ہوم << اڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا - عبیدالرحمن

اڑنے سے پیشتر بھی میرا رنگ زرد تھا - عبیدالرحمن

دیوان غالب کی یہ چھٹی غزل وفا , عشق , درد عشق اور تصوف کے روایتی مضامین پر مشتمل ہے . البتہ غالب کے انداز کی ندرت کے سبب یہ روایتی مضامین بھی گویا نئے لگتے ہیں . یہ کسی شاعر کا کمال ہے کہ وہ عام اور چلتے مضمون کو بھی اپنے اسلوب بدیع کے سبب دلکش اور دل چسپ بنادے . غالب کی انفرادیت یہ ہے کہ اس نے نئے مضامین بھی نکالے اور وہ نیا انداز بھی لے کر آیا .

غالب کی یہ غزل عشق کے مضمون سے شروع ہوتی ہے اور عشق میں بے حال و خستہ جاں ہو کر فنا ہو جانے پر ختم ہو جاتی ہے. فنا کا یہ مضمون مقطع ہی کے مناسب تھا کہ مقطع کا معنی بھی ختم ہو جانے کے ہیں .
غالب کہتا ہے کہ عشق باہمت لوگوں کا کام ہے جو اس کی مشکلات سے نبرد آزما ہو سکیں . بقول شاعر دیگر , یہ آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے . کم ہمت اور کم حوصلہ لوگ اس میدان میں نہیں اتر سکتے کہ ایسے لوگ تھوڑی سی مشکلات پا کر بل کہ محض دھمکی سے ہی مر جاتے ہیں . پہلے شعر میں عشق کا سارا فلسفہ آ گیا ہے.

غالب کہتا ہے یہ زندگی بھی کیا زندگی ہے جس میں ہر دم موت کی تلوار سر پر لٹک رہی ہے . لوگوں کی تو جب روح پرواز کرنے لگتی ہے تو ان کا رنگ زرد پڑ جاتا ہے مگر میرا تو جیتے جی یہی حال ہے کہ کسی لمحے موت مجھے محبوب سے جدا کر دے گی .

غالب کے بعض شارحین نے تصوف کے پہلو سے بھی اس شعر کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جو زیادہ جچتی بھی ہے , کہ شاعر نے مرنے سے پہلے ہی خود کو مار دیا ہے اعر فنا کے مقام کو پا لیا ہے . وہ موت کے قریب مرنے کی تیاری نہیں کرے گا بل کہ وہ تو ہر دم اس کےلیے تیار ہے . اگر ایسا ہے تو ہم یہی کہیں گے :
یہ مسائل تصوف یہ ترا بیان غالب

شاعر کہتا ہے کہ ابھی میرے ابتدائے عشق کے ایام تھے , میرے خیالات بھی ناپختہ تھے , میں اس وقت بھی وفا کے مضامین اور کتابیں تالیف کر رہا تھا . شاعر نے تالیف کا لفظ لا کر پھر اس کی مناسبت سے نسخہ اور مجموعہ کے الفاظ لائے ہیں . مراعاۃ النظیر کی یہ صنعت کلام میں حسن کا سبب ہے .

شاعر کے مطابق دل سے جگر تک کی خون کی نہر جو اب اپنی خشکی اور ویرانی کے سبب دریائے خوں کے ساحل کا نقشہ پیش کر رہی ہے , کبھی اس کی روانی ,شادابی اور دل کشی کا یہ حال تھا کہ جلوہ گل اس کے سامنے ماند تھا . حالات کے اس تغیر کی وجہ عشق ہے .

جب تک دم میں دم ہے غم کم نہیں ہوتا . قیدِ حیات و بندِ غم دونوں اصل میں ایک ہیں . مرنے سے پہلے آدمی غم سے کیسے نجات پا سکتا ہے . شاعر کی سوچ کے برعکس اللہ والے تو ہر غم سے آزاد ہوتے ہیں . ویسے شاعر کی مراد بھی ظاہری غم اور پریشانیاں ہیں اور ان ان سے کسی کو مفر نہیں . شاعر کہتا ہے اس سب کا سبب دل ہے کہ غمِ دل اسی میں مکیں ہوتا ہے . لیکن اگر دل بھی چلا جائے تو دل کے جانے کا غم و افسوس تو پھر بھی رہے گا .

شاعر کہتا کہ میرے احباب کا یہ خیال تھا کہ میری عشق کی صحرانوردی کا علاج کر پائیں گے . اس کےلیے انھوں نے مجھے قید خانے میں قید کر دیا . لیکن کیسے سادہ تھے کہ اس طرح انھوں نے میرے جسم کو تو قید کردیا مگر میرا خیال تو اب بھی بیابان عشق کا نورد ہے . سو یہ مرض لا علاج ہے . اس کا علاج کسی کے پاس نہیں.

شاعر تخیل کے گھوڑے پر سوار ہو کر کہتا ہے کہ میدانِ عشق کی صحرانوردی کرتے کرتے میں نے اپنا سب کچھ فنا کر دیا اور جب ایک مسافر میری بے کفن لاش کے پاس سے گزرا تو فوراً مجھے پہچان گیا اور پکار اٹھا :
یہ لاشِ بے کفن اسدِ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

یہاں ایک نکتہ ہے کہ اس شعر میں موت اور فنا کا ذکر ہے اور ساتھ ہی آزاد مرد کی ترکیب مستعمل ہے . یہاں ایک لطیف اشارہ اس جانب ہے کہ درحقیقت فنا میں ہی بقا اور آزادی ہے .

غالب کی شاید ہی کوئی غزل ایسی ہو جس ایک یا کئی اشعار اور اسی طرح تراکیب نے مقبولیت نہ پائی ہو . اس غزل کا , تالیف نسخہ ہائے وفا والا شعر اہل ادب میں خاصا مشہور ہے . یہی حال " نسخہ ہائے وفا اور مجموعہ خیال کی تراکیب کا ہے . فیض احمد فیض کے کلیات کا نام بھی نسخہ ہائے وفا ہے . اس کے علاوہ غزل کا دوسرا اور آخری شعر مجبور کرتے ہیں کہ ہم انھیں بار بار پڑھیں . .