آخرکار، اُسے موت کی سزا سنا دی گئی—اس جرم کے بدلے جو اس نے کیا ہی نہیں تھا۔ یہ الزام کہ اُس نے اپنے ہی بچوں کو قتل کیا، اُس کی خوشحال اور ہنستی کھیلتی زندگی کو ایک لمحے میں برباد کر گیا۔
یہ کہانی اُن دنوں کی ہے جب شدید گرمیوں کا موسم تھا۔ غزنفر اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ایک تنگ و تاریک گلی کے چھوٹے سے کمرے میں رہا کرتا تھا۔ مالی حالات بدترین تھے۔ جو تھوڑی بہت آمدنی ہوتی، وہ بھی گزارے کے لیے ناکافی ثابت ہوتی۔ مالک مکان کی ڈانٹ الگ سننی پڑتی۔ اکثر فاقوں تک نوبت آ جاتی، لیکن صبر کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔
اب اس کے بچے بھی بڑے ہو رہے تھے، ایک بیٹا اور ایک بیٹی، عمر میں صرف ایک سال کا فرق۔ دن بھر بھٹے پر مزدوری کرنے کے بعد جب وہ شام کو گھر آتا، تو دونوں بچے گلی کی نکڑ پر اس کا انتظار کر رہے ہوتے۔ وہ دوڑتے ہوئے آ کر اس سے لپٹ جاتے۔ بچوں کا لمس اُس کی دن بھر کی تھکن کو لمحوں میں ختم کر دیتا۔
پھر وہ انہیں گود میں اٹھا کر گھر آتا، باتیں کرتا، اور اتنے میں اُس کی بیوی کھانا لے آتی۔ وہ سب مل کر کھاتے اور ہنسی مذاق کرتے۔ یہی اُن کا سب سے خوشگوار وقت ہوتا۔ یوں دن رات گزرتے رہے، زندگی کی گاڑی جیسے تنگ راہوں سے گزرتی، مگر چلتی رہی۔
پھر ایک دن اچانک وہ بھٹہ جہاں غزنفر کام کرتا تھا، کمیٹی کے کچھ اہلکاروں نے آ کر بند کر دیا۔ روزگار بند ہوتے ہی چولہا بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ دن رات فاقوں میں گزرنے لگے۔ بچے بھوک سے بلبلاتے، لیکن غزنفر بے بسی سے انہیں دیکھنے پر مجبور تھا۔ کام کی تلاش میں وہ روز تپتی دھوپ میں نکلتا، لیکن ہر شام خالی ہاتھ، مایوس لوٹ آتا۔
اب تو بچے بھی اُس سے دور بھاگنے لگے تھے۔ اُس کی بیوی بھی جھگڑنے لگی تھی۔ غربت کی تپش نے اُس کے مزاج میں تلخی بھر دی تھی۔ وہ اکثر غصے میں بچوں پر چیخنے لگا تھا۔ بات بات پر بیوی کو طعنے دیتا، گویا ساری کائنات اُس کے خلاف ہو گئی تھی۔
پھر ایک دن قسمت نے پلٹا کھایا۔ اسے عارضی کام مل گیا۔ اُسے کچھ تھوڑی بہت مزدوری ملی۔ اُس نے سوچا کیوں نہ بیوی بچوں کے لیے کھانا لے جائے۔ کھانا تھوڑا تھا، لیکن خوشی بڑی۔ وہ گھر آیا، بچوں کو کھانا کھلایا۔ دونوں بچے بھوک سے بےحال کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ ماں باپ نے خود کچھ نہ کھایا، صرف بچوں کا چہرہ دیکھ کر سیر ہو گئے۔
اس رات موسم خوشگوار ہو گیا۔ بارش کی وجہ سے خنکی تھی، اور ایک طویل عرصے بعد سب کو سکون کی نیند آئی۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ صبح کیا قیامت آنے والی ہے۔
جب صبح آنکھ کھلی، تو بچے بدستور سو رہے تھے۔ ماں باپ سمجھے کہ وہ گہری نیند میں ہیں، لیکن جب بیوی بچوں کو جگانے گئی، تو چیخ اٹھی۔ دونوں بچے ہمیشہ کی نیند سو چکے تھے۔ غزنفر کے پاؤں تلے زمین نکل گئی۔ اُس کی بیوی نے اسے شک بھری نظروں سے گھورا اور چیخ کر کہا:
"تم ہی قاتل ہو! تم نے کل جو کھانا لایا تھا، اُسی میں زہر ملا کر لائے تھے تاکہ ان بچوں سے جان چھوٹے۔ تم روز مجھے طعنے دیتے تھے، آج تم نے اپنے ہی بچوں کو مار دیا۔"
وہ حیرت زدہ ہو کر بیوی کو دیکھتا رہ گیا۔ بیوی نے پوری بستی میں شور مچا دیا۔ لوگ اکٹھے ہو گئے۔ سب کی زبان پر ایک ہی بات تھی—"یہ باپ، اپنے بچوں کا قاتل ہے۔"
پولیس آئی اور اُسے گرفتار کر لیا گیا۔ اسے نہ بچوں کی آخری رسومات ادا کرنے دی گئیں، نہ کسی کی ہمدردی ملی۔ وہ اپنی قسمت پر روتا رہا۔ جیل میں بے بس اور خاموش، خود سے لڑتا رہا۔ اُس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ کوئی گواہ نہیں تھا۔ اُسے کچھ بھی کہنا بے فائدہ لگا، اور وہ چپ ہو گیا۔
عدالت میں پیشی کے دوران وہ ہر بار خاموش کھڑا رہتا۔ اُس نے اپنی صفائی میں ایک لفظ نہ کہا۔ یوں لگتا تھا جیسے زبان کھو چکا ہو، جیسے حالات نے اُس کی روح تک سلب کر لی ہو۔
آخر وہ دن بھی آ گیا جب عدالت نے اُس پر جرم ثابت کر کے سزائے موت کا حکم سنایا۔ اُس نے خاموشی سے اپنی بیوی اور عدالت کو دیکھا، اور سر جھکا لیا۔
اُس کی خاموشی ہی اُس کی سب سے بڑی چیخ تھی.
تبصرہ لکھیے