ہوم << آزاد خیالی کا انجام یا غیرت کا جنون؟ - بلال شوکت آزاد

آزاد خیالی کا انجام یا غیرت کا جنون؟ - بلال شوکت آزاد

یہ کوئی قبائلی قتل نہیں تھا۔ یہ کوئی مولوی کے فتویٰ کا نتیجہ نہیں تھا۔ اور نہ ہی یہ کسی مذہبی جنون کی جھلک تھی۔ اسلام آباد کی اُس رات، جب دو گولیاں ایک لڑکی کے سینے میں اتریں، تو خون صرف اس کے جسم سے نہیں بہہ رہا تھا، بلکہ اس آزاد خیالی، اس جدید “محبت”، اور اس لبرل اخلاقیات کے بوسیدہ لاشے کا کفن بھی اسی خون سے تر ہو گیا تھا۔

ثناء یوسف، محض سترہ سال کی ایک چترالی لڑکی، جو ٹک ٹاک پر اپنی خوبصورتی، معصومیت اور "کونٹینٹ" کو بیچنے کے اس لبرل بازار میں مشہور ہو چکی تھی, ایک لمحے میں خاموش کر دی گئی۔ قاتل، عمر حیات عرف "کاکا"، کوئی چچا، ماموں یا قبائلی رشتہ دار نہیں تھا۔ وہ فیصل آباد سے تعلق رکھنے والا ایک عام سا، بے روزگار، لوئر مڈل کلاس کا نوجوان تھا۔ عمر نے ثناء کو کئی بار سوشل میڈیا پر دوستی کی پیشکش کی، مسترد ہوا، دلبرداشتہ ہوا اور بالآخر اُسے قتل کر ڈالا۔

یہ کہانی آج کی نہیں۔ یہ وہ ناسور ہے جو برسوں سے ہماری رگوں میں قطرہ قطرہ انڈیلا جا رہا ہے, کبھی "میرا جسم میری مرضی" کے نعرے میں، کبھی "محبت آزاد ہے" کے سلوگن میں، اور کبھی "مذہب کا معاشرے سے کوئی لینا دینا نہیں" کے فلسفے میں۔

لیکن سوال یہ ہے کہ لبرلز کی چیخ و پکار اب کیوں شروع ہوئی؟ وہی لوگ جو ہمیشہ عورت کی آزادی کی دہائی دیتے ہیں، جو مولوی پر الزام لگاتے ہیں، جو غیرت کو جرم قرار دیتے ہیں، جو اسلامی معاشرتی اصولوں کو "ریگریسیو" کہتے ہیں, اب اچانک شور مچا رہے ہیں کہ "یہ غیرت کے نام پر قتل ہے"۔

غیرت؟
کون سی غیرت؟

قاتل تو وہ عمر ہے جو خود دین سے نابلد، دہکتے نفس کا غلام، موبائل سکرین کے آر پار ثناء یوسف کے حسین چہرے پر عاشق ہو بیٹھا۔ جو اس محبت کو رد ہونے کے بعد، اپنی ناپسندیدگی کو گولی سے بدلنا چاہتا تھا۔ یہ غیرت نہیں، یہ لبرل اخلاقیات کا خالص زہر ہے۔ یہ "آزادیِ اظہار" کے بطن سے پیدا ہونے والا درندہ ہے۔

اگر عمر حیات "قبائلی غیرت" کے زیرِ اثر ہوتا، تو یہ قتل گھر میں مہمان بن کر نہیں، روایتی پنچایت یا جرگہ کی چھتری تلے ہوتا (جسٹیفائی ایبل وہ بھی نہیں ہوتا)۔ لیکن یہاں کوئی جرگہ نہیں، کوئی خاندان کی عزت کا مفہوم نہیں، کوئی قبائلی خاندانی پس منظر نہیں, صرف ایک آوارہ لڑکا اور ایک خودنمائی کرتی ہوئی، ناپختہ عمر کی لڑکی ہے، جن کی “فرینڈ شپ” کو کبھی سند قبولیت میسر نہ ہو سکی۔

