مشرقِ وسطیٰ کی زمین ایک بار پھر لرز رہی ہے۔ اس خطے میں جنگ و جدل، سازشوں، اور عالمی طاقتوں کے مفادات کی کھینچا تانی کوئی نئی بات نہیں۔ مگر حالیہ دنوں میں جو منظرنامہ ابھرا ہے، وہ نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ ایران نے اسرائیل پر جو بیلسٹک میزائل حملے کیے ہیں، وہ برسوں کی دبی ہوئی چنگاری کو شعلے میں بدلنے کا اشارہ ہیں۔ تل ابیب کی فضاؤں میں دھماکوں کی گونج، آگ کے شعلے، اور وزارتِ دفاع کے ہیڈکوارٹر کے قریب اٹھتا ہوا دھواں — یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ جنگ محض دھمکیوں اور دعوؤں کی حد تک نہیں رہی، اب وہ عملی میدان میں اتر چکی ہے۔
ایرانی حکام کے مطابق، انہوں نے "آپریشن وعدہ صادق 3" کے تحت اسرائیل کے متعدد فوجی مراکز، فضائی اڈوں، اور اسٹریٹیجک تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ کارروائیاں ایک ایسے وقت میں کی گئیں جب خطے میں سفارتی و عسکری سرگرمیاں غیر معمولی انداز میں بڑھ چکی تھیں۔ اگرچہ اسرائیل کی ڈیفنس فورسز نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے ایران کی جانب سے بھیجے گئے بیشتر ڈرونز اور میزائلوں کو راستے میں ہی تباہ کر دیا، تاہم کم از کم سات افراد کے زخمی ہونے اور اہم تنصیبات کے متاثر ہونے کی تصدیق اسرائیلی ذرائع سے بھی ہوئی ہے۔
اس کے برعکس اسرائیل کا ردعمل بھی روایتی جوش و خروش سے بھرپور رہا۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایرانی سرزمین پر جوابی حملوں میں کئی فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں ایرانی فوج کے سربراہ جنرل محمد حسین باقری، پاسدارانِ انقلاب کے کمانڈر ان چیف حسین سلامی، اور متعدد جوہری سائنسدانوں کی ہلاکت کے دعوے بھی شامل ہیں۔ اگرچہ ان دعووں کی تصدیق کسی غیرجانبدار ذریعے سے تاحال ممکن نہیں ہوئی، مگر ایک بات طے ہے کہ دونوں اطراف اب پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔
یہ کشمکش صرف ایران اور اسرائیل کے مابین نہیں، بلکہ اس کے پیچھے ایک وسیع تر عالمی سیاسی و جغرافیائی کھیل چھپا ہوا ہے۔ اسرائیل کو براہِ راست امریکی حمایت حاصل ہے، جبکہ ایران، چین اور روس کے ساتھ عسکری و تزویراتی سطح پر قربت بڑھا چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں جب دو متضاد بلاک کھل کر میدان میں آ جائیں، تو بات محض چند میزائلوں اور دھماکوں پر نہیں رکے گی۔ اس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے، خاص طور پر ان مسلم ممالک پر جن کی پالیسیاں یا تو خوف کے تابع ہیں یا مفادات کی قید میں۔
مشرقِ وسطیٰ پہلے ہی بے یقینی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ یمن، شام، لبنان، عراق اور فلسطین جیسے خطے مسلسل بدامنی کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔ اب اگر ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ شدت اختیار کرتی ہے، تو یہ آگ باقی پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔ اس کے فوری اثرات میں فضائی حدود کی بندش، پروازوں کی منسوخی، تیل کی قیمتوں میں اضافہ، عالمی منڈیوں میں ہلچل، اور لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کا خطرہ شامل ہے۔
بین الاقوامی ادارے، خاص طور پر اقوام متحدہ اور یورپی یونین، اس وقت صرف رسمی بیانات دے رہے ہیں۔ دنیا طاقتوروں کے مفادات کے سامنے اتنی بے بس دکھائی دیتی ہے کہ ظلم و زیادتی کے خلاف "عملی اقدام" کا تصور بھی خواب لگتا ہے۔ اسلامی دنیا کی خاموشی مزید افسوسناک ہے۔ ایسے وقت میں جب ایک مسلم ملک پر کھلم کھلا حملے ہو رہے ہیں، بیشتر عرب ریاستیں خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔ کچھ تو پس پردہ اسرائیل کی حمایت یا ہمدردی میں بھی پائے جا رہے ہیں، تاکہ ایران کو کمزور کر کے خطے میں اپنا مفاد مضبوط کر سکیں۔
پاکستان، جو خود کئی دہائیوں سے خطے میں عدم استحکام، دہشتگردی اور عالمی دباؤ کا سامنا کرتا آیا ہے، اس نے حالیہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں فریقین سے تحمل کی اپیل کی گئی ہے اور زور دیا گیا ہے کہ معاملہ سفارتکاری سے حل کیا جائے۔ ساتھ ہی، پاکستان نے اپنی فضائی دفاعی تیاریوں کو فعال کر دیا ہے۔ ایران سے متصل سرحدوں پر جنگی طیاروں کو الرٹ کیا گیا ہے اور انٹیلی جنس اداروں کو بھی چوکنا رہنے کی ہدایت دی گئی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ صورتحال ایک سفارتی آزمائش سے کم نہیں۔ بظاہر ایران سے جغرافیائی قربت ضرور ہے، لیکن نظریاتی طور پر دونوں ممالک میں ایک واضح خلیج پائی جاتی ہے۔ پاکستان جہاں اہلِ سنت کی اکثریت رکھتا ہے، وہیں ایران ایک انقلابی شیعہ ریاست کے طور پر اپنے مخصوص فکری اور سیاسی ایجنڈے کو پورے خطے میں پھیلانے کی کوشش کرتا آیا ہے۔ اسلامی لبادے میں لپٹی ہوئی ایرانی سیاست درحقیقت کئی اسلامی اصولوں سے متصادم نظر آتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کا کردار کسی جذباتی وابستگی پر نہیں بلکہ علاقائی امن، جغرافیائی تحفظ اور بین الاقوامی ذمہ داریوں پر استوار ہونا چاہیے۔ اسی بنیاد پر پاکستان نے حالیہ صورتحال میں غیرجانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں فریقین کو تحمل و تدبر کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا ہے، اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے ضروری عسکری اقدامات بھی کر لیے ہیں۔
آخر میں ایک سوال پوری دنیا کے ضمیر پر دستک دیتا ہے: کیا ہم واقعی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں؟ یا ہمیں ابھی بھی موقع ہے کہ ہم انسانیت، عقل، انصاف اور امن کے راستے کی طرف لوٹ آئیں؟ جنگ کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں رہی، یہ صرف زخم دیتی ہے، نسلیں تباہ کرتی ہے اور دلوں کو پتھر بنا دیتی ہے۔ اگر ایران اور اسرائیل اپنی انا سے اوپر اٹھ کر ایک قدم پیچھے ہٹ لیں، تو شاید دنیا ایک بڑے سانحے سے بچ جائے۔
ورنہ، دھماکوں کی یہ صدائیں صرف مشرقِ وسطیٰ کی وادیوں میں نہیں، بلکہ دنیا کے ہر ضمیر والے انسان کے کانوں میں گونجیں گی، ایک سوال بن کر… کہ کیا ہم نے واقعی امن کو دفن کر دیا؟
تبصرہ لکھیے