ثنا یوسف قتل ہو گئی۔
اور یہ قتل صرف ایک جان کا نہیں، بلکہ ایک مکمل نسل کی سوچ، اقدار اور راستے کا سوال ہے۔
🔴 یہ قتل ایک بے گناہ لڑکی پر ظلم ہے
جس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔
قاتل نے جو کیا، وہ ناقابلِ معافی جرم ہے،
اور اسے قرار واقعی سزا ملنا نہ صرف لازم بلکہ معاشرتی امن کے لیے ناگزیر ہے۔
لیکن سوال صرف اتنا نہیں کہ قتل ہوا
سوال یہ ہے کہ پھر بھی الزام مذہب پر کیوں؟
نہ قاتل کسی مدرسے کا طالب علم،
نہ مقتولہ کسی قدامت پسند گھرانے کی بیٹی،
نہ ان کے تعلق کی بنیاد مذہب
پھر بھی شور وہی پرانا ہے:
”یہ غیرت کے نام پر قتل ہے!“
”اسلامی سماج عورت کے لیے جہنم ہے“
”مولوی ذمہ دار ہے!“
❗ ثنا یوسف کون تھی؟ قاتل کون تھا؟
ثنا یوسف، ایک پُراعتماد، خودمختار، شناخت کی تلاش میں سرگرداں لڑکی
چترال جیسے روایتی علاقے سے نکل کر شہرت، اظہار اور آزادی کی دُنیا میں داخل ہوئی۔
زندگی نے راستہ دیا، مگر رہنمائی نہ ملی۔
قاتل، فیصل آباد سے تعلق رکھنے والا وہ نوجوان،
جو ”محبت“ اور ”آزادی“ کے نام پر تعلق بنانا چاہتا تھا
لیکن انکار سہا نہ گیا۔
اور یہی “آزاد خیال”، “خودمختار محبت کرنے والا” شخص
ایک خونی درندہ بن گیا۔
📌 لبرل بیانیہ: دوغلا پن اور فریب
ادھر قتل ہوا، اُدھر وہی طبقہ اپنی رٹی رٹائی اسکرپٹ لے کر میدان میں آ گیا:
”یہ مذہب کی پیداوار ہے“
”یہ پدرسری معاشرہ ہے“
”یہ مولوی کا دیا زہر ہے“
لیکن کسی نے نہیں پوچھا:
❓ کیا واقعی یہ غیرت کا قتل تھا؟
❓ کیا مردانگی کا تقاضا یہی ہے کہ انکار پر خون بہا دیا جائے؟
❓ کیا اسلام نے ایسے تعلقات کی اجازت دی تھی؟
نہیں۔
سوال صرف یہ اٹھایا گیا کہ قاتل مسلمان کیوں ہے؟
اور اس جرم کے ذریعے اسلام کو کیسے بدنام کیا جا سکتا ہے؟
⚠️ جب جرم کا رخ دین کی طرف موڑا جائے
یہ سانحہ مذہب کی تعلیمات کا نہیں،
بلکہ ان تعلیمات کو ٹھکرانے کا نتیجہ ہے۔
اسلام:
*عورت و مرد کے تعلق کو نکاح کے بندھن میں لاتا ہے
* زنا اور بے راہ تعلقات سے روکتا ہے
*قتلِ ناحق کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے
“جس نے ایک انسان کو ناحق قتل کیا، گویا اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا” (المائدہ: 32)
پھر سوال دین سے کیوں؟
مولوی سے کیوں؟
اور مردانگی سے کیوں؟
💔 فیس بکی محبت، حیوانی انجام
یہ قتل “غیرت” کا نہیں، بلکہ:
▪ سوشل میڈیا کے بے قابو تعلقات،
▪ آزادی کی غلط تعبیر،
▪ جذباتی ناپختگی،
▪ اور نفس پرستی
کا خمیازہ ہے۔
“میرا جسم، میری مرضی” جیسے نعرے
نہ صرف عورت کو دھوکہ دیتے ہیں،
بلکہ مرد کو بھی خواہشات کے غلام میں بدل دیتے ہیں۔
محبت جب دینی اور اخلاقی حدود سے نکلتی ہے،
تو صرف دل نہیں توڑتی جان بھی لے لیتی ہے۔
❗ دین کو گالی، لیکن دین کی سزاؤں پر اعتراض؟
اسلام ایسے جرائم پر سزائے موت دیتا ہے
تاکہ آئندہ کوئی ناحق خون بہانے سے پہلے سوچے۔
مگر یہی لبرل طبقہ:
▪ جب کوئی درندہ جرم کرے، تو مذہب کو کوسے
▪ جب کوئی عاشق خنجر نکالے، تو مولوی کو گھسیٹے
▪ اور جب شریعت سزا دے، تو اسے “وحشیانہ” کہے
یہ اگر منافقت نہیں، تو اور کیا ہے؟
📍مردانگی کا اصل مفہوم
کیا وہ کروڑوں مرد جو روز اپنی ماؤں، بہنوں، بیویوں، بیٹیوں کی خدمت کرتے ہیں،
مرد نہیں؟
کیا مرد صرف وہی ہے جو کسی کے انکار پر خنجر نکال لے؟
یہ تصور اسلام کا نہیں
یہ لبرل اذہان کی جنسی لبرل ازم کی پیداوار ہے۔
اسلام مردانگی کو تحمل، غیرت، عدل، اور عورت کے احترام سے جوڑتا ہے
نہ کہ جذباتی حیوانیت سے۔
📌 نتیجہ: مذہب نہیں، معاشرتی اخلاق دیوالیہ ہے
یہ واقعہ ہمیں جھنجھوڑ کر یاد دلاتا ہے:
▪ مذہب کی گالی دینا آسان ہے،
▪ اپنی اخلاقی ناکامی تسلیم کرنا مشکل۔
▪ لبرل بیانیہ جذبات بیچتا ہے،
▪ لیکن اقدار نہیں دیتا۔
▪ عورت کو خود عورت دشمن بنانے والا نظریہ،
▪ سب سے زیادہ زہریلا ہے۔
✳️ پیغام: ماں باپ خبردار رہیں!
اپنی بیٹیوں کو صرف “خودمختاری” نہ سکھائیں
انہیں سکھائیں کہ:
🖍️ اعتماد رکھو، مگر حفاظت کے ساتھ
🖍️ محبت کرو، مگر حدود کے اندر
🖍️آزادی مانگو، مگر ذمہ داری کے ساتھ
اور اپنے بیٹوں کو بھی سکھائیں:
🖍️عورت کو تسخیر کا نہیں، تحفظ کا مقام دو
🖍️انکار پر غصہ نہیں، برداشت کا ظرف دکھاؤ
🖍️محبت، اگر کردار سے خالی ہو، تو قتل کی دہلیز تک پہنچتی ہے
کیونکہ یہ دور سادہ نہیں
یہاں محبت کے نام پر خون بہتا ہے،
اور الزام دین پر آتا ہے۔
📌 یاد رکھیں:
سوشل میڈیا کا بے دریغ استعمال،
بے لگام آزادی،
شہرت کی بھوک،
پیسے کی حرص،
اور لبرل طرزِ زندگی
یہ سب ایک ایسا زہر ہیں،
جن سے اگر آپ نے اپنے گھروں اور بچوں کی حفاظت نہ کی،
تو صرف کردار نہیں جنازے بھی اٹھیں گے۔
تبصرہ لکھیے