تو سوال یہ ہے کہ جب ایک لڑکی اپنا چہرہ، جسم، اور زندگی ہزاروں لوگوں کے لیے ایک عوامی شو بناتی ہے، تو کیا وہ سب لوگ فرشتے ہوں گے؟ کیا ہر آنکھ پاک ہوگی؟

یقیناً نہیں, یہی وہ مقام ہے جہاں مذہب عورت کو کہتا ہے:

"پردہ کر، اپنی عزت کو محفوظ رکھ، اپنی نسوانیت کو فقط اُن آنکھوں کے لیے سنوار جن کا حق تجھ پر ہے۔"

لیکن ٹک ٹاک پر پردہ کون کرتا ہے؟

ٹک ٹاک تو وہ بازار ہے جہاں جتنا بولڈ، اتنی ویوز, جتنا جسم، اتنی شہرت, جتنی ادا، اتنی "فالوونگ"۔

ثناء یوسف کی کہانی اُن لاکھوں لڑکیوں کی کہانی ہے جو "انفلونسر" بننے کی دوڑ میں اپنے حسن کو سرمایہ اور اپنی معصومیت کو ہتھیار سمجھ کر پیش کرتی ہیں۔ وہ یہ نہیں جانتیں کہ موبائل سکرین کے اُس پار، جو مرد بیٹھا ہے، وہ محبت نہیں کرتا۔ وہ ہنٹ کرتا ہے۔ اور جب شکار اس کے ہاتھ نہیں آتا، تو وہ اپنی بزعم خویش مردانگی کا گھٹیا اظہار گولی کی صورت کرتا ہے۔

ایسے وقت میں لبرلز کو مذہب یاد آتا ہے, تاکہ وہ مذہب کو الزام دے سکیں۔

کاش یہ لبرلز ایک لمحے کو رُک کر سوچیں کہ اگر اسلام میں عورت کا پردہ فرض ہے، اگر غیر مرد سے تعلق حرام ہے، اگر “نکاح” کے بغیر محبت کی کوئی اجازت نہیں، تو کیا وہی اسلام ثناء کو زندہ نہیں رکھتا؟

اگر وہ گھر میں مہمان کی حیثیت سے کسی لڑکے کو نہ بٹھاتی، اگر اُسے انکار کے بعد بلاک کر دیتی، اگر وہ خود کو صرف شوہر کے لیے سنوارتی، اگر اس کے دل میں خدا کا خوف ہوتا, تو آج وہ زندہ ہوتی۔

لیکن نہیں, ہمارے معاشرے میں آج جس چیز کو “بیداری” اور “آزادی” کہا جا رہا ہے، وہ دراصل ایک تہذیبی انحطاط ہے۔ یہ وہ دن ہیں جب “کردار” ایک دقیانوسی چیز بن چکی ہے اور “کانفیڈنس” کا مطلب نیم برہنگی ہے۔ یہ وہ دور ہے جہاں بچیاں ٹک ٹاک پر ناچتی ہیں اور ماں باپ فخر سے دیکھتے ہیں کہ

“میری بیٹی اب مشہور ہو گئی ہے”۔

پھر جب وہی بیٹی خون میں لت پت ہو کر سامنے آتی ہے، تو یہی معاشرہ آنکھیں چرا لیتا ہے، اور یہی لبرلز مذہب پر تھوکتے ہیں۔ عجیب منافقت ہے۔ جب تک عورت مرد کے دل کو بہلا رہی ہو، تب تک وہ “قوی، باہمت، ماڈرن” ہے۔ اور جب وہی عورت کسی نفسیاتی مریض کا شکار ہو جائے، تو اسے غیرت کے نام پر قتل قرار دیا جاتا ہے۔

ہمیں اس واقعے سے سیکھنے کی ضرورت ہے, مگر سیکھنے کا مطلب صرف “قاتل” کو کوسنا نہیں، بلکہ اُس نظامِ فکر کا جائزہ لینا ہے جس نے قاتل اور مقتولہ دونوں کو پالا۔

