ہوم << تصادم اور تغیر کا زمانہ - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

تصادم اور تغیر کا زمانہ - ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

مئی اور جون ۲۰۲۵ کے دوران عالمی منظرنامہ شدید کشیدگی، معاشی غیر یقینی، ماحولیاتی بگاڑ اور سماجی ابال سے عبارت رہا۔ خاص طور پر ایران اور اسرائیل کے مابین بڑھتے ہوئے تصادم نے دنیا کو ایک نئی جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ اسرائیل نے ایران پر حملے میں پہل کی اور شدید حملہ کرکے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جواب میں ایران کی جانب سے اسرائیل پر بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملے کئے، اسرائیل نے ایران کے میزائل اور جوہری تنصیبات اور جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا۔ ایران کی جانب سے ہائپرسونک میزائل رکھنے کی اطلات پر بین الاقوامی ماہرین نے شکوک ظاہر کیے، تاہم یہ اطلاع بھی جنگی نفسیات کی ایک مثال بن کر سامنے آئی۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی "بے شرط ہتھیار بندی اور جوہری پروگرام سے دستبرداری" کا مطالبہ کیا، مشرقِ وسطیٰ میں پہلے ہی امریکی بحری افواج اور میزائل بیڑے تعینات ہیں۔ یہ تمام تر خطرناک صورتحال نہ صرف فوجی تصادم بلکہ سائبر جنگ کی بھی پیش گوئی کر رہی ہے، کیونکہ امریکی سائبر ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایرانی سائبر حملوں کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔

یہ بحران محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، روس، چین اور نیٹو جیسے عالمی پلیئرز کے لیے تشویش کا باعث بن چکا ہے۔ جہاں ایک طرف G7 نے اسرائیل کی خودمختاری کی حمایت کا اعلان کیا، وہیں دوسری طرف اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اسرائیلی کارروائیوں کو ممکنہ جنگی جرائم کے دائرے میں پرکھنا شروع کر دیا۔ اس سفارتی تقسیم سے اندازہ ہوتا ہے کہ عالمی سیاست کس قدر مخمصے میں مبتلا ہے۔

اس کشیدگی کا شدید اثر عالمی معیشت پر بھی پڑا ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق تیل کی طلب اور رسد کے درمیان شدید عدم توازن نے مارکیٹ کو غیر مستحکم کر دیا۔ عالمی سطح پر افراط زر کی لہر، شرحِ سود کی پالیسیوں میں تعطل، اور تجارتی بے یقینی نے عالمی معیشت کو نازک موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ میں فیڈرل ریزرو نے شرحِ سود میں تبدیلی نہ کرنے کا اعلان کیا، جبکہ مستقبل قریب میں ممکنہ کمی کے اشارے دیے جا رہے ہیں۔ برطانیہ، چین، جاپان اور یورپی مرکزی بینکوں میں بھی افراط زر اور معاشی نمو کے مابین توازن کی جدوجہد جاری ہے۔

ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے کے بعد تجارتی پالیسیوں کی غیر یقینی صورتحال نے عالمی تجارتی نظام میں مزید بے چینی پیدا کی ہے۔ تجارتی پابندیاں، سیاسی دھمکیاں اور اتحادیوں میں اعتماد کی کمی نے معاشی عدم استحکام کو مزید تقویت دی ہے۔

ادھر ماحولیاتی تبدیلی کی ہولناکی بھی روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ انسانی سرگرمیوں سے پیدا شدہ گرین ہاؤس گیسز نے قدرتی ماحولیاتی نظام کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کرڈ پول کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ۲۰۲۳ تا ۲۰۲۵ کے گلوبل کبلیکچر ایونٹ نے دنیا بھر کے ۸۴ فیصد مرجانی ریفز کو سفید کر دیا، جس سے سمندری حیات کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ جنگلات کی آگ، شدید گرمی، خشک سالی اور طوفانی بارشوں جیسے مظاہر ماحولیاتی تبدیلی کی ناقابل تردید علامات بن چکے ہیں۔

اس بگڑتے ماحولیاتی منظرنامے کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کچھ اقدامات بھی سامنے آئے ہیں، جیسے "ہائی سیز ٹریٹی" جسے اب تک ۴۹ ممالک نے منظور کیا ہے۔ یہ معاہدہ سمندری حیات، ماحول اور قدرتی ذخائر کے تحفظ کے لیے اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے، مگر زمینی سطح پر اس کے عملی اثرات اب تک محدود دکھائی دیتے ہیں۔

عالمی سیاسی اور معاشی بحران کے ساتھ ساتھ عالمی ادارے عوامی صحت، صفائی اور ثقافتی بیداری کی کوششوں میں بھی سرگرم ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کا مقصد COVID-19 کے بعد صحت کے نظام کو از سر نو استوار کرنا رہا ہے۔ فضائی آلودگی کے خلاف کانفرنسوں اور ویب نارز کے ذریعے دنیا بھر میں بیداری پھیلانے کی کوشش جاری ہے، خاص طور پر اس تناظر میں کہ ہر سال تقریباً ۷ ملین افراد قبل از وقت اموات کا شکار ہو رہے ہیں۔

