خبر ہے کہ اداکارہ عائشہ خان کی سات روز پرانی لاش ان کے فلیٹ سے برآمد ہوئی ہے ۔ وہ بھی ہمسایوں کی اطلاع پر جب بدبو بہت زیادہ پھیل گئی۔
یہ سابقہ مشہور اداکارہ تھیں ۔ وہ کہتے ہیں نہ کہ لاکھوں کروڑوں فینز والی ۔ کئی مشہور ڈراموں اور فلموں میں اداکاری ۔ عمر ڈھلی تو سب جاتے رہے ۔ دو بچے ہیں ۔ دو بہنیں ہیں وہ بھی مشہور اداکارائیں ۔ سب اپنی زندگی میں اتنے مصروف کہ اس تنہا زندگی گزارتی عائشہ خان کا سات دن تک پتہ ہی نہیں چل سکا کہ فوت ہو چکی ۔ فلیٹ میں بدبو پھیلی تو ہمسایوں نے اس پر شکایت کی ۔ دروازہ توڑا گیا تو پتہ چلا لاش سات دن پرانی ہے ۔
موت ایک اٹل حقیقت ہے ۔ سب کو آنی ہے ۔ بس اپنی اور اپنوں سے جڑی زندگی کو کچھ یوں ترتیب دیں کہ کبھی ایسا نہ ہو کہ سات دن آپ کے قریب ترین ۔ اولاد اور بہن بھائی تک بلکل ہی بھول نہ چکے ہوں ۔ نہ تو اپنے وقت میں یوں مصروف ہوں کہ کسی کی فکر نہ ہو اور نہ ہی یوں جئیں کہ آپ کی کسی کو فکر نہ ہو ۔ یہ دولت یہ شہرت رشتوں کو نبھانے اور رشتوں کی قربت کے لیے استعمال کریں ۔ گزشتہ دنوں ایک پوسٹ دیکھی کہ بے اولاد جوڑا تھا ۔ دونوں فوت ہوئے ۔ گھر کسی رشتہ دار کے حصے میں آیا ۔ کسی نے ان کی قیمتی یادوں تک کو نہ دیکھا ۔ کسی نے پرواہ نہ کی ۔ شائد وہ بھی تنہائی میں رخصت ہوئے ہوں۔
ایک دوسری کہانی شیخوپورہ کے آغوش والے دادا جی کی ہے ۔ دولت کی ریل پیل تھی لیکن اولاد ملنا بھول گئی سب مصروف ہو گئے ۔ انہوں نے ایک منفرد فیصلہ کیا ۔ اپنی بڑی جائیداد پر ایک بڑا سکول بنوایا ۔ یتیم بچوں کا سکول ۔ اس کا خرچہ اٹھایا اور وہیں رہنا شروع کردیا ۔ سگے بیٹے پوتے نہ ملتے تھے اپنے پچاس پوتے بنا لئے ۔ جو روز ملتے اور دادا جی کے پاس رہتے ۔ ہمارے ہاں ایسے فیصلے کوئی کوئی کرتا ہے ۔
اسلام آباد میں مسجد رحمت العالمین والے پروفیسر عبید الرحمن بشیر بتا رہے تھے کہ یہ شہر تنہائی کا شکار بزرگوں سے بھرا پڑا ہے ۔ وہ چاہ رہے تھے کہ ایک ایسا اہتمام کریں کہ ان بزرگوں کا ایک کلب بنوا دیں جہاں وہ مل بیٹھ سکیں ۔
ایک محترمہ پروفیسر صاحبہ ہیں ان کی فیملی میں بڑے بڑے آفیسرز اور کامیاب لوگ ۔ لیکن ایک مسئلہ ہے کہ بچے اتنے ملازمت اور آفیشل مصروفیات میں بیرون ملک ہیں یا دور دراز ۔ ایسے دس بارہ بزرگ جوڑے ہیں جو گھروں میں تنہا رہتے ہیں ۔ چاہتی تھیں کہ کاش ہمارے ہاں ایسا ہو جائے کہ ان بزرگوں کو کہیں اکھٹا رکھ لیا جائے ۔ یعنی ایک ایک کمرہ دے کر اور اچھی دیکھ بھال سے ۔ کم سے کم تنہائی میں جینے سے تو بچ جائیں ۔ لیکن ہمارے ایسا نہیں ہوتا ۔ ایسے فیصلے نہیں لئے جاتے ۔ بس اپنے گھر رہنا ۔ تنہائی کا شکار رہنا ۔
مجھے لگتا ہے کہ اب ہمارے ہاں یہ سوچنا پڑے گا ۔ تنہائی ایک معاشرتی مسئلہ ہے ۔ خصوصاً ڈھلتی عمر کے بزرگوں کے لیے ۔ مغربی ممالک اس کی وزارتیں بنا رہے ہیں ۔ یہاں بھی ایسے ادارے بننے چاہیں جہاں تنہائی کا شکار بزرگوں کو رکھا جائے ۔ جن کے اپنے بہت مصروف ہو گئے ۔ یہ عموما بے سہارا اور آمدن کی کمی کا شکار نہیں ہوتے لیکن ایسا رواج نہیں ہے بس اور اسی کا نتیجہ ہے اس طرح عائشہ خان جیسے تنہا موت کے واقعات ۔
دوسرا رواج ہمارے ہاں اپنا گھر ۔ دولت جائیداد وقف کرنے کا بلکل نہیں ہے ۔ آپ بے اولاد ہیں یا آپ کی اولاد مصروف زندگی کی بدولت کہیں جا چکی تو اپنی دولت کو سوشل مقاصد کے لیے استعمال کر لیں ۔ کسی ادارے سے منسلک ہو جائیں کوئی چھوٹا سا فلاحی پراجیکٹ شروع کر دیں ۔ زیادہ نہیں تو روز چند لوگوں کو کھانا کھلانا۔ اگر رقم خرچ نہیں کرنی تو تھوڑا حصہ کسی تعلیمی یا فلاحی مقصد کے لیے ۔ یا خود کسی تعلیمی تدریسی یا اقامتی ادارے میں شفٹ ہو جائیں۔ منسلک ہو جائیں۔ تاکہ آپ کے اردگرد رونق ہو کوئی تو آئے جائے ۔ یہ تو نہ ہو کہ سات دن تک لاش کا کسی کو پتہ ہی نہ چلے ۔
یہ بدلتے معاشرتی حقائق ہیں ۔ تنہائی ایک بڑا مسئلہ ۔ اس بارے سوچنا اور آگے بڑھنا ہو گا ۔ خود اپنے بارے سوچیں اور اپنوں کے بارے بھی ۔
تبصرہ لکھیے