہے۔ علم، کردار، خود اعتمادی، اور حکمت کے ہتھیار سے لیس ہو کر ہم اس جنگ میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔اس سلسلے میں نوجوان ،بالخصوص علمائے کرام کیسے اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں،اس کے لیے کچھ راہ نما اصول ذیل میں درج کیے جاتے ہیں:
فکری بنیادوں کی مضبوطی اور تنقیدی شعور
(Strengthening Intellectual Foundations & Critical Consciousness)
نوجوانوں کو "جتنا سنا، اتنا مانا" کے بجائے "جتنا سمجھا، اتنا اپنایا" کے اصول پر آنا ہوگا۔انہیں یہ سیکھنا ہوگا کہ خبروں، سوشل میڈیا مواد، نصابی بیانیوں اور مغربی اداروں سے آئے افکار کو تحقیق، تدبر اور تنقیدی بصیرت سے پرکھا جائے۔اپنے دین، عقائد، تہذیب اور ورثے کی گہرائی سے واقفیت اور شعوری وابستگی لازمی ہے۔مغربی نظریات جیسے لبرلزم، فیمینزم، سیکولرزم، الحاد کو صرف سطحی انداز میں نہیں، بلکہ ان کے فکری پس منظر، تاریخی ارتقاء، اور نتیجہ خیز اثرات کی روشنی میں سمجھنا ہوگا۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ نہ صرف دینی علوم بلکہ فلسفہ، سوشیالوجی، نفسیات، تاریخ، اور جدید سیاست جیسے شعبوں میں بھی مہارت حاصل کریں۔
اہم مفکرین کی خدمات سے آگاہی
نوجوانوں کوان عظیم مفکرین کے حالات اور خدمات کا علم ہوناچاہیے،جنھوں نے مسلم امہ کوایک نئی جہت دی،ان کی منتشرصفوں کویک جاکیا،اُن کے سوئے ہوئے جذبات اور ٹوٹتی امیدوں کوجلا بخشی اور اُنھیں پھرایک امتِ واحدہ بناکر عروج کے سفرپرگام زن کیا:
* امام غزالیؒ: منطق و فلسفہ کے میدان میں اسلامی عقائد کا دفاع کیا۔ "احیاء علوم الدین" اور "تھاهافت الفلاسفہ" ان کے شاہکار ہیں۔
* علامہ محمد اقبالؒ: نوجوانوں کو خودی، غیرت، اور دینی تشخص کا سبق دیا۔ مغرب پر تنقید اور اسلامی نشاةِ ثانیہ کا خواب دکھایا۔
* سید قطبؒ شہید: قرآن کو معاشرتی، فکری اور سیاسی رہنمائی کا منبع بتایا، "فی ظلال القرآن" جیسی تفسیر پیش کی۔
* شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ: فلسفہ، منطق اور فرقوں کا علمی رد کیا۔ دین کی اصولوں پر واپسی اور دلیل پر زور دیا۔
* شاہ ولی اللہؒ محدث دہلوی: ہندوستان میں اسلامی علوم کی تجدید کی، "حجۃ اللہ البالغہ" کے ذریعے معاشرتی اور دینی اصلاحات کی بنیاد رکھی۔
(3)عملی کردار سازی اور ثقافتی خود اعتمادی
(Practical Character Building & Cultural Confidence)
صرف زبان سے اسلامی فکر کا دفاع نہیں، اعمال اور کردار سے بھی اس کا ثبوت دینا ہوگا۔تقویٰ، صدق، امانت، حیا، اخلاص، ضبط نفس اور وقت کی قدر جیسی صفات نوجوانوں کو دلیل کا مجسمہ بناتی ہیں۔اپنی زبان، لباس، سلام، طرزِ گفتگو، ادب، نشست و برخاست سے مسلمان کی جھلک آنی چاہیے۔مغربی تہذیب کی تقلید کے بجائے اسلامی تہذیب پر فخر نوجوانوں کو فکری یلغار کے اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔
(4)فعال ابلاغ اور فکری راہ نمائی
(Active Communication & Intellectual Guidance)
نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اسلامی بیانیہ کے مضبوط نمائندے بنیں۔علمی و اخلاقی انداز میں پوڈکاسٹ، ویڈیوز، تھریڈز، بلاگز کے ذریعے مثبت فکری مواد فراہم کریں۔یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اسلامی اسٹڈی سرکلز، فکری نشستیں اور سوال و جواب کی نشستیں منعقد کی جائیں۔اختلافات کو لڑائی میں بدلنے کے بجائے علمی مکالمے کے ذریعے حل کیا جائے۔اسلامی تھنکنگ فورمز اور قرآنی سوسائٹیز جیسے پلیٹ فارم طلبہ کو شعوری طور پر جوڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ان پلیٹ فارمز پر اسلامی افکار کو علمی و تحقیقی انداز میں متعارف کرایا جائے۔
(5)باطل نظریات سے فکری جہاد
* لبرلزم، دہریت، الحاد، سیکولرزم، فری تھنکرزم، نیو ایج اسپریچوالزم جیسے نظریات کو تحقیقی نظر سے جانچنا اور ان کے داخلی تضادات کو نمایاں کرنا فکری جہاد کا حصہ ہے۔
(6)امت کے ساتھ ربط و ہم آہنگی
(Connection and Harmony with the Ummah)
نوجوان صرف پاکستانی، عرب، یا ترک نہ بنیں بلکہ امتِ مسلمہ کا فرد سمجھیں۔دنیا بھر کے مسلمانوں کے درد کو اپنا درد بنائیں۔مسلمانوں کے درمیان فرقہ واریت، تعصب، نسلی برتری کو مسترد کر کے اسلامی بھائی چارے اور عالمی وحدت کو فروغ دیں۔نوجوانوں کے ذریعے امت کے مختلف حصوں کو فکری و دینی رشتے میں جوڑنا ممکن ہے۔
تبصرہ لکھیے