ہوم << کراچی کی مکرانی اردو - عبیداللہ کیہر

کراچی کی مکرانی اردو - عبیداللہ کیہر

OLYMPUS DIGITAL CAMERA

کراچی میں بولی جانے والی اردو کے کئی لہجے ہیں، اس لئے کہ یہاں ملک بھر سے جو لوگ آ کر آباد ہوئے ہیں، انہوں نے اپنی اپنی بولیوں کے مطابق اردو کے لہجے بنائے ہیں۔ ان میں پشتو لہجہ، سندھی لہجہ، پنجابی لہجہ، سرائیکی لہجہ، بلوچی لہجہ، گلگت بلتستانی لہجہ، تھری لہجہ اور پوٹھوہاری و کشمیری لہجے وغیرہ شامل ہیں۔

کراچی کے ان لہجوں میں سب سے نمایاں مکرانی لہجہ ہے جو سب سے زیادہ دلچسپ، بے تکلف اور مزیدار ہے، بلکہ اس میں تو کئی الفاظ ایسے بھی ہیں جو اردو میں بولے ہی نہیں جاتے۔

مثلاً اگر کوئی مکرانی کسی سے ناراض ہو تو اس سے یہ نہیں کہے گا کہ چلے جاؤ میری نظروں سے دور ہو جاؤ، بلکہ کہے گا :
”اڑے جاؤ اِدر سے گرک (غرق) ہو جاؤ“
یعنی یہاں سے نکلو، کہیں غرق ہو جاؤ، پانی میں ڈوب کر مرو، سمندر میں غرق ہو جاؤ۔

اسی طرح اگر مکرانی کو کسی پر غصہ آئے اور وہ اسے لعنت ملامت کرنا چاہے تو وہ اپنے ہاتھ کی ساری انگلیاں یا زیادہ زور دینے کیلئے صرف تین انگلیاں کھول کر اسے لعنت دیتے ہوئے الفاظ کو لمبا کھینچ کر کہے گا :
” تُھوووو ڑے ےےے ۔۔۔“
یعنی میں تھوکتا ہوں تجھ پر لعنتی کردار

مکرانی لفظ ”اڑے“ بہت استعمال کرتے ہیں :
اڑے ادھر آؤ نی
اڑے کدھر جاتا ہے؟
اڑے چپ کرو
اڑے بے تکلفی کیلئے بھی بولا جاتا ہے اور ڈانٹنے، رعب جھاڑنے کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ یہی لفظ اڑے جب اردو میں آیا تو اس صورتحال میں استعمال ہوا کہ جب کوئی اچانک گر پڑے یا کوئی انوکھا کام ہو جائے۔ مثلاً کوئی ایکسیڈنٹ ہو جائے تو جیسے ہی کسی کی نظر اس پر پڑے تو وہ چونک کر کہتا ہے : اڑے …

کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جو ہیں تو اردو ہی کے، لیکن اس کی مکرانی ادائیگی مختلف ہے۔ مثلاً کوئی شخص تنگ کر رہا ہو یا بار بار بلا وجہ سامنے آ رہا ہو تو مکرانی اسے یہ نہیں کے گا کہ تم بار بار میرے سامنے کیوں آتے ہو، بلکہ یہ کہے گا :
اڑے تم ”ہرہمیشہ“ کیوں ہمارا سامنے آتا ہے؟
یعنی وہ لفظ ہمیشہ پر زور ڈالنے کیلئے اسے ”ہرہمیشہ“ کہتے ہیں۔

اگر مکرانی کے ساتھ جھگڑا ہو، تُو تُو میں میں ہو رہی ہو، تو مکرانی اپنی بات میں زور پیدا کرنے کیلئے لفظ ”ہم“ اور ”تم“ کے ”میم“ پر زور دے کر اسے ” ہَممم “ اور ” تُممم “ کہتا ہے۔

ہمارے دوست عبید ہاشمی کافی عرصہ شارجہ میں رہے ہیں۔ وہاں کرکٹ میچ بہت ہوتے ہیں، خصوصاً پاکستان اور بھارت کے۔ تو ایک دفعہ وہاں اسی طرح پاک بھارت میچ جاری تھا اور بھارتی ٹیم بیٹنگ کر رہی تھی۔ اسٹیڈیم میں آگے والی نشستوں پر کچھ مکرانی بھی بیٹھے یہ میچ دیکھ رہے تھے۔ وہ ہر گیند پر بھارتی کھلاڑیوں کو خوب برا بھلا کہتے، بلکہ باقاعدہ گالیاں بھی دے رہے تھے۔ پیچھے والی نشستوں پر بھارتی تماشائی بھی بیٹھے یہ سب دیکھ سن رہے تھے۔ اس وقت تو وہ خاموش رہے، لیکن جب پاکستانیوں کی باری آئی تو انہوں نے بھی پاکستانی ٹیم پر ہوٹنگ شروع کی اور مکرانیوں کی طرح کچھ گالیاں بھی دینے کی کوشش کی۔ جیسے ہی انہوں نے کچھ ایسے الفاظ منہ سے نکالے، تو آگے بیٹھے مکرانی غصے سے فوراً پلٹے اور ان کو مخاطب کر کے بولے :
"اڑے او … گالی نئیں دیؤ“
اس پر بھارتی بولے کہ بھائی آپ بھی تو گالیاں دے رہے تھے۔ تو مکرانی میم پر زور لگا کر بولے :
”ہاں ہاں … ہمم دے گا … تمم نئیں دیو“