ادھر سماجی سطح پر انسانی حقوق اور عوامی تحریکیں بھی اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوامی قوت کس قدر فیصلہ کن ہو چکی ہے۔ فلسطینی عوام کے حق میں "گلوبل مارچ ٹو غزہ" کے تحت ہزاروں افراد نے مصر کے راستے انسانی امداد کی راہ داری کھولنے کا مطالبہ کیا، جو نہ صرف انسان دوستی بلکہ عالمی ضمیر کی بیداری کی علامت بھی ہے۔

ثقافتی محاذ پر ۲۰۲۵ کے فلمی میلوں نے عالمی فنون و ثقافت کو پھر سے زندگی بخشی ہے۔ نئے ٹیلنٹ کی آمد، سماجی مسائل پر بننے والی فلمیں، اور بین الاقوامی تعاون پر مبنی پروجیکٹس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا نے فنی انداز سے بھی مسائل پر اظہارِ رائے کی راہیں کھول لی ہیں۔ عالمی یوجا ڈے، جس کا موضوع "One Earth, One Health" ہے، بھی ثقافت اور صحت کے امتزاج کا عالمی مظہر بن کر سامنے آیا ہے۔

صحت کے شعبے میں تشویشناک امر یہ ہے کہ نوجوانوں میں کولوریکل کینسر کی شرح بڑھ رہی ہے، جس کی بنیادی وجوہات میں غربت، ناقص غذائی نظام، اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی شامل ہیں۔ یہ رجحان نہ صرف صحت عامہ کے لیے ایک وارننگ ہے بلکہ معاشرتی اور اقتصادی ڈھانچے کی ناکامی کا آئینہ بھی ہے۔

مستقبل کے امکانات کے حوالے سے تجزیہ کیا جائے تو واضح ہے کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی علاقائی توازن کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ اگر امریکہ یا نیٹو کی براہ راست مداخلت ہوئی تو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کا دائرہ وسیع ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی طاقتیں سفارتی حکمتِ عملی کو بروئے کار لانے کی کوشش کر رہی ہیں، تاہم یہ تنازع اب بھی کسی پائیدار حل سے محروم ہے۔

عالمی معیشت کو سیاسی غیر یقینی، تجارتی پابندیوں، تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ اور افراط زر کے دباؤ نے غیر متوازن کر دیا ہے۔ ایسے میں مرکزی بینکوں کی مالیاتی پالیسیوں، عالمی تجارتی تعاون، اور بین الاقوامی اداروں کی ہم آہنگی ہی استحکام کا راستہ فراہم کر سکتی ہے۔

ماحولیاتی چیلنج دنیا کے لیے سب سے بڑی آزمائش بنتے جا رہے ہیں۔ فضائی آلودگی، سمندری بگاڑ، اور موسمیاتی تباہی سے بچنے کے لیے عالمی سطح پر حقیقی، منظم اور سخت اقدامات کی ضرورت ہے، بصورتِ دیگر انسانی بقا ہی داؤ پر لگ سکتی ہے۔

سماجی تحریکوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ آج کا شہری، خاص طور پر نوجوان نسل، ناانصافی اور کرپشن کے خلاف خاموش نہیں رہتی۔ وہ سوشل میڈیا، احتجاج، اور بین الاقوامی مہمات کے ذریعے اپنی آواز بلند کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو حکومتوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں۔

مجموعی طور پر عالمی حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ بتاتا ہے کہ دنیا اس وقت ایک گہرے عبوری دور سے گزر رہی ہے، جہاں ایک طرف جنگ، سیاسی کشیدگی، ماحولیاتی تباہی اور صحت کے خطرات ہیں، تو دوسری طرف عوامی شعور، ثقافتی بیداری، اور عالمی تعاون کی امید بھی زندہ ہے۔ اگر دنیا مشترکہ حکمتِ عملی، اخلاقی جرات اور اجتماعی وژن کے ساتھ آگے بڑھے تو یہ بحران مواقع میں بھی بدل سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر، یہ الجھاؤ مزید پیچیدگیوں کو جنم دے گا اور انسانی تاریخ ایک بار پھر انتشار، تباہی اور بے یقینی کا شکار ہو جائے گی۔ ہمیں اس نازک نیلے سیارے کے تحفظ کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی کے پرامن استعمال کو ہرصورت میں یقینی بنانا ہوگا لیکن افسوس صد افسوس ہم اس نعمت کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہر گزرتے وقت کے ساتھ دن بدن ہلاکت سے قریب سے قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