قاتل عمر حیات، ایک نظرانداز شدہ، ناکام، جنسی طور پر محروم، اور لائکس کے بھوکے معاشرے کا پیدا کردہ ہے۔ وہ گلی کا آوارہ ہے جسے نہ تعلیم ملی، نہ کردار، نہ کوئی دینی تربیت۔ اور ثناء یوسف، ایک معصوم لڑکی جس نے فالوورز کی محبت کو حقیقی سمجھ لیا۔ جو اپنے حسن کے ہر زاویے کو ویڈیو میں قید کر کے ہر درندہ صفت آنکھ کے سامنے لے آئی۔ کسی نے اُسے نہ سمجھایا کہ خوبصورتی خدا کی نعمت ہے، بازار کی نہیں۔ کسی نے اُسے نہ بتایا کہ جس "آزادی" کو تم جشن سمجھ رہی ہو، وہ اکثر کفن میں لپٹی ملتی ہے۔

اور اب جو سب سے زیادہ دردناک بات ہے، وہ یہ کہ ایسے واقعات کے بعد کوئی قوم اجتماعی توبہ نہیں کرتی۔ کوئی نصاب نہیں بدلا جاتا۔ کوئی تربیت نہیں کی جاتی۔ صرف ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ بنتے ہیں، دو دن بعد معاملہ دب جاتا ہے, اور پھر ایک نئی ثناء، ایک نیا عمر، اور ایک نئی “آزادی” کا جنازہ نکلتا ہے۔

یہ وقت ہے ہم لبرل ازم کے اس دوغلے پن کو بے نقاب کریں۔
کیا یہ وہی لوگ نہیں جو فحش فلموں کو "فریڈم آف ایکسپریشن" کہتے ہیں؟
کیا یہ وہی لوگ نہیں جو کسی برقع پوش لڑکی کو "اوپریسڈ" کہتے ہیں؟
کیا یہ وہی لوگ نہیں جو مسجد پر پابندی چاہتے ہیں، مگر ناچتی لڑکی پر بین نہیں؟

یہ قتل کسی داڑھی والے کی گولی نہیں تھی۔ یہ قتل تھا اُس لبرل تعلیم، اُس مادر پدر آزادی، اُس "خودمختار جسم" کے نعرے کا، جس نے مرد کو بھی بھیڑیا بنایا اور عورت کو بھی شکار۔

اس لیے میرے عزیزو، اگر اپنی بیٹی کو بچانا ہے، تو اسے پردے کی اہمیت بتاؤ۔ اگر اپنی بہن کو محفوظ رکھنا ہے، تو اسے عشق نہیں، نکاح سکھاؤ۔ اگر اپنی ماں کی عزت بچانی ہے، تو فالوورز نہیں، کردار کی قیمت سمجھاؤ۔

ورنہ جو ہوا، وہ تمہارے گھر میں بھی ہو سکتا ہے, اور تم بھی عمر اور ثناء کی کہانی کا اگلا باب بن سکتے ہو۔

آخری بات ,اسلام کو الزام مت دو۔ اسلام نے عورت کو چھپایا، دنیا نے نچوایا۔ اسلام نے نکاح دیا، دنیا نے “ڈیٹنگ” دی۔ اسلام نے عزت دی، دنیا نے لائکس۔

تو فیصلہ تمہارا ہے, اسلام کی طرف لوٹنا ہے یا "آزادی" کے سراب میں مزید جنازے اٹھانے ہیں؟

اور ہر جنازے کے بعد دل کی تسلی کے لیے کہنا ہے کہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا!

Comments

Avatar photo

بلال شوکت آزاد

بلال شوکت آزاد تجزیاتی و فکری طور پر بیدار اور بے باک، مصنف، کالم نگار اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ ہیں۔ ان کی تحاریر معاشرتی، سیاسی اور عالمی امور پر گہری تحقیق، منطقی استدلال اور طنزیہ انداز کے امتزاج سے مزین ہوتی ہیں۔ اپنے قلم کو ہمیشہ سچائی، انصاف اور فکری آزادی کا علمبردار سمجھتے ہیں

Click here to post a comment