اگر مکرانی کسی کو برا بھلا کہتا ہے تو یہ نہیں کہتا کہ ”لعنت ہے تم پر“
وہ کہے گا :
”اڑے لعنت ہے تمہارا شِکل کے اوپر“
یعنی وہ لعنت کے ساتھ شکل کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہے تاکہ بات میں زور پیدا ہو۔

اس ”لعنت ہے تمہارا شکل کے اوپر“ کی جگہ ذرا ہلکے انداز میں یہ بھی کہا جاتا ہے :
”اڑے اپنا شِکل گم کرو ادھر سے“
یعنی اپنا منہ لے کر یہاں سے چلے جاؤ

اگر مکرانی یہ دیکھے کہ کوئی شخص کسی راہ چلتی عورت کو تنگ کر رہا ہے، تو کہے گا :
”اڑے او … تمہارا ما بھین نئیں ہے؟ … شرم تو تم کو آتا نئیں ہے“
یعنی وہ اسے غیرت دلانے کیلئے ماں بہن کا رشتہ یاد کراتے ہیں۔

اگر کوئی شخص خواہ مخواہ کی بات کر رہا ہو تو مکرانی اسے کہے گا :
”اڑے تم ھَرُوبھرُو کیا بولتا ہے؟“
یہاں ھَرُوبھرُو کا مطلب ہے خواہ مخواہ۔ ھَرُوبھرُو اصلاً ایک سندھی اصطلاح ہے جسے مکرانی بھی استعمال کرتے ہیں۔

اگر کوئی قَسم کھانے والی بات ہو تو پوری طرح ”اللہ کی قسم“ یا ”اللہ کو مانو“ یا ”تمہیں اللہ کا واسطہ“ کہنے کی بجائے مکرانی صرف ایک چھوٹا سا لفظ ” اَلھ “ بھی کہہ دیتے ہیں، جس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اللہ کو مانو تم یہ کیا کر رہے ہو۔

مکرانی ایک لفظ ”شُوم“ بہت بولتے ہیں۔ شُوم فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے مخالف یا دشمن، یا جو آپ کا خیر خوار نہ ہو اسے بھی شُوم کہتے ہیں۔ جیسے ہم شومئ قسمت بھی کہتے ہیں، یعنی قسمت کی خرابی یا بد نصیبی۔ یعنی قسمت نے ساتھ نہ دیا تو یہ شومئ قسمت ہے۔ مکرانی اگر کسی کوکہے کہ ”جاؤ ڑے شُوم“ تو مطلب ہوا کہ جاؤ ادھر سے تم میرے دوست نہیں، خیر خواہ نہیں۔
کوئی ٹھوکر کھا کر گرنے لگے تو اس کی طرف لپکتے ہوئے آواز لگاتے ہیں :
”اے اے … سنبال سنبال“
یعنی او بھائی سنبھل جا سنبھل جا

یہ تو خیر چند ہی الفاظ ہیں مکرانی لہجے کے جو میرا ذاتی مشاہدہ ہیں، لیکن اگر آپ کو کبھی کراچی کے مکرانیوں کے ساتھ مل بیٹھنے کا موقع ملے اور وہ آپ سے گفتگو کریں تو ان کی ساری باتیں بڑی مزے کی، بے تکلف اور بے ساختہ ہوتی ہیں۔ وہ ہمیشہ بناوٹ سے پاک گفتگو کرتے ہیں اور مخلص دوست ہوتے ہیں۔

Comments

Avatar photo

عبیداللہ کیہر

عبیداللہ کیہر اردو کے معروف ادیب، سیاح، سفرنامہ نگار، کالم نگار، فوٹو گرافر، اور ڈاکومینٹری فلم میکر ہیں۔ 16 کتابوں کے مصنف ہیں۔ 2002ء میں عبید اللہ کیہر کی پہلی کتاب ”دریا دریا وادی وادی“ کمپیوٹر سی ڈی پر ایک انوکھے انداز میں شائع ہوئی جسے اکادمی ادبیات پاکستان اور مقتدرہ قومی زبان نے ”اردو کی پہلی ڈیجیٹل کتاب“ کا نام دیا۔ روایتی انداز میں کاغذ پر ان کی پہلی کتاب ”سفر کہانیاں“ 2012ء میں شائع ہوئی۔

Click here to post a comment